• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

منیر نیازی کا ذکر کرتے ہوئے بہت سے ’’ہم‘‘ لاحقے کے طور پر استعمال کئے جا سکتے ہیں لیکن فی الحال ہم ان کے ’’ہم شہر‘‘ ہونے پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ حوصلہ افزائی کے لئے اکثر کہا کرتے تھے ’’توں میرے شہر دا اہل بندہ ایں‘‘۔ وہ ہر لمحہ ایک شاعر کی زندگی گزارتے تھے اور ساہیوال کے حلقوں میں ان کے اپنے خاندان کے بزرگوں کے ساتھ ہونے والے مکالمات بھی مزے لے لے کر دہرائے جاتے تھے۔ بہت سے دوستوں کو تو یقین تھا کہ ان کی مہدی حسن کی گائی ہوئی مشہور غزل ’’کیسے کیسے لوگ ہمارے جی کو جلانے آجاتے ہیں‘‘ بھی انہوں نے اپنے خاندان والوں کے بارے میں لکھی تھی لیکن غالباً ایسا ہے نہیں کیونکہ یہ غزل جب بہت پہلے چھپی تھی تو اس کا پہلا مصرع ’’جب بھی گھر کی چھت پر جائیں، ناز دکھانے آجاتے ہیں‘‘ تھا۔ بہت حسین اور خوش شکل انسان تھے اور یہ قابل یقین ہے کہ وہ جب بھی گھر کی چھت پر جاتے ہوں گے ان کو ناز دکھا کر جی جلانے والے یا والیاں آتی ہوں گی۔ عمر کے گزرنے کے ساتھ ساتھ ’ناز دکھانے‘ والوں کے بجائے ’لوگوں‘ سے شکایت کا اظہار بڑھ گیا، اور سب سے زیادہ اس مجبوری کا۔

ان سے الگ میں رہ نہیں سکتا اس بے درد زمانے میں

میری یہ مجبوری مجھ کو یاد دلانے آجاتے ہیں

منیر نیازی کے ساتھ میل ملاقات میں یہ تو ہمیشہ سے یقین تھا کہ وہ ایک بہت بڑے شاعر ہیں لیکن پچھلے چند برسوں میں یہ احساس بڑھ گیا ہے کہ وہ اپنے خطے کے واحد عظیم شاعر تھے جو عوام کے بنیادی اعتقادات اور نظریات کو محسوساتی سطح پر گہرائی میں دیکھ سکے اور انہیں الفاظ کا جامہ پہنا سکے۔ ان کی پنجابی شاعری میں باالخصوص ان دیکھی ہستیوں کا خوف جاگیرداری دور کے جبر میں پیدا ہونے والی سوچ کا مظہر ہے: یہ سوچ پورے ہندوستان میں تمام مذاہب کے ماننے والوں میں قدر مشترک ہے۔ منیر نیازی کو لوگوں سے جو شکایت تھی اس کی جھلک اس واقعے کے حوالے سے بھی سمجھی جا سکتی ہے۔

ایک مرتبہ سول سروس اکیڈمی لاہور میں ایک مشاعرہ منعقد ہوا جس کا اہتمام مشہور شاعر ن م راشد کے اکلوتے بیٹے شہر یار راشد(مرحوم) نے کیا تھا۔ اس مشاعرے میں منیر نیازی، سرمد صہبائی، سعادت سعید اور مجھے مدعو کیا گیا تھا(ان دنوں میرے مشغلوں میں اردو شاعری میں تک بندی کرنا بھی شامل تھا)۔ ظاہر بات ہے کہ ہم شاگرد پیشہ جونئیرز کو پہلے پڑھنا تھا۔ ہم لوگوں نے بڑے جتن کئے لیکن مجمع پر مکمل سناٹا طاری رہا اور کوئی داد فریاد کی آواز سنائی نہ دی۔ ہمارے بعد سرمد صہبائی نے بھی ایڑی چوٹی کا زور لگا لیا لیکن مجمع کی دل شکن خاموشی نہ ٹوٹی۔ آخر میں منیر نیازی اسٹیج پر آئے اور شاعری سنانے کے بجائے نئے بننے والوں افسروں کے مجمع سے پوچھنے لگے ’’ایہہ دسو جو تہانوں سمجھ کیوں نہیں آوندا؟‘‘۔ اس کے جواب میں پچھلی صفوں سے ایک نوجوان افسر نے بلند آواز میں کہا ’’سر آپ سنائیں، ہمیں سمجھ آ رہی ہے‘‘ منیر نیازی نے فی الفور جواب دیا ’’پتر تہاڈے کول سنن والے کن ہی نہیں ہین سمجھ کیویں آونی اے‘‘۔ مشاعرے کے بعد جب ہم واپس لوٹ رہے تھے تو میں نے منیر نیازی کو غیر معمولی حد تک اداس دیکھا۔

کانوں سے عاری بہرے مجمع میں رہنے کی مجبوری کا منیر نیازی کو ہمیشہ گہرا غم تھا۔ اس طرح کے گہرے دکھ کا اظہار استاد سلامت علی خان نے بھی کیا تھا۔ ستر کی دہائی میں میرے ساتھـ ’’پنجند‘‘ ٹی وی پروگرام پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ان کی معاشرے میں بہت عزت کی جاتی ہے اور مالی اعتبار سے بھی کوئی پریشانی نہیں ہے لیکن اس سر کو سننے والا کوئی نہیں ہے جسے وہ مہینوں اور سالوں کی ریاضت کے بعد تخلیق کرتے ہیں۔ غالباً یہی دکھ شاہ حسین کا بھی تھا جب انہوں نے کہا تھا کہ:

میاں گل سنی نہ جاندی سچی

سچی گل سنیوے کیونکر، کچی ہڈاں وچ رچی

(میاں سچی بات سنائی ہی نہیں دیتی۔ سچی بات کیسے سنی جائے جب نا پختہ باتیں ہڈیوں میں رچ بس گئی ہوں)

اس معاشرے کا المیہ ہی یہ ہے کہ بہت سے لوگوں کی ہڈیوں میں ناپختہ باتیں اس قدر رچ بس گئی ہیں کہ سچی بات کو سمجھنا تو کجا، اس کا سنا جانا بھی ناممکن ہو چکا ہے۔ آپ اپنے بہت سے قریبی ملنے والوں کو دیکھیں جن کو آپ بار بار ہر طرح کی شہادت اور اعداد و شمار سے ایک حقیقت کی نشاندہی کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں، وہ وقتی طور پر خاموش ہو جاتے ہیں لیکن جب بھی موقع آتا ہے وہ وہی بات کرتے ہیں جس کو غلط ثابت کرنے کیلئے آپ نے اتنی مغز ماری کی ہوتی ہے۔ مثلاً آپ ہزاروں مثالوں سے ثابت کردیں کہ سیاسی کرپشن ایک مسئلہ تو ہے لیکن یہ ملک کی ترقی کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ نہیں ہے: ہندوستان، بنگلہ دیش اور چین میں پاکستان کے برابر کرپشن ہے لیکن وہ تیزی سے ترقی کر رہے ہیں لیکن زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد کے مصداق وہ سیاسی کرپشن کے خاتمے کو معاشی ترقی کا منتر سمجھنے پر بضد رہیں گے۔

کچی باتوں کے ہڈیوں میں رچنے کے سبب، بہت سے لوگ اپنی بربادی سے بھی آگاہ نہیں ہو پاتے۔ فلاحی ریاست اور عوامی سہولتوں کی مخالفت میں امریکہ کی غریب ترین ریاستوں کے مفلوک الحال سفید فام دیہی لوگ پیش پیش ہیں۔ ان کو نسل پرستی کا ایسا ٹیکہ لگایا گیا ہے کہ وہ ہر فلاحی قانون کو سوشلزم کا اطلاق سمجھ کر رد کر دیتے ہیں۔ شاید کارل مارکس اور فریڈرک اینجلز کا یہ کہنا درست ہی تھا کہ سوچنا بھی انسان کی بس کی بات نہیں کیونکہ اس کا تعین بھی مادی حالات ہی کرتے ہیں۔ شاید کانوں سے عاری ہونے کا یہی سبب ہے اور ہم خواہ مخواہ نہ سننے والوں سے شکوہ زن ہیں لیکن کیا کیا جائے کہ زندگی انہی حالات میں جدوجہد کرنے سے ترتیب پائی ہے۔ بقول منیر نیازی:

ہوتے ہوتے جینے کے بھی لاکھ بہانے آجاتے ہیں

تازہ ترین