• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ن لیگ کا طا ہر القا دری کے خلاف دھرنا ان کی سیاسی طاقت کو تو آشکار کر ہی گیا۔ بارش نے بھی دھرنے کو دھر لیا۔ جان کے لالے پڑے تو کوئیک مارچ کہلایا۔ جیو نیوز کے مطابق چو ہدری نثا ر بارش کے پر زور اسرار پر سا تھیوں کو چھوڑ کر کھسک گئے ۔مشا ہد پوری طمطراق کے ساتھ طو ل و عرض سے قا فلو ں کی آمد کی نو ید سنا رہے تھے۔ ”پلے نہیں دھیلا اورسجانے چلے تھے میلہ“۔ اسحاق ڈار فر ماتے ہیں کہ” امپورٹڈ شخص“ پاکستان کی سیاست میں دخل در معقولات کا مر تکب ہوا۔ جبکہ قائدین کے چاروں طبق روشن رکھنے کی” قادری ادا “مجھے بھاگئی۔ اُدھر قا دری صا حب کے ارادے بھا نپئے کرپٹ مافیا کو ٹھکانے لگانے کے لئے میدان عمل میں کود پڑے ۔ کاش تحر یک ِانصاف، جماعت اسلامی اور قا دری یکسو ہو جائیں ۔گا رنٹی کر تا ہوں کر پٹ عنا صر کا قلع قمع ہو کر رہے گا ۔ن لیگ کے دھرنے کا اصل مقصد شا یدشق 62پر عملدرآمد کو روکنا اور الیکشن کمیشن کو با لواسطہ دباؤ کے نیچے لانا تھا۔
انوا ع اقسام کے فراری کیمپوں میں رہنے والے، مصیبت میں عوام کو داغِ مفارقت دینے والے اپنے گم گشتہ سالوں کا جواب دینے کی بجائے ڈاکٹر طاہر القا دری سے ان کے گز رے پانچ سا ل کاحساب مانگ رہے ہیں ۔پاکستان سے لو ٹی اور منی لانڈرنگ کے ذریعے منتقل کی گئی دولت کے بل بو تے پر دیارغیر کو اربوں رو پے کے کارو بار کی زینت بنانے وا لے کسی طور بھی حساب دینے پر تیا ر نہیں ۔آپ پچھلے 30سال سے قومی خزانے اور اداروں کے امین رہے ،مالی بے ضابطگی، بد انتظا می ، نااہلی اور اقربا پر وری پر وضاحت لازم ہے۔ یادش بخیر ماضی میں اقتدار سے محرومی ہوئی تو جوں رینگی نہ پتا ہلا بلکہ مٹھا ئیاں تقسیم ہوئیں، اقتدار کے ساتھی تو اقتدار چُھٹتے ہی چھٹ گئے جبکہ لکھاری چپ سادھ گئے( آجکل اپنے اُس وقت کے لکھے فقروں کی توضیح پیش کر رہے ہیں) اور قریبی ساتھی وعدہ معاف گوا ہ بن گئے ۔
وسائل کی بد انتظامی ،غیر منصفانہ اور غیر شفاف تقسیم نے صو بائی وحدت کو جو نقصان پہنچا یا ہے اُس نے ابھی کئی اوررنگ جمانے ہیں ۔سرائیکی صوبہ کا مطالبہ صرف اس لیے پنپ سکا کہ لاہور اور گردونواح کی ترجیح نے باقی اضلاع کی تحقیر کی۔
تحریک انصاف کا جادو سر چڑھ کر بو ل ہی رہا تھا کہ ڈا کٹر طا ہر ا لقا دری نے بھی تھر تھلی مچا دی ۔ 2رو پے رو ٹی سکیم ، دانش سکول، لیپ ٹاپ ، ییلو کیب ، یو تھ فیسٹیول ، جنگلہ بس سروس نے ایک بات طے کر دی کہ ان کے پاس صوبہ کے مستقبل کے لئے کوئی منصوبہ بندی نہ تھی بلکہ صرف پیش بندی تھی کہ عمران خان کا کیسے قلع قمع کیا جائے۔عمران خان سے سیاسی نز اع کا یہ مطلب نہیں کہ آپ قو می وسا ئل کو حلوائی کی دُکان بنا کر اپنی سیاسی دُ کان چمکائیں ۔پہلے پیپلز پارٹی کو اقتدار کے سنگھا سن پر فا ئزکیا اور سا ڑھے تین سال پنجاب میں شیرو شکر رہے ۔جب پیپلز پارٹی سے طلاق لی یا دی تو صرف اس لئے کہ عمران عفریت بن چکا تھا ۔حکو مت چھوڑنی نہیں تھی یونیفیکشن بلاک کے نام پر لگائی منڈی سے اور بلاتمیز خریداری کی۔ نو جوانوں کے اندر اپنے لئے مخالفت دیکھی تو بہلانے پھسلانے کے لیے قومی خزانے کے منہ کھول دئیے ۔نو جوانوں کے ساتھ شہر لاہور کے تیور بھی ان کے لئے ایک لمحہ فکریہ۔800 ارب روپیہ جو وفاق کی طرف سے پنجاب کے حصہ میں آیا اس کا بیشتر حصہ لاہور پر نچھا ور کر دیا۔ صو بائی اسمبلی اور کیبنٹ گئی بھاڑ میں۔ 100ارب کی ”جنگلہ ایکسپریس “2012کا مالی سکینڈل بن چکا۔ ہر چند کہ لا ہور کے تیو روں نے قا ئدین کو جذ با تی کر دیا اور پو رے پنجاب کے و سائل لا ہور کی نذر ہو چکے لیکن جذ بات کی برانگیختگی ایسی بھی نہ تھی کہ جاتی عمرہ اور ماڈل ٹا ؤن کے گرد و نواح کی تزئین و آرائش سے محو رہتے ۔ ایم۔ ایم ۔عالم روڈ پیرس کی” شا نزہ لیزے “کو مات دے چکی ۔2کلومیٹر سے کم سڑک 60کروڑ میں مکمل ہوئی کس کے لئے ۔کہا نہیں تھا شر فا کر پشن کو فنو ن لطیفہ کا درجہ دے چکے ۔بہا ول پور، راجن پور ، بھکر، میانوالی، شجاع آباد ، ٹیکسلا، پنڈ دادن خان اور اٹک کی قسمت میں دو کرو ڑ رو پے کی ایک کلو میٹر سڑک بھی آسکتی تھی ؟
پچھلے کالم میں سہواََامین ا للہ کی جگہ اپنے ہم نام حفیظ ا للہ کا نام لکھا گیا۔حفیظ ا للہ اسحاق صا حب غیر سیاسی اورانتہائی باوقار افسر ر ہے۔ اس غلطی پر معا فی چا ہتا ہوں۔ اس کالم میں ان کے اردگرد سرکاری افسران کی گو شمالی کا خیال تھا ۔پچھلے ہفتے ای۔میل اورSMS کی بھر مار میں کچھ افراد کے بارے میں ہو شرباء داستانیں ملیں ۔
ایک مر گلہ کی پہا ڑیوں کیCRUSH پر حکومت ِ پنجاب کو 25کروڑ کی تھوک تو”باعث تو قیر“بیوروکریٹ کی مر ہونِ منت ہے اور یہ CORRUPTIONBERGکی ایک TIP ہے۔ سرکاری خزانے کو سوا لاکھ روپے ماہانہ کی تھوک لگانے والا ایک لکھاری آجکل آپے سے باہر آ چکا ہے۔ مالکوں کے اندر تو شرم نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں جنہوں نے اپنے دھندے کے لئے سر کاری خزانے سے پیٹرول ، گاڑی، تنخواہوں پر بہت سے لوگ پال رکھے ہیں ۔ تحریریں پڑ ھو تو اپنے آپ کو فرشتوں کے درجے پر رکھ رہے ہیں ۔حرام مال ہو ش وحواس کو متا ثر تو کرے گاہی ۔
عزت مآب چیف جسٹس جو تا ریخ میں نام درج کروا چکے ہیں کیا اس بے ایمانی ، بد انتظا می پر بھی کوئی ایکشن لیں گے ؟پبلک فنڈز کے بہیمانہ استعمال کی پڑ تال بھی ہو گی؟
تحریک انصا ف کے 30اکتوبر 2011کے جلسہ کے بعد لاہور کے رکشا ؤں کے پیچھے انوا ع و اقسام کے سیاسی پیغا مات میں اضا فہ ہوا ہے۔ ن لیگ جو 30اکتوبر کے جلسہ کے متا ثرین میں سے ایک رہی ۔پو ری شدو مد اور منصو بہ بندی کے ساتھ رکشا ء کو اپنی اشتہاری مہم کا حصہ بنا چکی ہے ۔چند مہینے قبل ”ہم نے بدلا ہے پنجاب اب بدلیں گے پاکستان“کے رکشہ سلو گن پر صوبہ پنجاب اور صوبہ بہار کا تقا بلی جائزہ لیا تو ثا بت ہوا کہ پنجاب کا بدلنا مو جو دہ قا ئدین کے بس کی بات ہی نہیں تھی۔چنانچہ پچھلے چند ہفتوں سے” شریف فیملی فو ٹو “کے ساتھ رکشاؤں کے پیچھے ایک نئی عبارت د یکھنے کو ملی ”یہی چراغ جلیں گے تو رو شنیاں ہو ں گی“ جبکہ تصویروں میں نما یاں چہرے ما ضی میں بھر پور حکمرا نی کر چکے ہیں، لیکن بھاگوں ما ری قوم کو اند ھیروں سے نہ نکال سکے ۔ملک سنوا رنے کے لئے جتنی روشنی درکار وہاں یہ چرا غ بیکار۔ تصور چشم میں بد قسمت قوم جب آز مو دہ چرا غو ں کو اپنے منڈھیروں پر آ ویزاں پاتی ہے تو مستقبل کوتاریک دیکھتی ہے ۔قائدین ایک دفعہ پھرعوام کی ہڈیوں کا رس نچوڑ کراپنے چراغوں کو جلا بخشنے کے لیے ہمہ تن تیار۔اے اہلِ وطن اگر اپنے مستقبل کوچکا چو ند رو شنی سے منور کر نا ہے تو یہ چراغ گُل کرنا ہو ں گے ۔ان چراغوں کو طاق نسیاں پر دھرنا ہوگا۔اگر یہی چراغ جلے تو پھر طوق غلامی آنے والی کئی نسلوں کے گلے کا زیور ہی ٹھہرے گا۔اس دفعہ غلامی کے شکنجے میں آئے تو کئی صدیوں تک نسلوں کو غلام ہی رہنا ہو گا ۔نو جوا نو ں کو ان چرا غو ں کو بجھا نے کے لئے اٹھ کھڑا ہو نا ہو گا۔مسئلہ نئی نسل کے مستقبل کا ہے۔ گلی گلی ،گا ؤں گاؤں ، شہر شہرکر پٹ مافیاکا با جا بجانا ہو گا۔ قا ئدین کی کر پشن کے قصوں سے درو دیوار سیاہ کرنے ہوں گے اور چراغ تو گُل کرنے ہی ہوں گے۔
یہی چراغ بجھیں گے تو روشنیاں ہوں گی
تازہ ترین