• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کی سیاست بھی عجیب ہے۔ اگر منشور دیکھیں تو ہر پارٹی کا ایک جیسا ہے۔ کوئی بھی پارٹی نہ تو جاری و ساری جنگلی سرمایہ داری کے بارے میں کچھ کہہ رہی ہے اور نہ ہی جاگیرداری کے خاتمے یا حد ملکیت زمین کا ذکر کر رہی ہے۔ کسی پارٹی کے پروگرام میں تعلیم اور صحت کے بارے میں نئی تجاویز نہیں ہیں۔ سروے کے مطابق عوامی ادراک میں مسلم لیگ (ن) سب سے زیادہ مقبول پارٹی ہے لیکن اس کی بھی کوئی واضح منطق نہیں ہے۔ لگتا ہے پاکستان میں گھوڑا سیاست ہو رہی ہے، ہر پارٹی ایک لیلی نامی گھوڑے کے حصول میں سرگرداں ہے یعنی بعض اوقات ہم بہت اہم آفاقی عناصر ڈھونڈھنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں جبکہ اس کی بنیادی وجہ بہت ہی سادہ بھی ہوتی ہیں جیسے مہاراجہ رنجیت سنگھ کی گھوڑا سیاست!مہاراجہ رنجیت سنگھ خوبصورت گھوڑوں کا دیوانہ تھا اور بظاہر اس نے بہت سی جنگیں خوبصورت گھوڑوں کے لئے کیں۔ اگرچہ تاریخ دان سکھ سلطنت کی توسیعی پالیسیوں کی متعدد وجوہات پیش کرتے ہیں لیکن کچھ تاریخ دان رنجیت سنگھ کے خوبصورت گھوڑوں کے حصول کے لئے جنگجوئی کو بھی کافی اہمیت دیتے ہیں۔ رنجیت سنگھ کی گھوڑا سیاسی داستان کا سب سے بڑا مرکزی کردار لیلی نامی ایک گھوڑا تھا جو پشاور کے حکمران یار محمد کی ملکیت تھا۔ اس کے علاوہ بھی شیریں اور نواب بہاولپور کے پری نامی گھوڑے کو حاصل کرنے کے لئے رنجیت سنگھ نے فوج کشیاں کیں۔ جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے رنجیت سنگھ کو خوبصورت گھوڑے رکھنے کا جنون تھا۔ جب اسے پتہ چلا کہ پشاور کے حاکم یار محمد کے پاس لیلی نامی نایاب گھوڑا ہے تو اس نے اسے حاصل کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ یار محمد کے انکار پر راجہ رنجیت سنگھ نے بدھ سنگھ سندھیالہ کو بہت بڑی فوج دیکر پشاور پر حملہ کرنے کے لئے روانہ کیا۔ یار محمد کو شکست ہوئی اور بدھ سنگھ نے مطالبہ کیا کہ لیلی گھوڑا اس کے حوالے کیا جائے اور یار محمد کا ایک بیٹا مستقل تخت لاہور میں موجود رہے۔ یار محمد نے بیٹا بھیجنا منظور کر لیا لیکن لیلی کو اپنے پاس رکھنے کے لئے مشہور کر دیا کہ وہ تو مر چکا ہے۔
انہی دنوں رنجیت سنگھ کو خبر ملی کہ ایک شیر محمد خان کے پاس شیریں نامی نایاب گھوڑا ہے۔ مہاراجہ نے شہزادہ کھڑک سنگھ کو ایک لشکر جرار دیکر پشاور پر حملے کے لئے روانہ کیا۔ شیر محمد خان نے تو دس ہزاری جاگیر کے بدلے گھوڑا دے دیا لیکن یار محمد پشاور چھوڑ کر افغانستان میں پناہ لینے کے لئے بھاگ گیا لیکن اس نے لیلی سے جدائی برداشت نہ کی ۔اس گھوڑے کی شہرت ایسی تھی کہ شہنشاہ فارس نے اس کی قیمت ایک لاکھ درہم لگائی اور اس کے ساتھ پشتنی جاگیر دینے کا بھی وعدہ کیا۔ اسی طرح شہنشاہ روم نے بھی اس کی بہت بھاری قیمت دینے کا عندیہ دیا لیکن یار محمد اپنی لیلی سے جدا ہونے کے لئے کسی بھی قیمت پر تیار نہیں تھا۔ جب پشاور کا نظام خراب ہونے لگا تو رنجیت سنگھ نے یار محمد کو ایک اور موقع دیا کہ واپس آجائے لیکن گھوڑا بھی اس کے حوالے کردے۔ یار محمد نے کہا اور مشہور کردیاکہ لیلی تو مرچکا ہے ۔ کچھ عرصے کے بعد راز کھل گیا کہ لیلی زندہ ہے اور یار محمد نے اسے چھپا رکھا ہے۔ جب رنجیت سنگھ نے دوبارہ مطالبہ کیا تو یار محمد نے سید احمد (شہید) کے ساتھ اتحاد کر لیا اور رنجیت سنگھ کے خلاف جنگ میں شامل ہو گیا لیکن کچھ ہی عرصے کے بعد یار محمد اور سید احمد میں ٹھن گئی۔ یار محمد بری طرح گھر گیا اور اس نے رنجیت سنگھ کے فرانسیسی جرنیل ونتورہ سے مدد کی درخواست کی۔ جنرل ونتورہ نے اس شرط پر مدد کا وعدہ کیا کہ یار محمد تین مہینوں کے اندر لیلی اس کے حوالے کردے گا۔ یار محمد نے وعدہ کر لیا لیکن وہ سفر کے دوران سید احمد کی فوجوں کے ہاتھوں مارا گیا۔ غرضیکہ یار محمد نے اپنی زندگی میں لیلی سے جدائی برداشت نہ کی۔ آخرکار جنرل ونتورہ لیلی کو حاصل کرکے رنجیت سنگھ کے سامنے پیش ہوا۔ رنجیت سنگھ نے اسے انعامات و اعزازات سے مالا مال کر دیا۔اسی طرح ملتان کے حکمران کے پاس ایک پری نامی سفید رنگ کا بینظیر گھوڑا تھا۔ رنجیت سنگھ نے اسے بھی چھین کر چین کا سانس لیا۔رنجیت سنگھ کی ساری سیاست کو گھوڑوں تک محدود کر دینا احمقانہ سادگی اور مبالغہ آرائی ہو گی۔ وہ بہت زیرک اور گہری سیاسی سوچ کا مالک تھا۔ اس نے اپنی ہوشیاری اور سیاسی دوراندیشیوں کی بنا پر اپنی سلطنت پشاور سے لے کر سکھر تک پھیلا لی تھی۔ اس نے انگریز کے ساتھ بھی کچھ اس طرح کا تعلق بنا رکھا تھا کہ اس کی زندگی تک انگریزوں کو پنجاب پر حملہ کرنے کی جرأت نہیں ہوئی۔ وہ اپنی فوجوں کی یورپی جنریلوں سے تربیت کراتا تھا اور مسلمانوں کو اہم فوجی عہدوں پر فائز کرتا تھا جیسا کہ اس کے توپ خانے کا انچارج الہی بخش تھا اور اس کا وزیر اعظم فقیر عزیز الدین تھا۔ اس کو اپنی بہت بڑی فوج کو پالنے کے لئے مسلسل علاقے فتح کرنا پڑتے تھے اور مختلف علاقوں کے نوابوں سے خراج وصول کرنا پڑتا تھا۔ اس لئے اس کے پشاور کے حملوں کو گھوڑوں کے حصول تک محدود کرنا نادانی ہوگی۔ ہاں البتہ مہاراجہ کی شخصیت کے نفسیاتی پہلوؤں کو سمجھنے کے لئے اس کا گھوڑوں کے جنون کے دلچسپ عنصر کو نظر انداز بھی نہیں کیا جانا چاہئے۔
لگتا ہے کہ پاکستانی سیاست میں کئی کردار ایسے ہیں جو محض گھوڑا سیاست کر رہے ہیں۔ مثلاً لگتا ہے کہ شہباز شریف جس لیلی کی تلاش میں ہیں وہ لاہور کے انڈر پاس، اوور پاس اور مختلف ہائی ویز ہیں۔ عمران خان کا گھوڑا امریکی ڈرونوں نے فاٹا میں قید کر رکھا ہے جسے وہ ہر قیمت پر حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ زبان زد عام ہے کہ پیپلز پارٹی جس گھوڑے کی متمنی ہے اس پر مختلف سائزوں کی قائداعظم کی تصویریں چھپی ہوئی ہے۔دروغ برگردن راوی لیکن کہا جاتا ہے کہ پچھلے دنوں پانچ ہزار نامی گھوڑے بازار سے غائب تھے کیونکہ وہ پیپلز پارٹی کو رازداری سے پیش کئے جارہے تھے۔ واللہ عالم بالثواب ۔اسی طرح لگتا ہے کہ سپریم کورٹ بھی کچھ نامور گھوڑوں کو قبضے میں لینے کے لئے سرتوڑ کوشش کر رہی ہے۔ مزید برآں خفیہ ایجنسیاں بھی رنگ برنگے خوبصورت گھوڑوں (قادری اینڈ کو) کے درشنوں سے عوام کو لبھا رہی ہیں لیکن وہ شاید یہ بھول جاتے ہیں کہ اس طرح کے نایاب گھوڑوں کے شوق صرف مہاراجوں (ماضی اور حال کے) کو ہوتے ہیں ، عوام تو روٹی کپڑا، مکان ، بجلی اور پٹرول کے خچروں کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں۔جیسا کہ پہلے کہا گیا ہے کہ رنجیت سنگھ کی پیچیدہ سیاست کو صرف خوبصورت گھوڑوں تک محدود نہیں کیا جا سکتا اور اس کے لئے گہرے تجزیئے کی ضرورت ہے اسی طرح پاکستانی سیاست جو کہ بظاہر گھوڑا سیاست نظر آ رہی ہے توجہ طلب ہے اور گہرے تجزیئے کا تقاضہ کرتی ہے۔ بظاہر تو ہر کوئی کسی دوسرے کے گھوڑے کے پیچھے پڑا ہوا ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کہیں یہ سب ایک ہی گھوڑے کے متمنی تو نہیں ہیں؟ سیاسی پارٹیوں کے منشوروں، تقریروں اور ٹاک شوز پر شوروغوغا سے تو یہی لگتا ہے کہ رنجیت سنگھ کی گھوڑا سیاست ہو رہی ہی اور المیہ یہ ہے کہ ان میں مہاراجہ جیسی سیاسی حکمت عملی بھی مفقود ہے۔
تازہ ترین