• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دنیا میں اگر غیر منطقی انداز میں بحث کرنے کا عالمی مقابلہ منعقد کروایا جائے تو ہم پاکستانی نہ صرف اس میں اوّل آئیں گے بلکہ دیگر ممالک کی ضمانتیں ضبط کروا دیں گے ۔اس فن میں ہمارا کوئی ثانی نہیں ،تانگے والے سے لے کر کالم نگاروں تک اور ”ٹیلنٹڈ یوتھ“ سے لے کر یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز تک ،الحمد للہ ہر شخص اس میں ید طولیٰ رکھتا ہے اور اپنے آپ کو امانئول کانٹ سے کم نہیں سمجھتا مگر حرکتیں نریندر مودی جیسی کرتا ہے ۔اس قوم کے اٹھارہ کروڑ میں سے ساڑھے سترہ کروڑ افراد ،چاہے ان کی گھر میں دو ٹکے کی اہمیت نہ ہو ،باہر اپنے تئیں یوں دانش و حکمت کی بات کرتے ہیں گویا علم کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ان کے اندر موجزن ہو ۔ بات اگر اس حد تک ہی رہے تو قابل برداشت بھی ہے،مصیبت یہ ہے کہ دانائی اور فلسفے کے یہ ایفل ٹاور بحث کے بنیادی اصولوں کو رگید کر اپنی بات کی حقانیت ثابت کرنے پر مصر ہوتے ہیں جس پر ہنستے ہنستے رونا آ جاتا ہے ۔
اگلے روز ایک محفل میں اس بات پر دھواں دھار بحث ہو رہی تھی کہ کیا ایک جھوٹے شخص کی بات پر، جوسامنے نظر آنے والے ایک لاکھ کے مجمع کو چالیس لاکھ افراد کا تاریخ ساز اجتماع کہے ،یقین کیا جانا چاہئے ؟اب اصولاً اس بات کے دو جواب ہو سکتے تھے کہ صاحب ،وہ مجمع واقعتا چالیس لاکھ کا تھا کیونکہ فلاں فلاں اخبار یا چینل نے لگ بھگ اتنی ہی تعداد رپورٹ کی تھی،پھر گفتگو آگے چلتی۔یا دوسری صورت میں اس بات کا سادہ جواب یہ تھا کہ نہیں جھوٹے کی با ت پر کسی صورت اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔لیکن جو دلیل دی گئی وہ کچھ یوں تھی :”جو لوگ اس شخص کو جھوٹا کہہ رہے ہیں وہ ذرا اپنے گریبانوں میں جھانک کر یہ بتائیں کہ وہ ان سیاست دانوں کی حمایت کیوں کرتے ہیں جودھاندلی سے ایک کروڑ ووٹ لیتے ہیں لیکن دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اٹھارہ کروڑ کے نمائندہ ہیں، کیا یہ بڑا جھوٹ نہیں ہے!“منطق ملاحظہ ہو۔ایک تو یہ دلیل ہی غیر متعلق ہے ،بحث ہو رہی تھی مجمع کی تعداد پر اور جواب آ یا عوام کی نمائندگی کے طریق کار میں سے خرابی نکال کر۔سوال یہ تھا کہ کیا فلاں شخص جھوٹا ہے ،جواب آیا کہ اس سے بڑا جھوٹ تو اور لوگ بھی بول رہے ہیں۔ سوال تھا کہ کیا جھوٹے شخص کی بات پر اعتبار کیا جانا چاہئے، جواب آیا کہ آپ خود جھوٹے سیاست دانوں کی بات پر اعتبار کرتے ہیں،شرم آنی چاہئے ۔جب ان صاحب سے پوچھا گیا کہ وہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اسمبلیاں اٹھارہ کروڑ عوام کی نمائندہ نہیں جبکہ گذشتہ انتخابات کا ٹرن آؤٹ بھی 44فیصد تھا تو جواب آیا کہ جن 57فیصد نے ووٹ نہیں ڈالا وہ اس نظام کے خلاف ہیں ۔پھر محترم سے سوا ل کیا گیا کہ وہ کوئی ایسا نظام بتا دیں جو دنیا میں کامیابی سے رائج ہو اور جس میں نوزائیدہ بچے کی نمائندگی بھی یقینی بنائی جاتی ہو تو جواب آیا ،آپ دنیا کی بات چھوڑیں ،پاکستان کی بات کریں !کیا ایسے شخص کو اصول بحث میں نوبل انعام نہیں ملنا چاہئے ؟
فرض کریں کہ پاک بھارت تعلقات پر بحث ہو رہی ہے ۔کوئی شخص اٹھ کر یہ کہتا ہے کہ پاکستان کو چاہئے کہ وہ کالعدم دہشت گرد تنظیموں کے لیڈران اور کارکنوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرے تاکہ اندرون و بیرون ملک دہشت گردی کا خاتمہ ہو سکے ۔اب اس بیان پر گفتگو کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ دیکھا جائے کہ کیا واقعی اس اقدام سے ملک کو فائدہ پہنچے گا یا پھر سٹیٹس کو کی پالیسی ہی ٹھیک رہے گی۔ لیکن گفتگو کچھ اس طرح ہوسکتی ہے :”اچھا تو آپ کا مطالبہ بھی وہی ہے جو انڈیا کا مطالبہ ہے ،اس کا مطلب ہے کہ آپ انڈیا کی زبان بو ل رہے ہیں ،یعنی ثابت ہوا کہ آپ بھارتی ایجنٹ ہیں اور ”را“ کے پے رول پر ہیں ،پھر تو آپ کے ”موساد“ سے بھی تعلقات ہوں گے …کیا بھارت میں شیو سینا جیسی دہشت گرد تنظیمیں نہیں ،بھارت کو چاہئے کہ پہلے وہ ان پر پابندی لگائے ،کشمیر سے قبضہ چھوڑے پھر بات کرے ۔“لو کر لو گل!
فرض کریں کہ آپ یونیورسٹی میں کوئی تحقیقی مقالہ لکھ رہے ہیں جس میں اس بات کا تعین کرنا مقصود ہے کہ آیا قائد اعظم پاکستان کو ایک سیکولر ریاست کے روپ میں دیکھنا چاہتے تھے یا پھر خالصتاً اسلامی ریاست قائم کرنا چاہتے تھے۔جب آپ مقالہ مکمل کر چکے تو یہ نتیجہ نکلا کہ قائد کا ویژن در حقیقت ایک اسلامی ریاست کا قیام تھا۔ لیکن آپ کے پروفیسرکو، جو کہ لا دین قسم کا شخص ہے ،مقالہ بالکل پسند نہیں آتا ۔وہ کہتا ہے ”بہتر ہے کہ آپ اپنے مقالے کے نتائج پر نظر ثانی کریں ۔“ آپ کہتے ہیں ”سر،میں نے پوری تحقیق کے بعد یہ پیپر لکھا ہے ۔“ جواب آتا ہے ”میں آپ سے متفق نہیں ہوں ،آپ نے محنت نہیں کی ، آپ اہل نہیں ہیں،آپ کی ریسرچ گرانٹ ختم کرنی ہوگی ۔“کتنی خوبصورت” دلیل “ہے ! یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کے مقالے کا نتیجہ یہ نکلے کہ قائد ایک ایسا سیکولر پاکستان چاہتے تھے جیسا انہوں نے اپنی 11اگست کی تقریر میں فرمایا تھا اور اس صورت میں آپ کا پروفیسر ملّا راکٹی ٹائپ کوئی شخص ہو تو اس صورت میں بھی آپ کی ریسرچ گرانٹ ختم ہونے کا قوی امکان ہے ۔”دلیل“ دونوں کی ایک سی ہو گی ۔
کیا وجہ ہے کہ ہماری گفتگو میں استدلال کم اور شدت اور جذباتیت زیادہ آ گئی ہے ؟ کیوں ہم سوال گندم اور جواب چنا کے فارمولے پر عمل پیرا ہیں ؟ کسی بات کا دلیل سے جواب دینے کی بجائے لڑاکا عورتوں کی طرح طعنے کیوں دیتے ہیں ؟ اپنی کم علمی کا اعتراف کرنے میں سُبکی کیوں محسوس کرتے ہیں؟جب مطالعہ کرنا گوارا ہی نہیں تو بھر بحث کا شوق کیوں ؟مذہب پر بات کرنا ہم نے نازک مسئلہ بنا لیا ہے جبکہ ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ مذہب ہماری پوری زندگی کا احاطہ کئے ہوئے ہے ؟جس بات کا جواب بن نہیں پڑتا ،اس کے جواب میں خود ہی مفتی بن کر فتویٰ صادر کرنے کیوں بیٹھ جاتے ہیں؟یہ کوئی ایسے سوال نہیں جن کا جواب کسی کو معلوم نہ ہو۔ہم نے جس محبت کے ساتھ انتہا پسندی کو گلے لگایا تھا ، آج ہم سب کی گردنیں اس میں جکڑی گئی ہیں ۔آج ہمارا حال وہ ہے جو سترہویں صدی میں پادریوں کا تھا جنہیں گلیلیوپر اس بات کا غصہ تھا کہ اس نے یہ ملحدانہ بات کیسے کہہ دی کہ سورج ساکت ہے اور زمین اس کے گرد گھومتی ہے جبکہ ان کی الہامی کتابوں میں توکچھ اور لکھا تھا ۔سائنس یا دلیل کے زور سے جواب دینے کی بجائے چرچ نے بزور شمشیر گلیلیو کو مجبور کیا کہ وہ معافی مانگے جو اس عظیم سائنس دان کو مانگنی پڑی ۔اس کے بعد چرچ کو اپنی غلطی تسلیم کرنے اور معافی مانگنے میں تین سو سال لگے ۔
مسلمانوں کا کیس تو اور بھی خراب ہے۔مذہب، فلسفے یا الٰہیات پر جو بحث و مکالمے ایک ہزار سال پہلے کے بغداد میں ہوا کرتے تھے ان کا تصور بھی اب محال ہے ۔جن مسلمان حکماء پر بجا طور پر فخر کرتے ہوئے ہم کہتے ہیں کہ ان کی کتابیں یورپ کی درس گاہوں میں پڑھائی جاتیں تھی،ان کی مذہبی بحثیں سننے کا ہم میں سے کسی میں حوصلہ نہیں۔اگر آج ان مکالموں کا اردو ترجمہ کروا کے پاکستان کے سکولوں میں دینیات کی جماعت میں پڑھایا جائے تو سب سے زیادہ اعتراض انہی کو ہوگاجو ان عظیم مسلمان فلسفیوں پر ناز کرتے نہیں تھکتے۔عیسائیوں کو تو اپنی غلطی ماننے میں تین سو سال لگے تھے ،ہمیں شاید ابھی صدیاں درکار ہیں !
تازہ ترین