• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جنرل(ر) شاہدعزیز نے اپنی کتاب میں کارگل آپریشن کے حوالے سے جو لکھا وہ ادھورا سچ ہے۔ عربی میں کہتے ہیں الفضل ماشہدت بہ اعداء(کامرانی وہ ہے جس کی گواہی دشمن دیں )کارگل آپریشن کی منصوبہ بندی اور جسم کو منجمد کردینے والی سردی میں بھارتی فوج کے چھکے چھڑانے والے سرفروشوں کی کامیابی کی شہادت بھارت کے دو سابق آرمی چیف جنرل(ر) وی پی ملک اور پدمن باہنی کے علاوہ وائس چیف آف آرمی سٹاف چندر شیکھر اور ایریا کمانڈر جنرل کشن پال اپنے بیانات، مضامین اور کتابوں میں دے چکے، بہترین فوجی منصوبہ جس نے بھارتی فوجی قیادت کو باؤلا کردیا تفصیل سابق وزیر خارجہ اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما گوہر ایوب خان کی کتاب میں بھی درج ہے۔ اس لئے کارگل آپریشن کو محض اس بنا پر پاکستان کے لئے تباہ کن قرار نہیں دیا جاسکتا کہ یہ سابق فوجی آمر پرویز مشرف کا برین چائلڈ تھا۔ پرویز مشرف کے گناہ بہت ہی ناقابل معافی مگر یہ جرم ؟
پرویز مشرف کی بہادری کا اعتراف بھی ڈی پی ملک نے کیا کہ پاکستان آرمی چیف اپنے ایک بریگیڈئر مسعود اسلم کے ساتھ کنٹرول لائن سے گیارہ کلو میٹر اندر بھارتی علاقے میں رات گزار آئے اور”را“ کے علاوہ بھارتی ملٹری ایجنسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔”یہ ہماری نااہلی اور جنرل پرویز مشرف کی جرأت تھی“ تو پھر غلطی کہاں ہوئی کہ اتنا بڑا اور کامیاب آپریشن پاکستان کے گلے کا پھندا بن گیا؟
عام خیال یہ ہے کہ ضرورت سے زیادہ رازداری ، بھارت کے فوجی ،سیاسی اور سفارتی ردعمل کا قبل از وقت درست اندازہ نہ لگانے کی غلطی، میاں نواز شریف کو اندھیرے میں رکھنے اور فضائیہ کے علاوہ بحریہ کے سربراہوں کو قبل از وقت اعتماد میں نہ لینے کی وجہ سے بھارت کو فوجی، سیاسی اور سفارتی سطح پر موثر اور مدلل جواب دینا ممکن نہ رہا اور یوں ہم پسپائی اور شرمندگی سے دو چار ہوئے مگر بھارتی ردعمل کا ادراک اور مقابلہ کیا اکیلے آرمی چیف کی ذمہ داری تھی یا حکومت اور اس کے اداروں کا بھی کچھ فرض تھا؟
میاں نواز شریف کا موقف یہی ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے انہیں دھوکہ دیا۔ جنرل شاہد عزیز بھی بعد کے حالات کی وجہ سے اس موقف کو درست قرار دیتے ہیں مگر 1999ء میں جب شریف برادران کے بزرگ اور خیر خواہ مدیر محترم نے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کے سامنے میاں صاحب کا یہ موقف رکھا تو کمانڈو جرنیل نے کہا”اگر یہ بات وزیر اعظم آپ کی موجودگی میں میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرکہہ دیں تو پھر مجھے اس کرسی پر رہنے کا کوئی حق حاصل نہیں“۔بزرگ مدیر نے میاں صاحب کو آمادہ کرنے کی کوشش کی کہ وہ آرمی چیف کو بلا کر یہ کہہ دیں کہ آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹر میں ہونے والی بریفنگ کا رگل آپریشن کے بارے میں نہ تھی مگر میاں صاحب نے یہ کہہ کر بات ختم کردی”چھوڑیں جی وہ ہے ہی بہت جھوٹا“۔
میاں صاحب نے واشنگٹن روانگی سے قبل بزرگ اخبار نویس کا یہ مشورہ بھی قبول نہ کیا کہ اگر فوجی قیادت انہیں کلنٹن سے امن کی بھیک مانگنے پر مجبور کررہی ہے تو وہ جنرل پرویز مشرف کو ساتھ لے کر جائیں، میاں شہباز شریف نے بھی اس مشورے کو صائب گردانا تاکہ بعد میں کوئی منفی پروپیگنڈہ نہ ہوسکے۔ کارگل آپریشن کے دوران وزیر اطلاعات سید مشاہد حسین، ڈی جی آئی ایس پی آر بریگیڈئر راشد قریشی اور وزارت خارجہ کے سفید بالوں والے ترجمان کے ساتھ جو بریفننگ دیا کرتے اس سے بھی کبھی یہ تاثر نہ ملا کہ حکومت اور فوجی قیادتSame pageپرنہیں۔ بل کلنٹن کے سیکورٹی ایڈوائزر بروس ریڈل نے بلیئر ہاؤس میں نواز شریف کلنٹن ملاقات کی جو کہانی اپنے مضمون میں بیان کی اس میں بھی ہرگز اشارہ نہیں ملتا کہ یہ صرف فوجی قیادت کا مس ایڈونچر تھا ورنہ امریکہ اور سعودی عرب سے تحفظ کی ضمانت ملنے کے بعد وطن واپسی پر میاں صاحب آسانی سے کارگل کمیشن کے قیام اور آرمی چیف کی برطرفی کا اعلان کرسکتے تھے ۔ برصغیر کو ایٹمی جنگ کے دھانے اور پاکستان کو سیاسی، سفارتی اور فوجی شرمندگی سے دوچار کرنے والے جرنیل اور اس کے ساتھیوں کے خلاف یہ اقدام قومی اور بین لاقوامی سطح پر سراہا جاتا۔
جنرل پرویز مشرف کو چیئرمین جائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کی ٹوپی اکتوبر 1999ء میں پہنائی گئی۔یہ کارگل آپریشن کا انعام تھا یا انہیں برطرفی کے فیصلے سے بے خبر رکھنے کی منصوبہ بندی کا حصہ کیونکہ یہ فیصلہ تو ستمبر کے تیسرے ہفتے میں کرلیا گیا تھا مگر عملدرآمد کے لئے دورہ سری لنکا کا انتظار کیا گیا تاہم پرویز مشرف کو دو ٹوپیاں پہنا کر حکومت نے اخلاقی برتری کھودی یہی وجہ ہے کہ 12اکتوبر کو جرنیل کی برطرفی کا فیصلہ غیر موثر رہا اور فوجی کودیٹا کو سب نے ٹھنڈے پیٹوں قبول کیا۔ جنرل (ر) ضیاء الدین آئی ایس آئی چیف کے طور پر وزیر اعظم کو کارگل آپریشن کے بارے میں آگاہ کیوں نہ کرسکے؟ بطور آرمی چیف اپنے تقرر پر کیوں نہ بتایا کہ فوج اسے قبول نہیں کریگی؟ اور وزیر اعظم نے اپنے ایک ساتھی سینئر کالم نگار کا یہ مشورہ کیوں نہ مانا کہ جنرل جہانگیر کرامت کے بعد دوسرے آرمی چیف کی برطرفی سے قبل ایک بار پھر سوچ لیں کہیں گلے نہ پڑجائے ۔ان سوالات کا جواب تاریخ کے ذمہ ہے۔
اس وقت جبکہ ہمارے حکمرانوں، سیاستدانوں اور دانشوروں کے بقول پاکستان تاریخ کے بدترین دورسے گزر رہا ہے ۔پاک فوج اور خفیہ ایجنسیوں کو امریکہ بھارت کے علاوہ مخصوص مائنڈ سیٹ کے سیاستدانوں، لکھاریوں، این جی او مافیا اور بلوچستان کے قوم پرستوں نے غریب کی جورو بنا رکھا ہے۔ جنرل شاہد عزیز کے انکشافات کی آڑ میں تیرہ سال بعد کارگل کمیشن کے قیام کا مطالبہ کہاں تک درست ہے؟یہ سوچنے کی بات ہے کہ پانچ سال کی بری حکمرانی اور لوٹ مار کے باوجود فوجی قیادت نے نام نہاد جمہوریت کو برداشت کیا، اب جبکہ احتساب و تطہیر کا مطالبہ مقبولیت حاصل کررہا ہے اور عوام کے حقوق و مفادات سے کھلواڑ کرنے والوں کو یہ خدشہ محسوس ہورہا ہے کہ منصفانہ الیکشن سے قبل ا حتساب کا دفتر کھلا تو وہ گرفت سے نہیں بچ سکیں گے۔ ان کے بیرونی سرپرست بھی نہیں چاہتے کہ پاکستان میں ایسی حکومت وجود میں آئے جو استعماری آلہ کار بننے کے بجائے قومی مفادات کا تحفظ کرے تو ایک ا یسے عدالتی کمیشن کے قیام کا مطالبہ شدومد سے ہونے لگا ہے جو دشمنوں سے خراج تحسین حاصل کرنے والے کارگل منصوبے کو غلط اور سر فروشی کی داستان رقم کرنے والوں کو مجرم قرار دے۔
یہ پاکستانی فوج اور قوم دونوں کے دل و دماغ میں بھارتی فوجی، سیاسی اور سفارتی برتری کا احساس پیدا کرنے اور پاک فوج کو کسی نئی شرمندگی سے دو چار کرنے کی شرارت ہے۔ مقصد یہ تاثر پختہ کرنا ہے کہ پاک فوج صرف اقتدار پر قبضہ اور سیاسی معاملات میں مداخلت کرنے کی اہل ہے فوجی معاملات میں بالکل نکھد۔یہ تاثر جان بوجھ کر پیدا کیا جارہا ہے یا ایک مخصوص طبقے کی کج فہمی ، کم ہمتی اور احساس کمتری کا نتیجہ ہے ،اللہ بہتر جانتا ہے۔
تازہ ترین