• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اُم فاطمہ

ایک عورت ہی خوب صورت معاشرہ تشکیل دے سکتی ہے

کائنات کے اس خوبصورت رنگ کو محبت ، عزت اور حفاظت رب کائنات نے اسلام جیسے پیارے دین کے ذریعے بخشی ہے۔ عورت کو وراثت میں حصے کا حقدار بنایا حق مہرکا حقدار بنایا ۔ عورت اگر ماں ہے تو اس کے قدموں تلے جنت ہے ۔بیٹی ہے تو رحمت کا باعث ہے اچھی تربیت اور اس کے فرض سے حسن و خوبی سے سبکدوش ہونے والے کو جنت کی بشارت دی گئی۔ عورت اگر بہن ہے تو بھی محبت و رحمت و برکت ہے۔ غرض اسلام میں عورت کا ہر روپ خوبصورت اور پیارا ہے۔ باعث محبت و سکون ہے ۔ بیوی کے روپ میں عورت کو گھر کی ملکہ بنایا گیا اور بچوں کی پرورش اور تربیت کی ذمہ داری دے کر معاشی ذمہ دار ی مرد کے کاندھوں پر ڈال دی۔

اس طرح فرائض کی تقسیم رب کائنات نے کردی ،تاکہ عورت پوری یک سوئی سے ایک نسل کی بہترین پرورش کرے۔

آج مغرب مسلمان گھرانوں کا مضبوط نیٹ ورک توڑنے کی بھرپور کوشش میں مصروف ہے۔ وہ ہر حربہ استعمال کررہا ہے، جس سے مسلمان عورت گھر اور بچوں کی ذمہ داری کو بوجھ اور ظلم سمجھ کر چھوڑ دے اور گھر سے باہر نکل کر چاکری کرے اس کے لئے اس نے آزادی اور حقوق نسواں کا نعرہ لگایا۔ گویا تعلیم حاصل کرکے گھر میں نہ بیٹھو بلکہ دفتروں میں نوکری کرو۔ ایک اچھی نسل کو پروان نہ چڑھاؤ۔

رب کائنات نے تو عورت کو ’’گھر کی رانی‘‘ بنایا، مگر مغرب کے پرفریب نعرے نے اسے ’’نوکرانی‘‘ بنادیا۔ عورت بے چاری گھر اور نوکری کے درمیان ’’گھن چکر‘‘ بن کر رہ گئی۔

اکثر گھرانوں میں جھگڑے کا سبب عورت کی ’’جاب‘‘ ہوتی ہے۔ مرد چاہتا ہے کہ عورت گھر اور بچوں کو پوری توجہ اور وقت دے ،جب کہ عورت کے لیے جاب کے ساتھ ساتھ یہ سب کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اس طرح اس کی صحت بھی متاثر ہوتی ہے اور وہ ذہنی طور پر پریشان رہتی ہے۔ گھر پہنچتی ہے تو گھر والے سمجھتے ہیں مزے کرکے آئی ہیں کوئی ایک کپ چائے پوچھنے کا روادار نہیں ہوتا۔جب کہ عورت مرد کے لیے اُس کے آنے سے پہلے کھانے اور چائے کا اہتمام کرکے رکھتی ہے۔

مضبوط گھرانہ ہی مضبوط معاشرے کی بنیاد ہوتا ہے ۔لہٰذا گھرانے کو مضبوط بنانے کے لئے معاشرے میں موجود ان اسباب کا خاتمہ کرنا ہوگا جو معاشرے میں انتشار کا باعث ہیں۔ وہ تمام مسائل حل کرنے ہوں گے جو معاشرے میں بے سکونی و پریشانی کا باعث ہیں۔

ہمارے معاشرے میں بہت سے ایسے مسائل ہیں جن کی وجہ سے آج گھرو ں میں لڑائی جھگڑے اور تشدد بڑھ گیا ہے ۔حکومت کو چاہیے کہ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے فوری طور پر قدامات کرے

نہ کہ تحفظ نسواں بل کے خوبصورت نام سے بستے گھروں کو اجاڑنے کی کوشش کریں ۔ عورت کو مزید بے آسرا اور بے سائبان کرنے کی سازش ہے، تاکہ بیٹی باپ کی شفقت سے ، بھائی کے مضبوط حصار سے اور شوہر کے سایہ دار سائبان سے محروم ہوجائے۔

یہ دراصل بین الاقوامی ایجنڈا ہے، جس کا اصل مقصد مسلمانوں کا خاندانی نظام تباہ کرنا ہے۔ عجلت میں یہ بل پاس کرکے عوام کی آنکھوں میں بالخصوص عورت کی آنکھوں میں دھول جھونکی جارہی ہے۔ قوم کو میٹھا زہر دیا جارہا ہے۔ آج کی عورت کو سکون چاہیے، وہ محبت چاہیے، رشتوں میں مضبوطی اور استحکام چاہیے۔ بچوں کے لئے مضبوط سہارا اور اچھا مستقبل چاہیے جبکہ یہ بل عورت کو ان سب چیزوں سے محروم کردے۔

اسلام دشمن قوتوں کا یہ خواب ہے۔ پاکستان اسلامی نہ رہے بلکہ لبرل یا سیکولر بن جائے۔ اسلامی ایٹمی طاقت کو فساد و انتشار میں مبتلا رکھ کر ہی دشمن اپنی سازشوں میں کامیاب ہوسکتا ہے۔

تازہ ترین