• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کارگل جنگ کے بارے میں جو انکشافات لیفٹیننٹ جنرل (ر)شاہد عزیز نے اپنی کتاب میں کئے ہیں ان سے ہر کوئی واقف ضرور تھا مگر ان پر یقین کرنے کو دل گوارہ نہیں کرتا تھا لیکن جب سے ”معرکہ کارگل“ کے بارے میں حالیہ انکشافات سامنے آئے ہیں انہیں سن کر ہر محب وطن پاکستانی تذبذب کا شکار ہے اور ان انکشافات نے مسئلہ کارگل کو بھی ایک بار پھر زندہ کردیا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ ایک فوجی تنظیمی ڈھانچے میں ایک سینئر فوجی افسر جو پاک فوج کے چیف آف جنرل اسٹاف بھی رہ چکے ہیں نے کسی جھجک کے بغیر کارگل میں ہونے والی مضحکہ خیز شکست پر بات کی ہو۔
جنرل شاہد عزیز اپنی کتاب ”یہ خاموشی کہاں تک“ میں کارگل جنگ کو پاکستان کی تاریخ کا ایک المناک حادثہ قرار دیتے ہیں جس کی اصل حقیقت ملٹری کمانڈروں سے پوشیدہ رکھی گئی تھی۔ جنرل شاہد عزیز کے بقول کارگل ایڈونچر جنرل مشرف اور ان کے4 جنرلوں کی ذہنی اختراع تھی، اس منصوبے پر دوسرے کور کمانڈرز اور ملک کی دیگر مسلح افواج مثلاً نیوی اور ایئر فورس کو بھی اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا جبکہ جنرل شاہد عزیز جو اُس وقت آئی ایس آئی کی تجزیاتی ونگ کے ڈائریکٹر جنرل تھے کو بھی کارگل معرکے کے بارے میں اس وقت علم ہوا جب اس منصوبے پر عملدرآمد کیا جاچکا تھا۔ جنرل شاہد عزیز کے بقول جنرل مشرف اور ان کے منصوبہ سازوں کو یہ یقین تھا کہ کارگل آپریشن کی کامیابی کے نتیجے میں سیاچن میں بھارتی سپلائی رک جائے گی، بھارتی فوج کو سیاچن سے نکلنے پر مجبور کردیا جائے گااور بھارت مسئلہ کشمیر پر پاکستان سے مذاکرات کیلئے آمادہ ہوجائے گا مگر ایسا کچھ نہ ہوسکا بلکہ معرکہ کارگل نے کشمیر کاز کو نقصان پہنچایا کیونکہ یہ منصوبہ ساز بھارتی ردعمل اور ایڈونچر کے مجموعی نتائج کا درست اندازہ نہیں لگاسکے تھے۔
واضح ہو کہ معرکہ کارگل کے ابتدائی دنوں میں جنرل مشرف قوم اور میڈیا کے سامنے یہ دعویٰ کرتے رہے کہ دراصل اس دراندازی میں مجاہدین ملوث ہیں مگر وہ اس بناوٹی دعوے پر زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکے اور حقیقت اس وقت عیاں ہوگئی جب چین کے دورے کے دوران جنرل مشرف کی جنرل شاہد عزیز سے ہونے والی ٹیلیفونک گفتگو بھارتی انٹیلی جنس نے ٹیپ کرلی جس میں وہ کارگل ایڈونچر کے بارے میں جنرل شاہد عزیز سے رپورٹ لے رہے تھے۔
کتاب میں کئے گئے انکشافات کے بعد ملک میں ایک نئی بحث نے جنم لیا ہے کہ آیا کارگل ایڈونچر میں سیاسی قیادت کی رضامندی شامل تھی یا یہ جنرل مشرف اور ان کے چند ساتھیوں کا انفرادی فیصلہ تھا؟ جنرل مشرف ابھی تک اس بات پر اڑے ہوئے ہیں کہ معرکہ کارگل میں اُس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کی ایماء شامل تھی اور انہیں اعتماد میں بھی لیا گیا تھا۔ جنرل مشرف کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ انہوں نے جو کامیابیاں فوجی محاذ پر حاصل کی تھیں اسے نواز شریف نے سیاسی محاذ پر گنوا دیا۔ انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ نواز شریف نے اُن سے کہا تھا کہ ”آپ ہمیں کب کشمیر دے رہے ہیں؟“ جبکہ نواز شریف، جنرل مشرف کے تمام دعوؤں کی تردید کررہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ معرکہ کارگل میں شدید جانی نقصانات کے باعث جنرل مشرف نے اُن کی منتیں کرکے ان سے سیز فائر کیلئے امریکہ جانے کی درخواست کی تھی۔ نواز شریف کے بقول کارگل آپریشن کے بعد اس کے مضمرات کی وجہ سے جنرل مشرف کے ساتھ ان کی کشیدگی میں اضافہ ہوا جو اکتوبر 99ء کی بغاوت پر منتج ہوا۔آج قوم ایک بار پھر تذبذب کا شکار ہے کہ کون سچ اور کون جھوٹ بول رہا ہے؟ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ کارگل ایڈونچر سے نواز شریف کو اعتماد میں لیا گیا تھا تو کیا جنرل مشرف کو ایک ایسا منصوبہ Consiveیا بنانا چاہئے تھا جس کے مقاصد واضح نہیں تھے اور اس کے مضمرات اور نتائج کا درست طریقے سے اندازہ نہیں لگایا گیا تھا جس کے باعث پاکستان کو شدید جانی و مالی نقصانات اٹھانے پڑے۔ دوسری طرف اگر مشرف نے نواز شریف کو اعتماد میں نہیں لیا تھا تو نواز شریف کو چاہئے تھا کہ وہ امریکہ سے واپس آکر کارگل کے مس ایڈونچر پر جنرل مشرف کو برطرف کرتے، نواز شریف کے اس اقدام پر قوم اُن کا ساتھ دیتی مگر انہوں نے ایسا نہ کرکے ان شکوک و شبہات کو جنم دیا کہ یہ منصوبہ ان کے علم میں تھا۔
جنرل مشرف کے قریبی ساتھیوں کا یہ کہنا ہے کہ وہ اپنے آپ کو عقل کُل سمجھتے تھے، وہ جب تک صدر مملکت اور آرمی چیف کے عہدے پر فائز رہے اُن کے انفرادی فیصلوں نے ملک کو شدید نقصان پہنچایا جن میں9/11 کے بعد صرف ایک فون کال پر افغان جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینا، سانحہ لال مسجد میں فوجی طاقت کا استعمال، ڈاکٹر عافیہ صدیقی سمیت کئی پاکستانیوں کو امریکہ کے حوالے کرنا اور کارگل ایڈونچر جیسے متنازع فیصلے شامل ہیں۔ آج جنرل مشرف کا اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنے کے بجائے اپنی ہی فوج کے ایک سابق چیف آف جنرل اسٹاف، سابق کور کمانڈر اور نیب کے سابق سربراہ کو غیر متوازن شخصیت، Characterless اور Derailed قرار دینا ان کی اخلاقی معیار کی نشاندہی بھی کرتا ہے۔ پاک فوج ملک کا ایک بہترین ڈسپلن ادارہ ہے لیکن اس کی یہ بدقسمتی رہی کہ اس کی قسمت میں جنرل یحییٰ خان اور جنرل پرویز مشرف جیسے لوگوں کی سربراہی لکھی تھی جن کے غلط فیصلوں کے نتیجے میں سقوط مشرقی پاکستان اور کارگل جیسے واقعات تاریخ کا سیاہ باب بنے۔
جنرل شاہد عزیز کا کتاب میں یہ اعتراف کرنا کہ ”صرف ایک دن ہاتھ میں لگام تھی اس کے بعد پاؤں بھی رقابوں میں نہ رہے“ ایک اچھی روایت ہے تاہم زیادہ اچھا ہوتا کہ وہ جب اعلیٰ فوجی عہدوں پر فائز تھے تو مشرف کے Blunders کا حصہ بننے کے بجائے اپنے عہدے سے مستعفی ہوجاتے۔ ”یہ خاموشی کب تک“ یہ سبق بھی دیتی ہے کہ فوج کے سینئر افسران کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ کسی مصلحت کے تحت اگر آج ان کے ماتحت افسران خاموش ہیں تو کل جب وہ اپنے عہدے پر فائز نہیں ہوں گے تو ان کے غلط فیصلوں کو جونیئر افسران ایک اور کتاب کی صورت میں منظر عام پر لاسکتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ معرکہ کارگل پاکستان کی تاریخ کا بدترین سانحہ ہے جو ایک بے مقصد اور غیر دانشمندانہ فیصلہ تھا۔ یہ ایک ایسا جوا تھا جس میں بھارت کو واضح عسکری اور سفارتی فتح جبکہ پاکستان کو شرمناک شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ اس مس ایڈونچر کے نتیجے میں نہ صرف پاکستان کی رسوائی ہوئی بلکہ ایک ہزار سے زیادہ معصوم جانیں بلامقصد ضائع کردی گئیں اور قوم یہ سوچنے پر مجبور ہوئی کہ ملک کی باگ دوڑ کس قسم کے ذہنی صلاحیت کے حامل افراد کے ہاتھوں میں ہے۔ وقت آگیا ہے کہ کارگل واقعے پر جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جائے تاکہ اس بات کا تعین کیا جاسکے کہ ”معرکہ کارگل“ کی منصوبہ بندی، اس کی شکست اور سیکڑوں فوجیوں کی شہادت کا ذمہ دار کون ہے؟
تازہ ترین