• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گذشتہ دنوں ن لیگ کے ایک لیڈر نے اپنے دھرنے کے حق میں دلیل دیتے ہوئے کہاکہ اس دھرنے سے خواب گاہِ دماغ کی کھڑکیوں پر لٹکتے ہوئے باریک پردے ہوا کے زیر و بم کے ساتھ جاگ جاگ جائیں گے۔ کمرے میں اونگuتی ہوئی ہلکی نیلی روشنی لہرا لہرا جائے گی۔صبحِ وطن کی شعاعیں پچھلی گلی سے نکل نکل کر دیواروں کے کینوس پرالٹی ترچھی لکیریں کھینچنے لگیں گی۔زمانہ بدل جائے گا۔شہر تبدیل ہو جائیں گے۔ ملک کی تقدیر سنور جائے گی ،رات اور دن میں تقسیم کا عمل شروع ہوگا۔ایک نیا مستقبل وجود میں آئے گا ۔ یہ دھرناایک نئے دور کی تمہید بنے گا ۔ قوس قزح پر زندگی کے پھول کھلنے لگیں گے۔آسمان پر کچھ لکھا جا رہا ہے۔ہمارے ارد گرد کوئی خوشنما کہانی بُنی جا رہی ہے۔حالات کی قبر سے زندگی کی کونپل ابھر نے والی ہے۔
اور آج جب اس دھرنے کا پہلا دن ہے مجھے ایسا لگتا ہے کہ ن لیگ کا دھرناچیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ ن لیگ کا آئندہ الیکشن میں مقابلہ کسی اور پارٹی سے نہیں ڈاکٹر طاہر القادری سے ہے جوخود الیکشن لڑنے کا ارادہ بھی نہیں رکھتے ۔آئیے ذرا دونوں دھرنوں کا موازنہ کرتے ہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری کے دھرنے میں وزیر داخلہ کو شیطان ملک کے نام سے پکارگیا اور نواز شریف کے دھرنے میں رحمن ملک کے حق میں نعرے لگائے جاتے رہے۔ ن لیگ کے دھرنے کا مقصد الیکشن کمیشن کو مضبوط بناناہے جب کہ ڈاکٹر طاہر القادری کے دھرنے کے مطالبات میں ایک شق الیکشن کمیشن کو تحلیل کرنے کے متعلق بھی تھی کہ یہ الیکشن کمیشن اپوزیشن اور حکومت کے درمیان مُک مُکا کے نتیجے میں وجود میں آیا ہے ۔ڈاکٹر طاہر القادری کے دھرنے میں لاکھوں لوگ تھے جب کہ اچانک ن لیگ نے اپنے سیکڑوں کے دھرنے کومارچ میں بدل دیا۔ ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ آئے ہوئے لوگ پانچ دن ہر طرح کے موسم کی سختیاں برداشت کرتے ہوئے اپنی اپنی جگہ پر جمے رہے جب کہ ن لیگ کے دھرنے کو پہلی بارش ہی بہا کر لے گئی ۔
ن لیگ نے اپنے دھرنے کے جومطالبات پیش کئے ان کی روح میں اس کے سوا کچھ نہیں تھا حکومت طاہر القادری کے ساتھ کیا ہوا معاہدہ فوری طور پر ختم کردے ۔جماعت اسلامی اور کچھ دوسری جماعتیں اس دھرنے میں اس لئے شریک ہوئی ہیں کہ کراچی میں ووٹر لسٹیں درست نہیں بن رہیں اور چیف الیکشن کمیشن نے نئی حلقہ بندیاں کرانے سے بھی انکار کر دیا ہے۔آخر میں ن لیگ نے دھرنا کا مقصد الیکشن کمیشن سے اظہارِ یک جہتی قرار دے دیا کہ الیکشن کمیشن آئین کے تحت وجود میں آیا ہے وہ اس میں کوئی تبدیلی نہیں لانے دیں گے۔ ایسی صورت حال میں ن لیگ کی پوزیشن عجیب ہے ایک طرف وہ اپنی شریک جماعتوں کے اس مطالبہ کی بھی حمایت کررہی ہے کہ کراچی میں الیکشن کمیشن نئی حلقہ بندیاں کرائے اور دوسری طرف الیکشن کمیشن جو کچھ کررہا ہے اس کے حق میں بھی ہے اور الیکشن کمیشن کے ہاتھ مضبوط بھی کرنا چاہتی ہے ۔یہاں کئی سوال جنم لیتے ہیں کیا الیکشن کمیشن کو مضبوط کرنے کیلئے ن لیگ کو کسی دھرنے کی ضرورت تھی ۔کیا طاہر القادری کے دھرنے کا تاثرختم کرنے کیلئے نون لیگ نے بغیر کسی اہم مقصدکے اس دھرنے کا اعلان کیاتھا۔کیا دھرنے کا کوئی اہم مقصد تھا ہی نہیں۔یادداشت میں شامل مطالبات کے متعلق سن کرفاقی وزیر اطلاعات بھی یہ پوچھنے مجبور ہوگئے کہ کیا ن لیگ کا دھرنا الیکشن کمیشن کے حق میں ہے یا اس کے خلاف۔نون لیگ اس سوال کا کیا جواب دے کیونکہ وہ خلاف ہے بھی اور نہیں بھی ۔ دراصل قصہ یہ ہے کہ نون لیگ اس مروجہ الیکشن کمیشن کے حق میں ہے جس کے تحت چوروں لٹیروں کو الیکشن لڑنے کی اجازت ہے اور اس الیکشن کمیشن کے خلاف ہے جو آئین کی دفعہ 62 اور 63 کو درمیان میں لے آئے اور مہینہ بھر تحقیق کرائے کہ امیدوار ٹیکس چور تو نہیں اس نے بجلی یا گیس کا بل ادا کیا یا نہیں وغیرہ وغیرہ ۔
ن لیگ نے الیکشن کمیشن کو جو یادداشت پیش کی ہے کیا وہ یادداشت اسمبلی میں بیٹھ کر الیکشن کمیشن کو بھیجتے تو اس کی کیا زیادہ اہمیت نہ ہوتی اس کام کے لئے اتنے لوگوں کو تکلیف دینے کی ضرورت کیوں پڑی۔اور پھر اس میں کئی ایسے مطالبات درج ہیں جن کا الیکشن کمیشن سے کوئی تعلق نہیں۔ الیکشن کمیشن بھلا کون سے اختیار کے تحت گورنرز کو ہٹائے گا یا سندھ اور بلوچستان میں ایوزیشن لیڈر کی تقرری کرائے گا۔آئین کے تحت جو اختیارات ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے الیکشن کمیشن میں دئیے ہیں ان میں کوئی ایسا اختیار موجود نہیں تو پھر یہ مطالبہ الیکشن کمیشن سے کیوں کیا گیا۔ن لیگ کے لیڈران حتیٰ کہ چوہدری نثار تک خود یادداشت پیش کرنے الیکشن کمیشن کیوں نہیں گئے۔ایک سوال یہ بھی ابھر کر سامنے آیا کہ کیا پھر کسی معاہدہ کے تحت ن لیگ نے اپنے دھرنے اور مطالبات کی شکل بدل دی ہے۔دوسری طرف الیکشن کمیشن نے اعلان کردیا ہے کہ انتخابی نشانات حاصل کرنے کیلئے صرف وہی پارٹیاں درخواست دے سکتی ہیں جنہوں نے اپنی پارٹی کے اندر انتخابات کرائے ہیں اور الیکشن کمیشن کے مطابق100کے قریب پارٹیاں ایسی ہیں جنہوں نے اپنی پارٹی انتخابات نہیں کرائے ۔یقینا ان میں ن لیگ بھی شامل ہے ۔معاملات کس ڈگر پر جارہے ہیں ۔ابھی چند روز کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ عوام ن لیگ اور دوسری جماعتوں کے اس دھرنے کے ڈرامہ کو حیرت اور پریشانی دیکھ رہے ہیں کہ وہ لوگ جن کے ہاتھوں میں ملک اور قوم کی باگ و ڈور ہے یہ کیا تماشا کررہے ہیں ۔یہ احتجاج تھا یا چند سیاسی پارٹیوں کی کوئی پکنک تھی ۔جس میں حکومت نے پکنک منانے والوں کوچھتریاں بھی فراہم کیں ۔اس پکنک میں نواز شریف اور شہباز شریف نے شرکت کیوں نہیں کی۔میرا خیال ہے کہ ن لیگ کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ کس طرح وہ دوبارہ اقتدار میں آسکتی ہے ۔اسے لگ رہا ہے کہ وفاق میں تو کجا اسے دوبارہ صوبے میں حکومت بنانے کا بھی موقع نہیں ملے گا۔ن لیگ کیلئے پنجاب میں عمران خان ہی کافی تھے اوپر سے ڈاکٹر طاہر القادری بھی آگئے ہیں۔
تازہ ترین