• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گرچہ وزیرِ اعظم پاکستان، عمران خان کے دورۂ امریکا اور اس موقعے پر اُن کی امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ سمیت دیگر امریکی وفود سے اعلیٰ سطح کی ملاقاتوں اور باضابطہ مذاکرات کے حوالے سے نہ صرف بہت کچھ منظرِ عام پر آ چکا ہے، بلکہ ان پر تجزیوں، تبصروں کا سلسلہ بھی جاری ہے، لیکن تا حال بہت کچھ وقوع پذیر ہونا باقی ہے۔ اس موقعے پر دونوں رہنمائوں نے ایک دوسرے کو یقین دہانیاں کروائیں، ایک دوسرے سے عہد و پیماں کیے اور تجدیدِ تعلقات کی فضا قائم ہوئی۔ ہر چند کہ وزیرِ اعظم، عمران خان کے ’’سحر انگیز‘‘ دورۂ امریکا کا رومانس ہنوز موجود ہے ،لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کے کچھ نتائج بھی سامنے آئیں گے یا نہیں۔ اگر آئیں گے بھی، تو کتنے عرصے بعد ۔ نیز، کیا وہ حکومت اور عوام کی توقعات کے عین مطابق ہوں گے۔ اس طرح کے بے شمار سوالات اپنی جگہ برقرار ہیں۔ علاوہ ازیں، ایک انتہائی اہم پہلو بھی ابھی تک منظرِ عام پر نہیں آیا اور اگر آیا بھی تو شاید اپنی پوری جزئیات کے ساتھ سامنے نہ آسکے۔ اس پہلو کا تعلق سی آئی اے، پینٹاگون اور جی ایچ کیو کے درمیان روابط سے ہے اور اس مقصد کے لیے چیف آف آرمی اسٹاف، جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی کے سربراہ، لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید بہ طور خاص وزیرِ اعظم کے ساتھ دورۂ امریکا پر گئے تھے، جس پر اپوزیشن نے بہت سخت الفاظ میں تنقید بھی کی ۔ اس موقعے پر حزبِ اختلاف نے یہ سوال بھی اُٹھایا کہ وزیرِ اعظم کو آرمی چیف کو اپنے ساتھ امریکا لے جانے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ نیز، اپوزیشن کی جانب سے یہ مؤقف بھی اختیار کیا گیا کہ چوں کہ عمران خان کی حیثیت ایک کٹھ پُتلی وزیرِ اعظم کی ہے، لہٰذا پاکستان میں آرمی چیف کی اہمیت کے اعتبار سے اصل معاہدے اُنہی سے طے کیے جائیں گے۔ بہر کیف، یہ بات تو طے ہے کہ افغانستان میں طویل عرصے تک جاری رہنے والی جنگ کے، جس میں امریکا کو شکست کا سامنا ہے، امریکی معیشت پر بھی منفی اثرات مرتّب ہوئے ہیں، جب کہ افغانستان میں امریکی فوجیوں کی ہلاکتوں کی وجہ سے امریکا میں عوامی و سیاسی سطح پر بھی تشویش اور ناراضی پائی جاتی ہے۔ امریکی صدر کی جانب سے پاکستانی وزیرِ اعظم کو امریکا مدعو کرنے کا بنیادی مقصد افغانستان کے معاملے میں درکار پاکستان کا تعاون ہے ، کیوں کہ امریکا اس حقیقت کو تسلیم کر چکا ہے کہ وہ پاکستان کی معاونت کے بغیر افغانستان میں اپنے اہداف کسی صُورت حاصل نہیں کر سکتا۔ واضح رہے کہ افغانستان میں موجود اتحادی افواج کی رسد بھی پاکستان ہی سے گزرتی ہے اور اس صُورتِ حال کے پیشِ نظر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے اپنے طرزِ عمل میں تبدیلی لاتے ہوئے ایک نئی حکمت عملی کے تحت ’’ڈُو مور‘‘ کے لیے پاکستان کی اہمیت تسلیم کرتے ہوئے وزیرِ اعظم کو دورۂ امریکا کی دعوت دی۔ چُوں کہ افغانستان میں قیامِ امن اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاک فوج کا بنیادی کردار ہے، جس کا تذکرہ کر کے سیاست دان اپنا قد بڑا کرتے ہیں، اس لیے ان دونوں امور پر پاک فوج ہی موزوں، نتیجہ خیز گفتگو سے امریکا کو مطلوبہ یقین دہانیاں کروا سکتی تھی۔

وزیرِ اعظم کا دورۂ امریکا
آرمی چیف، جنرل قمر جاوید باجوہ امریکی وزیرِ خارجہ، مائیک پومپیو کے ساتھ 

گرچہ وزیرِ اعظم کی امریکا سے واپسی ایک ہیرو کے طور پر ہوئی ہے، لیکن دانندگانِ راز کا کہنا ہے کہ زمینی حقائق کی روشنی میں ’’اصل امور‘‘ واشنگٹن اور راول پنڈی کے درمیان ہی طے پائے ہوں گے اور ہو سکتا ہے کہ حکومت کی اشک شوئی اور سیاسی قیادت کے دورۂ امریکا کی کام یابی کا تاثر مضبوط کرنے کے لیے امریکا کی جانب سے کولیشن سپورٹ فنڈ کی فراہمی بحال کر دی جائے یا دونوں ممالک کے مابین تجارت کو فروغ دینے کے لیے پاکستان میں سرمایہ کاری کا اعلان بھی کر دیا جائے۔ نیز، اسی قسم کے بعض دوسرے اقدامات بھی کیے جا سکتے ہیں۔ پھر پینٹاگون پہنچنے پر 21توپوں کی سلامی کے ساتھ پُر جوش انداز میں آرمی چیف، جنرل قمر جاوید باجوہ اور اُن کے عسکری رفقاء کے خیر مقدم، اہم شخصیات سے ملاقاتوں اور اس موقعے پر ان کی پذیرائی کو بھی معنی خیز قرار دیا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس حوالے سے اپوزیشن کی جانب سے الزام کی شکل میں کیے گئے اس استفسار پر کہ ’’کون کس کی قیادت میں امریکا گیا ؟‘‘ پاک فوج کے ترجمان، میجر جنرل آصف غفور کو آخر جواب دینا پڑ گیاکہ’’اس دورے کی قیادت وزیرِ اعظم، عمران خان ہی کر رہے ہیں اور میڈیا کی توجّہ انہی پر ہونی چاہیے۔‘‘ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستانی صحافیوں کو چاہیے کہ وہ اپنے مُلک کے حوالے سے مثبت رپورٹنگ کریں۔ اسی طرح واشنگٹن پہنچنے پر جب صحافیوں نے اُن سے پُر زور انداز میں یہ پوچھا کہ ’’آرمی چیف کی مدّتِ ملازمت میں توسیع سے متعلق قیاس آرائیوں میں کتنی صداقت ہے؟‘‘ تو جنرل آصف غفور نے اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیا۔ 

وزیرِ اعظم کا دورۂ امریکا
عمران خان اور شاہ محمود قریشی، ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ وائٹ ہاؤس کا دورہ کرتے ہوئے

واضح رہے کہ وزیرِ اعظم کے ساتھ امریکا جانے والے آرمی چیف، جنرل قمر جاوید باجوہ ایک پیشہ وَر سپاہی ہیں اور اُن کی اہمیت تسلیم کرنے کے لیے ’’آپریشن ردّالفساد‘‘ کا حوالہ ہی کافی ہے۔ ’’علاقہ غیر‘‘ سے، جو اب ’’اپنا‘‘ ہو چکا ہے، دہشت گردی کے خاتمے کی صُورت جنرل قمر جاوید باجوہ کی قیادت میں جو کارنامہ انجام دیا گیاہے، اُسے اب بین الاقوامی سطح پر بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔ گرچہ آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ میں کم عرصہ رہ گیا ہے، لیکن وہ سپہ سالاری کے منصب میں توسیع کے خواہش مند ہیں اور نہ انہوں نے حُکم رانی کرنی ہے۔ اس لیے اگر امریکا میں اُن کی اس قدر پُر جوش انداز میں پذیرائی ہوئی ہے، تو یہ محض اُن کی خدمات کا اعتراف ہے، لیکن اس موقعے پر اگر یادداشت کو تازہ کیا جائے، تو چار دہائی قبل کے کچھ مناظر دُہرائے جا سکتے ہیں۔ 1982ء میں جنرل ضیاء الحق سپہ سالار ہونے کے ساتھ مُلک کے صدر بھی تھے۔ گویا اُن کے پاس اقتدار بھی تھا اور اختیار بھی۔ جب وہ امریکا کے دورے پر واشنگٹن پہنچے، تو انہیں 21توپوں کی سلامی دی گئی۔ اس موقعے پر امریکی صدر، رونالڈ ریگن نے انہیں خوش آمدید کہا اور اُن کی تعریف میں شان دار جملے ادا کیے، جن کا انتخاب غالباً پہلے ہی سے کر لیا گیا تھا، کیوں کہ وہ جملے جنرل ضیاء الحق کے پس منظر و پیش منظر کی عکّاسی کرتے تھے۔ امریکی صدر کے ان جملوں سے ضیاء الحق کا اقتدار تو طویل و مستحکم ہوا، لیکن انہوں نے اس کی ’’ادائیگی‘‘ افغانستان کے حوالے سے جس انداز میں کی، اس کا خمیازہ ہم آج تک بُھگت رہے ہیں۔ اسی طرح نائن الیون کے بعد جنرل (ر) پرویز مشرف نے امریکی اطاعت قبول کی، لیکن آج پاکستان میں ایک منتخب جمہوری حکومت ہے اور واشنگٹن اقتدار کی ہوس میں پُر جوش کسی جرنیل سے ’’ڈِیل‘‘ نہیں کر سکتا، کیوں کہ اس کا واسطہ عمران خان جیسے وزیرِ اعظم اور جنرل قمر جاوید باجوہ جیسے پاک فوج کے سربراہ سے ہے۔

وزیرِ اعظم کا دورۂ امریکا
پاک فوج کے سپہ سالار 21توپوں کی سلامی لیتے ہوئے

وزیرِ اعظم پاکستان، عمران خان سے ملاقات کے دوران امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یہ انکشاف بھی کیا گیا کہ انہیں بھارتی وزیرِ اعظم، نریندر مودی کی جانب سے پہلے ہی کشمیر پر ثالثی کی پیش کش کی جا چُکی ہے، جب کہ بھارتی حکومت اس بات کی سختی سے تردید کر رہی ہے اور دبے الفاظ میں ڈونلڈ ٹرمپ کو دروغ گو قرار دے رہی ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسا ممکن ہے؟ خیال رہے کہ جب کسی غیر مُلکی سربراہِ مملکت و حکومت یا اہم شخصیت کا امریکی صدر سے ملاقات کا شیڈول طے ہوتا ہے، تو اُس وقت ہی سے امریکی انتظامیہ اُس شخصیت اور اُس مُلک کے مختلف شعبہ جات کے حوالے سے تفصیلات اکٹھی کرناشروع کر دیتی ہے، جو مختلف مراحل سے گزرنے کے بعد مہمان شخصیت کی آمد سے قبل امریکی صدر کو پیش کر دی جاتی ہیں۔ لہٰذا، وزیرِ اعظم، عمران خان سے ملاقات کے دوران غیر مُبہم الفاظ میں صدر ٹرمپ کا یہ کہنا کہ بھارتی وزیرِ اعظم نے کچھ دن پیش تر جاپان میں ہونے والی ملاقات میں اُن سے کشمیر کے تنازعے پر ثالثی کی درخواست کی تھی، غلط بیانی نہیں ہو سکتی۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ امریکی صدر اس حوالے سے کسی قسم کی دروغ گوئی کا مظاہرہ کریں یا ابہام پر مبنی گفتگو کریں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی صدر کے ایک مُشیر نے نہ صرف اس حوالے سے اُن کے مؤقف کی تائید کی، بلکہ بھارتی قیادت کو سخت الفاظ میں مخاطب بھی کیا۔ یہاں یہ اَمر بھی قابلِ ذکر ہے کہ متعدد دوسرے ممالک سے کہیں زیادہ تجسّس اور اضطراب کے عالم میں بھارت، ڈونلڈ ٹرمپ اور عمران خان کی ملاقات پر نظریں جمائے بیٹھا تھا۔ سو، ملاقات میں صدر ٹرمپ کی جانب سے ثالثی کی بات کرنا اور اس سلسلے میں بھارتی وزیرِ اعظم کی جانب سے خواہش کے اظہار کو منکشف کرنا بھارتیوں کے لیے کسی دھماکے سے کم نہ تھا۔ امرِ واقعہ یہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے دسمبر 2016ء میں بھی کشمیر پر ثالثی کی پیش کش کی گئی تھی، لیکن اُس وقت یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ اس خواہش کا اظہار بھارت کی طرف سے کیا گیا ہے، لیکن اس مرتبہ امریکی صدر نے وائٹ ہائوس میں عمران خان سے ملاقات میں میڈیا کے کیمروں کے سامنے یہ حقیقت بیان کی۔ اس انکشاف کے ساتھ ہی واشنگٹن میں قائم بھارتی سفارت خانے میں ایک بھونچال سا آ گیا اور دہلی اور بھارتی سفارت خانے کے درمیان ’’ہاٹ لائن واقعی گرم ہو گئی‘‘۔ نیز، بھارتی وزارتِ خارجہ سے تحکمانہ انداز میں ہدایات لینے کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔ واشنگٹن میں موجود ذرائع کے مطابق، اس واقعے کے بعد بھارتی سفارت خانے نے وائٹ ہائوس کی کوریج کرنے والے غیر مُلکی میڈیا کے نمایندوں کو ہنگامی طور پر عشائیے پر مدعو کیا اور انہیں ’’رام‘‘ کرنے کے لیے حتی المقدور جتن کیے۔ ایک بد قسمتی یہ بھی ہوئی کہ اُن دنوں بھارت کے دونوں پارلیمانی ایوان ’’اِن سیشن‘‘ تھے اور اجلاس کے آغاز ہی میں بھارتی وزیرِ خارجہ، سبرا مینم جے شنکر نے اس سلسلے میں حکومت کی جانب سے وضاحتیں پیش کرنے کی کوشش کی، جو بے سود ثابت ہوئیں۔ اس موقعے پر اپوزیشن جماعتوں، کانگریس اور کمیونسٹ پارٹی نے یہ مطالبہ کیا کہ وزیرِ اعظم، نریندر مودی خود ایوان میں آکر ساری صورتِ حال واضح کریں، لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ بھارتی وزیرِ اعظم ایوان میں آکر امریکی صدر کو جھوٹا قرار دیں۔ پھر ایک سُپر پاور کا صدر دُنیا بَھر کے میڈیا کی موجودگی میں ایسا اور اتنا بڑا جُھوٹ کیسے بول سکتا ہے کہ جس کا اس کے مفادات سے براہِ راست کوئی تعلق ہی نہ ہو۔ ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ کسی پاکستانی وزیرِاعظم نے وائٹ ہائوس میں کشمیر کے حوالے سے پاکستان کے مؤقف کا اظہار کیا اور اس کے ساتھ ہی بھارت کو بھی ہزیمت اُٹھانا پڑی، جو اس کے لیے ایک بڑا سفارتی صدمہ ہے۔ بھارتی وزیرِ اعظم مسئلہ کشمیر کو دہشت گردی کے واقعات سے جوڑ کر پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کے لیے سیاسی و سفارتی کوششوں مصروف تھے، لیکن صدر ٹرمپ نے نہ صرف مسئلہ کشمیر کو پاک، بھارت تعلقات میں ایک بنیادی تنازعے کے طور پر تسلیم کیا، بلکہ اب پاکستان کو تنہا کرنے کی سازشوں میں مصروف نریندر مودی کو اندرونِ مُلک شدید تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔

اگر تاریخ پر نظر دوڑائی جائے، تو پتا چلتا ہے کہ پاکستانی سربراہانِ حکومت و مملکت کا دورۂ امریکا ابتدا ہی سے غیر معمولی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد مُلک کے پہلے وزیرِ اعظم، لیاقت علی خان نے امریکا کا پہلا سرکاری دورہ کیا۔ انہیں آزادی کے 3برس بعد1950 ء میں اپنی خارجہ پالیسی کے حوالے سے یہ فیصلہ کرنا تھا کہ پاکستان نے اُس وقت کی دو بڑی طاقتوں، امریکا اور سوویت یونین (موجودہ رُوس) دونوں میں کس کا انتخاب کرنا ہے۔ ریکارڈ کے مطابق، قبل ازیں رُوس نے وزیرِ اعظم پاکستان کو ماسکو کا دورہ کرنے کی باضابطہ دعوت دی تھی اور لیاقت علی خان کے دورۂ رُوس کی تیاریوں کا آغاز بھی ہو گیا تھا، لیکن ابھی یہ تیاریاں ابتدائی مراحل ہی میں تھیں کہ وزیرِ اعظم، لیاقت علی خان کے دورۂ رُوس کو منسوخ کر کے دورۂ امریکا کا انتخاب کیا گیا۔ ماسکو کے بعد واشنگٹن کی جانب سے بھی یہ کوشش کی گئی تھی کہ پاکستان کے نام سے معرضِ وجود میں آنے والی نوزائیدہ مملکت امریکا سے تعلقات استوار کرے۔ ریکارڈ میں یہ بات بھی موجود ہے کہ جب اس صورتِ حال میں لیاقت علی خان نے اپنے سرکاری رفقاء سے مشاورت کی، تو اُن کا زیادہ جھکائو امریکا کی جانب تھا۔ نتیجتاً، پاکستان کے پہلے وزیرِ اعظم واشنگٹن کے دورے پر روانہ ہو گئے اور اُسی وقت ہی سے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو امریکی کیمپ میں شمار کیا جانے لگا۔

قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک پاکستانی سربراہانِ حکومت و مملکت کی طرف سے امریکا کے درجنوں دورے کیے جا چکے ہیں، جن سے امریکا، پاکستان تعلقات میں آنے والے اُتار چڑھاؤ کا بہ خوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ پاکستان کے پہلے وزیرِ اعظم کی حیثیت سے لیاقت علی خان اُس وقت کے امریکی صدر، ہیری ٹرومین کی دعوت پر خاتونِ اوّل، بیگم رعنا لیاقت علی خان کے ساتھ 3مئی 1950ء کو تین روزہ دورے پر واشنگٹن پہنچے۔ امریکی صدر نے اس دورے کو غیر معمولی اہمیت دیتے ہوئے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان کو واشنگٹن لانے کے لیے اپنا خصوصی طیّارہ، ’’دی انڈی پینڈینس‘‘ لندن بھیجا۔ صدر ٹرومین نے اپنی کابینہ کے تمام ارکان کے ساتھ واشنگٹن کے ہوائی اڈّے پر پاکستانی وزیرِ اعظم کا پُر تپاک استقبال کیا۔ لیاقت علی خان کے دورے کے موقعے پر ان کے اعزاز میں نیو یارک میں ایک خصوصی پریڈ کا اہتمام کیا گیا اور انہیں کولمبیا یونی ورسٹی کی جانب سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری بھی عطا کی گئی۔ اس موقعے پر لیاقت علی خان نے امریکا کے ایوانِ نمایندگان سے بھی خطاب کیا۔ 

وزیرِ اعظم کا دورۂ امریکا
پرویز مشرف اور بُش جونیئر مصافحہ کرتے ہوئے

گرچہ پاکستان کے پہلے وزیرِ اعظم کا دورۂ امریکا انتہائی کام یاب تھا، لیکن پاکستان کے بہت سے حلقوں کی جانب سے اس بات پر تنقید بھی کی گئی کہ انہوں نے سوویت یونین کی دعوت ٹُھکرا کر امریکا کا انتخاب کیا۔ لیاقت علی خان کے اس دورے نے امریکا اور پاکستان کے درمیان خصوصی اور قریبی تعلقات کی بنیاد رکھ دی اور ان تعلقات کی گرم جوشی سرد جنگ کے خاتمے تک برقرار رہی۔ لیاقت علی خان کے بعد امریکا کا دورہ کرنے والے دوسرے پاکستانی رہنما، گورنر جنرل غلام محمد تھے، جنہوں نے علاج کی غرض سے 8سے 13نومبر1953 ء تک امریکا کا دورہ کیا۔ گرچہ علاج معالجے کی غرض سے اُن کا بیش تر وقت امریکی ریاست، میسا چوسٹس کے شہر، بوسٹن میں گزرا، تاہم امریکا میں قیام کے دوران واشنگٹن میں اُن کی اُس وقت کے امریکی صدر، آئزن ہاور سے باضابطہ ملاقات بھی ہوئی۔

وزیرِ اعظم کا دورۂ امریکا
دورۂ واشنگٹن کے موقعے پر لیاقت علی خان، ہیری ٹرو مین کے ساتھ ایئر پورٹ سے روانہ ہوتے ہوئے

امریکا کا سرکاری دورہ کرنے والے تیسرے پاکستانی رہنما وزیرِ اعظم، محمد علی بوگرہ تھے، جو اکتوبر 1954ء میں امریکا گئے۔ ان کے بعد وزیرِ اعظم، حسین شہید سہروردی جولائی 1957 میں سرکاری دورے پر امریکا گئے اور اُس وقت کے امریکی صدر اور دیگر امریکی رہنماؤں سے دو طرفہ ملاقاتوں کے بعد انہوں نے نجی حیثیت میں چند روز وہیں گزارے۔ وزیرِ اعظم، حسین شہید سہروردی کے بعد صدرِ پاکستان، جنرل ایّوب خان نے امریکا کا 4روزہ دورہ کیا، جو بہت سی وجوہ کی بنا پر غیر معمولی اہمیت کا حامل رہا۔ جب وہ11 جولائی 1961ء کو اپنی صاحب زادی، نسیم اورنگ زیب کے ساتھ واشنگٹن کے ہوائی اڈّے پر اُترے، تو اُس وقت کے امریکی صدر، جان ایف کینیڈی نے مکمل فوجی و سول اعزاز کے ساتھ ان کا استقبال کیا۔ اس موقعے پر روایت سے ہٹ کر پہلے امریکی صدر، جارج واشنگٹن کی ماؤنٹ ورنن میں واقع یادگار رہایش گاہ پر ایّوب خان کے لیے سرکاری ضیافت کا اہتمام کیا گیا۔ صدر ایّوب خان کے اس دورے کے بعد پاکستانی معیشت اور دفاع کے لیے امریکی تعاون میں مسلسل اضافہ ہوتا گیا۔ بعد ازاں، صدر ایّوب خان نے ستمبر 1962ء اور پھر دسمبر 1965ء میں بھی امریکا کا سرکاری دورہ کیا۔ ان کے بعد جنرل یحییٰ خان اقتدار میں آئے اور انہوں نے اکتوبر 1970ء میں ایسے مشکل حالات میں امریکا کا سرکاری دورہ کیا کہ جب مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی تحریک زور پکڑ چُکی تھی۔ اس موقعے پر جنرل یحییٰ خان کے اعزاز میں وائٹ ہاؤس میں پُر تکلّف ضیافت کا اہتمام کیا گیا۔ انہوں نے اُس وقت کے امریکی صدر، رچرڈ نکسن کے ساتھ وَن آن وَن ملاقات بھی کی۔ یحییٰ خان نے مُلک دو لخت ہونے کے بعد اقتدار پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ، ذوالفقار علی بُھٹّو کے حوالے کیا، جو پہلے مُلک کے صدر اور پھر وزیرِاعظم بنے۔ انہوں نے دو مرتبہ امریکا کا سرکاری دورہ کیا۔ پہلے سرکاری دورے پر 18ستمبر 1973ء کو اُس وقت کے امریکی صدر، رچرڈ نکسن کی دعوت پر امریکا پہنچے۔ اس دورے میں انہوں نے امریکا سے پاکستان کو دفاعی ساز و سامان کی فراہمی دوبارہ شروع کرنے کے لیے کہا، لیکن امریکا نے اس سلسلے کسی خاص گرم جوشی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ ذوالفقار علی بُھٹّو دوسری مرتبہ فروری 1975ء میں سرکاری دورے پر امریکا پہنچے۔

وزیرِ اعظم کا دورۂ امریکا
جنرل ضیاء الحق اپنے امریکی ہم منصب، رونالڈ ریگن کے ساتھ

ذوالفقار علی بُھٹّو کے بعد صدر جنرل ضیاء الحق نے اپنے لگ بھگ دس سالہ دَورِ اقتدار میں تین بار امریکا کا سرکاری دورہ کیا۔ سب سے پہلے وہ اقوامِ متّحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے لیے اکتوبر 1980ء میں امریکا گئے اور یہ دورہ نجی حیثیت میں کیا گیا۔ پھر دسمبر 1982 ء میں تین روزہ سرکاری دورے پر واشنگٹن پہنچے اور اس وقت کے امریکی صدر سے ملاقاتوں میں پاکستان کا مجوزہ جوہری پروگرام سرِ فہرست رہا۔ اس دوران وائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں دونوں صدور کے درمیان پہلے 20منٹ تک تنہا ملاقات ہوئی اور اس کے بعد امریکی اور پاکستانی وفود بھی ملاقات میں شامل ہو گئے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس ملاقات میں امریکی صدر، رونالڈ ریگن نے اپنے پاکستانی ہم منصب، ضیاء الحق سے کہا کہ پاکستان کے مجوّزہ جوہری پروگرام کی وجہ سے انہیں پاکستان کے لیے3.2ارب ڈالرز کے اقتصادی و فوجی امداد کے پیکیج کو کانگریس سے منظور کروانے میں دشواری پیش آ رہی ہے۔ دراصل، صدر ریگن نے افغانستان پر سوویت حملے کے بعد کی صورتِ حال سے نمٹنے کی خاطر اس امدادی پیکیج کی پیش کش کی تھی۔ تین برس بعد اکتوبر 1985ء میں ضیاء الحق نے ایک بار پھر امریکا کا سرکاری دورہ کیا۔ اس دورے کے دوران دونوں صدور کے درمیان نیویارک میں ملاقات ہوئی۔ صدر ضیاء الحق کے دَورِ حکومت میں وزیرِ اعظم، محمد خان جونیجو بھی جولائی 1986ء میں تین روزہ دورے پر واشنگٹن گئے۔ اس موقعے پر وائٹ ہاؤس کے سائوتھ لان میں منعقدہ خصوصی استقبالیہ تقریب میں امریکی صدر، رونالڈ ریگن نے پاکستانی وزیرِ اعظم، محمد خان جونیجو کو خوش آمدید کہتے ہوئے پاکستان کے پہلے وزیرِ اعظم، لیاقت علی خان کے دورۂ امریکا کا ذکر کیا۔ امریکی صدر کا کہنا تھا کہ انہیں جونیجو کا یہ دورہ لیاقت علی خان کے دورے کی یاد دلاتا ہے۔ اس ملاقات میں امریکا، پاکستان تعلقات کو مضبوط بنانے کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔

وزیرِ اعظم کا دورۂ امریکا
ایّوب خان کی اپنے امریکی ہم منصب، جان ایف کینیڈی کے ساتھ ایک یادگار تصویر

دو مرتبہ وزیرِ اعظم بننے والی محترمہ بے نظیر بُھٹّو نے اپنے دونوں ادوار میں ایک، ایک مرتبہ امریکا کا سرکاری دورہ کیا۔ پہلے انہوں نے جون 1989ء میں اُس وقت کے امریکی صدر، جارج بُش سینئر کی دعوت پر واشنگٹن کا تین روزہ دورہ کیا۔ اس موقعے پر بے نظیر بُھٹّو کا کہنا تھا کہ وہ امریکا کی ہارورڈ یونی ورسٹی میں تعلیم حاصل کر چُکی ہیں، جب کہ جارج بُش نے ییل یونی ورسٹی سے اپنی تعلیم مکمل کی اور یہ دونوں ہی امریکا کی معروف ترین جامعات ہیں۔ صدر بُش اور پینٹاگون کے رہنمائوں سے ملاقاتوں کے دوران مُلک کی پہلی خاتون وزیرِ اعظم نے پاکستان کے مجوزہ جوہری پروگرام کی وجہ سے اس پر عاید پابندیوں کو ہٹانے کے لیے کوششیں کی۔ انہوں نے امریکا کا دوسرا سرکاری دورہ اپریل 1995ء میں کیا اور اس موقعے پر انہوں نے اُس وقت کے امریکی صدر، بِل کلنٹن کے ساتھ ملاقاتیں کیں، جن میں پاکستان سمیت پورے جنوبی ایشیا میں سیکوریٹی کی صورتِ حال اور پاک، بھارت تعلقات پر تبادلۂ خیال کیا گیا، جب کہ اس سے قبل صدر، فاروق احمد خان لغاری نے مئی 1994ء میں واشنگٹن کا دورہ کیا تھا۔ میاں محمد نواز شریف تین مرتبہ پاکستان کی وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئے اور اپنے تینوں ادوار کے دوران انہوں نے امریکا کے تین سرکاری اور تین ہی نجی دورے کیے۔ تاہم، تمام دوروں کے دوران اُن کی امریکی قیادت کے ساتھ ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ اُن کے پہلے دو دورے ستمبر 1997ء اور اس کے اگلے برس اسی ماہ کے دوران ہوئے کہ جب وہ اقوامِ متّحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے نیویارک گئے۔ ان دونوں مواقع پر انہوں نے امریکی صدر، بِل کلنٹن سے بھی ملاقات کی۔ یکم دسمبر 1998ء کو میاں نواز شریف ایک مرتبہ پھر واشنگٹن پہنچے اور اس دورے کو سرکاری ورکنگ دورہ کہا گیا۔ اس دورے میں انہوں نے وائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں صدر، بِل کلنٹن سے ملاقات کی۔ نواز شریف نے جولائی 1999ء میں ایک مرتبہ پھر واشنگٹن کا دورہ کیا اور اس دورے کو نجی دورہ تصوّر کیا گیا۔ نواز شریف نے تیسری مرتبہ وزیرِ اعظم بننے کے بعد اکتوبر 2013ء اور اکتوبر 2015ء میں امریکا کے سرکاری دورے کیے، جنہیں ایک مرتبہ پھر سرکاری ورکنگ دورہ کہا گیا۔ 

وزیرِ اعظم کا دورۂ امریکا
میاں نواز شریف، باراک اوباما سے وائٹ ہاؤس میں ملاقات کرتے ہوئے

جنرل پرویز مشرّف نے اپنے 10سالہ دَورِ اقتدار میں امریکا کے 9سرکاری دورے کیے اور یوں وہ امریکا کے سب سے زیادہ دورے کرنے والے پاکستانی سربراہ ہیں۔ یہ دورے 2001ء، 2002ء، 2003ء، 2004ء اور2006ء میں کیے گئے۔ متواتر دوروں کی وجہ سے اُن کے امریکی صدر، جارج بُش جونیئر کے ساتھ قریبی روابط پیدا ہو گئے تھے اور اس عرصے میں پاکستان کو امریکا سے خطیر اقتصادی و دفاعی تعاون حاصل ہوا۔ اسی عرصے میں وزیرِ اعظم، شوکت عزیز نے بھی 2006ء میں واشنگٹن کا دورہ کیا، جو ورکنگ وزٹ کہلایا۔ جولائی 2008ء میں وزیرِ اعظم، یوسف رضا گیلانی ایک ورکنگ وزٹ پر امریکا گئے اور انہوں نے اپریل 2010ء میں بھی امریکا یاترا کی، جب کہ سابق صدر، آصف علی زرداری نے اپنی مدّتِ صدارت کے دوران 5مرتبہ امریکا کا دورہ کیا۔ ستمبر 2008 ء میں جنرل اسمبلی اجلاس کے دوران انہوں نے نیو یارک میں صدر بُش سے ملاقات کی۔ مئی 2009ء میں انہوں نے واشنگٹن کا ورکنگ وزٹ کیا اور اسی سال ستمبر میں ایک مرتبہ پھر امریکا گئے۔ بعد ازاں، جنوری 2011ء میں افغانستان کے لیے امریکا کے نمایندۂ خصوصی، رچرڈ ہالبروک کی آخری رسومات میں شرکت کی غرض سے واشنگٹن گئے۔ صدر زرداری نے اپنا آخری دورۂ امریکا مئی 2012ء میں کیا۔ اس موقعے پر انہوں نے شکاگو میں نیٹو سربراہ اجلاس میں شرکت کی اور بعد ازاں صدر، باراک اوباما سے ملاقات کی، جب کہ حال ہی میں امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ کی دعوت پر پاکستانی وزیرِ اعظم، عمران خان نے امریکا کا تین روزہ دورہ کیا۔ قبل ازیں، عمران خان کے وزیرِ اعظم بننے کے بعد صدر ٹرمپ کے پاکستان سے متعلق سخت ٹویٹس کے باعث ٹویٹر پر دونوں رہنماؤں کے درمیان نوک جھونک کی گونج پوری دُنیا میں محسوس کی گئی تھی۔ گرچہ عمران خان کے دورۂ امریکا کے بارے میں بہت سے حلقے ملے جُلے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں۔ 

وزیرِ اعظم کا دورۂ امریکا
دورۂ امریکا کے موقعے پر محترمہ بے نظیر بُھٹّو، جارج ڈبلیو بُش سینئر کے ساتھ

تاہم، بعض ماہرین کا ماننا ہے کہ دونوں رہنماؤں کی شخصیت کو دیکھتے ہوئے اس سربراہ ملاقات کے نتیجے میں امریکا، پاکستان تعلقات کے از سرِ نو مرتّب ہونے کا امکان ہے اور اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وزیرِ اعظم، عمران خان کے دورۂ امریکا کے بعد امریکی اسٹیٹ دیپارٹمنٹ نے یہ اعلان کیا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کے ایف 16طیاروں کی تیکنیکی سپورٹ فراہم کرنے کے لیے 12کروڑ 50لاکھ ڈالرز فراہم کرے گا۔ واضح رہے کہ حکومتِ پاکستان نے تیکنیکی سپورٹ سروسز فراہم کرنے کی درخواست کی تھی، جس میں امریکی حکومت اور کنٹریکٹر ٹیکنیکل اینڈ لاجسٹکس سپورٹ سروسز بھی شامل ہیں۔ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کا مزید کہنا تھا کہ اس فروخت کی پیش کش سے خارجہ پالیسی اور امریکا کی قومی سلامتی کو امریکی اہل کاروں کی 24گھنٹے نگرانی کے ذریعےتحفظ حاصل ہو گا۔

دورۂ امریکا میں عمران خان کو ملنے والے مختلف اعزازات

وزیرِ اعظم، عمران خان کو دورۂ امریکا میں حاصل ہونے والے منفرد اعزازات کی مختلف حوالوں سے ستائش کے علاوہ اُن پر نکتہ چینی بھی کی جارہی ہے۔ البتہ ستائشی حلقوں اور طبقات میں پاکستان تحریکِ انصاف کے حمایتیوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ مثلاً، عمران خان پاکستان کے وہ پہلے وزیرِ اعظم ہیں، جو امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے دوران بھی قومی لباس، شلوار قمیص میں ملبوس تھے اور پائوں میں اپنی مخصوص پشاوری چپل پہن رکھی تھی۔ ٹرمپ سے ملاقات کے دوران عمران خان پر گہری نظر رکھنے والوں نے یہ بات بھی نوٹ کی کہ انہوں نے پشاوری چپل میں بھی موزے پہن رکھے تھے۔ اسی طرح عمران خان وہ پہلے پاکستانی وزیرِ اعظم ہیں، جن کا امریکی صدر سے ملاقات کا دورانیہ طے شدہ دورانیے سے کہیں تجاوز کر گیا، لیکن اس کے باوجود امریکی صدر کے اسٹاف نے کسی قسم کی ’’علامتی مداخلت‘‘ تک نہیں کی، جس کی یقیناً انہیں پہلے سے ہدایت کی گئی ہو گی۔ وائٹ ہائوس میں ہونے والی ملاقات کے دوران دونوں رہنمائوں کی ’’بدن بولی‘‘ پر بھی خاص نظر تھی۔ اس دوران پاکستانی وزیرِ اعظم، جن کے بارے میں ایک عام تاثر یہ ہے کہ وہ غیر مُلکی دوروں میں اہم شخصیات سے ملاقات کے موقعے پر سفارت کاری کے مطلوبہ تقاضوں اور دیگر پروٹوکول کی کوئی خاص پروا نہیں کرتے، سپر پاور کے صدر کے سامنے انتہائی بے تکلفانہ انداز میں بے تکان بولے اور غیر مبہم الفاظ میں قومی مؤقف اور اہم امور پر اپنا مافی الضّمیر بیان کیا۔ وہ ایک لمحہ بھی کسی قسم کے دبائو یا تنائو کا شکار دکھائی نہیں دیے، بلکہ کئی مواقع پر تو اپنے میزبان کی جانب انگلی اُٹھا کر گفتگو کرتے رہے، جسے سفارتی آداب کے منافی سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح وہ پہلے پاکستانی وزیرِ اعظم ہیں کہ جن سے امریکا کی خاتونِ اوّل نے نہ صرف ملنے کی خواہش کا اظہار کیا، بلکہ میلانیا ٹرمپ نے ان کے ساتھ خاص طور پر تصاویر بھی بنوائیں۔ بعد ازاں، انہوں نے ان تصاویر کو اپنے ذاتی ٹویٹر اکائونٹ سے ٹویٹ کرتے ہوئے یہ لکھا کہ انہیں وزیرِ اعظم، عمران خان کا وائٹ ہائوس آنا اچھا لگا۔ علاوہ ازیں، کیپیٹل ہِل، واشنگٹن میں امریکی اراکین کانگریس سے پاکستانی وزیرِ اعظم کے خطاب کے موقعے پر اراکین کی ریکارڈ تعداد موجود تھی اور یہ منفرد اجتماع بھی پاکستان کے پہلے وزیرِ اعظم کے لیے ایک اعزاز تھا، جب کہ سب سے بڑا اعزاز واشنگٹن میں واقع، ’’ کیپیٹل ایرینا‘‘ میں 25 ہزار سے زاید پاکستانی نژاد امریکیوں سے ان کا خطاب تھا۔ اس اجتماع کے موقعے پر کینیڈا میں مقیم پاکستانیوں کی بھی ایک بہت بڑی تعداد موجود تھی، جو پاکستان کے وزیرِ اعظم اور اپنے پسندیدہ رہنما کو دیکھنے کے لیے وہاں پہنچے تھے۔ ان پاکستانی تارکینِ وطن پر نہ تو ’’قیمے والے نان‘‘ کا الزام لگایا جاسکتا ہے اور نہ ہی کسی اور قسم کی لالچ یا ترغیب کا۔ بِلاشُبہ یہ ایک منفرد اعزازاور ایک نیا منظر تھا۔ شاید یہی و جہ تھی کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو وائٹ ہاؤس میں میڈیا کی موجودگی کے دوران یہ اعتراف کرنا پڑا کہ عمران خان پاکستان کے مقبول ترین وزیرِ اعظم ہیں۔ کیپیٹل ایرینا کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس سے پہلے یہاں کسی غیر مُلکی وزیرِ اعظم نے لوگوں کی اتنی بڑی تعداد سے خطاب نہیں کیا۔ البتہ بھارتی وزیرِ اعظم، نریندر مودی نے اپنے دورۂ امریکا کے موقعے پر نیویارک میں بھارتی عوام کے ایک اجتماع سے خطاب کیا تھا، جس میں لگ بھگ 18ہزار افراد شامل تھے۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ امریکا میں مقیم پاکستانیوں کے مقابلے میں بھارتی باشندوں کی تعداد 6گُنا زاید ہے۔

تازہ ترین