• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں نے اپنے گزشتہ کالم میں وزیراعظم عمران خان کے حالیہ دورہ امریکہ کو ہر لحاظ سے تاریخی قرار دیا تھا کیونکہ میری نظر میںملکی اعلیٰ سیاسی و عسکری قیادت کے مشترکہ دورے کی بدولت پاک امریکہ دوطرفہ سفارتی تعلقات میں ایک نیا موڑ آیا ہے، ماضی کی نسبت پہلی مرتبہ کسی پاکستانی حکمراںنے نہایت پراعتماد انداز میں امریکہ کے سامنے پاکستان کا کیس پیش کیا ہے، امریکی صدر ٹرمپ سے ملاقات، اوورسیز پاکستانیوں کے عظیم الشان جلسے سے خطاب اور دیگر مصروفیات کے حوالے سے میڈیا کے توسط سے بہت کچھ منظرعام پر آچکا ہے، اس تاریخی دورے کے دو اہم ترین پہلو ٹرمپ کا کشمیر پر ثالثی کیلئے آمادگی

اور دورہ پاکستان کی دعوت قبول کرنا ہے۔صدر ٹرمپ ایک بزنس مین ہونے کی وجہ سے امریکہ اور امریکی عوام کا مفاد مقدم رکھنے کے خواہاں ہیں، بطور عالمی لیڈر وہ ایک حیران کن شخصیت بھی ہیں جنہوں نے شمالی اور جنوبی کوریا جیسے دشمن ممالک کو قریب لانے کا ناممکن کام سرانجام دیا ہے، ٹرمپ نے امریکہ کے بطورپولیس مین کردار کے تاثر کی بھی نفی کی ہے۔میں اگر پاکستان اور امریکہ کو فطری اتحادی ممالک قرار دیتا ہوں تو اس کی بڑی وجہ دونوں ممالک کا جمہوریت پسند ہونا ہے، اگر امریکی عوام کو ابراہام لنکن جیسی عظیم شخصیت پر فخر ہے تو ہمارے لئے بابائے قوم قائداعظم مشعل راہ ہیں جنہوں نے ہمیں اصول پسندی، بلند کرداری اور پرامن جدوجہد کا درس دیا۔ قیام پاکستان کے بعد امریکہ کے ساتھ دوطرفہ دوستانہ تعلقات کو عوامی سطح پرمستحکم کرنے کی کاوشیں بھی کی گئیں، ساٹھ کی دہائی میں امریکی نائب صدر جانسن نے کراچی کا دورہ کیا تو عوام کی کثیر تعداد ان کے والہانہ استقبال کیلئے سڑکوں پر موجود تھی، انہی پرجوش لوگوں میں بشیر ساربان بھی تھا جومعزز امریکی مہمان کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے اپنے اونٹ سمیت وہاں موجود تھا، امریکی نائب صدر خود اس کے پاس گئے اور اسکے جذبہ دوستی سے متاثر ہوکر اسے تھپکی دیتے ہوئے دورہ امریکہ کی دعوت دے دی، بعد ازاں بشیر ساربان بطور سرکاری مہمان امریکہ پہنچا تو وہ پاک امریکہ عوامی تعلقات کی ایک بڑی علامت بن گیا، امریکی میڈیا نے اسے بھرپور کوریج دی اور امریکی عوام نے ہر جگہ اپنے پاکستانی دوست کا خیرمقدم کیا۔اسی عرصے میں پاکستان کو غذائی قلت کا سامنا کرنا پڑا تو امریکہ نے بڑی تعداد میں گندم پاکستان کو فراہم کی، یہ امریکی گندم کراچی کی بندرگاہ سے اونٹوں کے ذریعے ملک کے دوسرے حصوں میں منتقل کی جاتی توجگہ جگہ پاک امریکہ دوستی کے گیت گائے جاتے۔امریکہ کی جانب سے اسکول کے بچوں کوخشک دودھ، کتابیں اور اسٹیکرز وغیرہ کا تحفہ پیش کیا جاتا تھا،بڑے شہرو ں میں امریکی لائبریریاںقائم تھیں جہاں علم کے دلدادہ لوگوں کا داخلہ عام تھا، اگر کوئی عام بچہ بھی امریکی سفارتخانے کے نام اپنے خط میں کوئی فرمائش کرتا تو اسکو مثبت جواب دیا جاتا ،پاکستانی طالب علموں کیلئے امریکی تعلیمی اداروں میں اسکالرشپ دینے کا آغاز کیا گیا، افشاں نامی ایک پانچ سالہ پاکستانی بچی کوڈاکٹروں نے دل کی بیماری تشخیص کی تو اسکے والدین نے امریکہ کو خط لکھا، امریکی حکومت کے توسط سے نہ صرف اس معصوم بچی کا کیلی فورنیا میں ہارٹ سرجری کا کامیاب آپریشن کیا گیا بلکہ امریکی ڈاکٹرز کی ایک قابل ٹیم کو کراچی بھیجا گیا جنہوں نے پاکستان میں ہارٹ سرجری کے دیگر کیسز کامیابی سے ہینڈل کئے، یوایس ایڈنے امریکی عوام کی جانب سے امداد اور تعاون کا سلسلہ شروع کیا۔حالات کی ستم ظریفی ملاحظہ کریں کہ پاکستان نے امریکہ کا ہر محاذ پر ساتھ دیالیکن امریکی حکمرانوں نے پاکستان سے منہ موڑ لیا اور رفتہ رفتہ دونوں ممالک ایک دوسرے سے بدظن ہونا شروع ہوگئے ، نائن الیون میں ایک بھی پاکستانی شہری ملوث نہ ہونے کے باوجود پاکستان پر دہشت گردوں کی پشت پناہی کے الزامات لگنا شروع ہوگئے، دونوں فطری اتحادی ممالک کو سوچنے کی ضرورت ہے کہ دوطرفہ بداعتمادی کی اصل وجہ کیا ہے؟نوے کی دہائی میں سویت یونین کے انہدام تک پاک امریکہ تعلقات مثالی تھے توکیا بگاڑکی وجہ افغانستان کی بعد کی صورتحال ہے؟ اگر یہ وجہ تھی تو بطور واحد سپرپاور اسکی ذمہ داری امریکہ پر عائد ہوتی ہے جو سویت یونین کے فوجی انخلاء کے بعد خطے کو بے یارومددگار چھوڑ گیا۔میں سمجھتا ہوں کہ ماضی کی تمام تر غلط فہمیوںاور شکوے شکایتوں کے باوجود پاکستان اور امریکہ میں بسنے والوں کی بڑی تعداد ایک دوسرے کیلئے دوستانہ جذبات رکھتی ہے۔صدر ٹرمپ نے کشمیر ایشو پر ثالثی پر آمادگی ظاہر کرکے پاکستانیوں کے دل جیت لئے ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ ٹرمپ کا دورہ پاکستان جلد از جلد یقینی بنانے کیلئے دونوں طرف سے سنجیدگی سے کام کیا جائے، اگر امریکی صدر کے استقبال کو یادگار بنانے کیلئے پاکستانی عوام کو بھی شریک کر لیا جائے تو مجھے یقین ہے کہ دوطرفہ غلط فہمیوں کو دور کرنے میں بہت مدد ملے گی۔ آج ہمیں ٹرمپ سے توقعات وابستہ کرتے ہوئے بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے، تاریخ یہ بتلاتی ہے کہ امریکہ نے ہمیشہ اپنا مفاد مقدم رکھا، آج اگر امریکہ کو اپنے مفاد کیلئے افغانستان میں امن کیلئے پاکستان کا تعاون چاہئے تو ہمیں بھی حقیقت پسندی کا ثبوت دیتے ہوئے ا مریکہ کا ہاتھ تھامنا چاہئے تاکہ خطے میں عرصہ دراز سے جاری تناؤ کا خاتمہ ہوسکے۔میں سمجھتا ہوں کہ تاریخ سیکھنے کیلئے ہوتی ہے دہرانے کیلئے نہیںاور وزیراعظم عمران خان کے حالیہ دورے کے بعد دہشت گردی کی نئی لہر پاک فوج کو بارڈرپر مصروف رکھنے کی ایک سازش ہے۔اگر ایشیا میں امن یقینی بنانا ہے تو بھارت کو پاکستان کا افغان امن عمل میںکلیدی کردار تسلیم کرنا ہوگا، اس حوالے سےصدر ٹرمپ کو انڈیا پر بھی اپنا اثرورسوخ استعمال کرنا چاہئے ۔ امید کی جانی چاہئے کہ صدر ٹرمپ اور وزیر اعظم عمران خان قیام پاکستان کے دور کے خوشگوار تعلقات کی عوامی سطح پر تجدید کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین