امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے وزیراعظم عمران خان کی حالیہ ملاقات کو ایک بڑی سفارتی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے جس میں صدر ٹرمپ کی جانب سے تنازعہ کشمیر پر پاکستان اور بھارت کو ثالثی کی پیشکش کی گئی ہے۔ اس موقع پر امریکی صدر نے عمران خان کو نہ صرف پاکستان کا مقبول ترین وزیراعظم قرار دیا ہے بلکہ پاکستان کے لئے امریکی امداد کی مشروط بحالی کا عندیہ بھی دیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اس ملاقات کے بعد دونوں ملکوں میں باہمی تجارت نہ صرف کئی گنا بڑھ جائے گی بلکہ دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی شرکت داری کی بھی افواہیں ہیں۔ اس ملاقات میں عمران خان نے کہا کہ افغان امن نہ صرف یہ کہ ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے بلکہ اس پالیسی پر ملکی فوجی قیادت بھی ان کے ساتھ کھڑی ہے جس کی وجہ سے افغان مسئلے کے شریک فریقین امن معاہدے کے انتہائی قریب ہیں۔ وزیراعظم نے اس موقع پر تاریخی اعلان کرتے ہوئے پاکستان کی افغانستان میں اسٹرٹیجکل ڈیپتھ کی پالیسی پر نکتہ چینی کی، لیکن یہ نہیں بتایا کہ اس پالیسی کے ذمہ دار کون لوگ تھے اور اس پالیسی سے دونوں سماجوں کو کتنا نقصان ہوا اور نہ ہی انہوں نے اس پالیسی کے مضر اثرات کے پس پردہ افراد کے خلاف کسی کارروائی کا اعلان کیا۔ اس سے پہلے آرمی چیف نے ایک بیان میں کہا تھا کہ آج کی دنیا میں ’’ملک نہیں بلکہ خطے ترقی کرتے ہیں‘‘ ان کا یہ بیان اس خطے کے امن کے لئے نیک شگون ہے۔ اس ملاقات کی راہ ہموار کرتے ہوئے پاکستان کی ایما پر امریکہ نے ہندوستان کو افغان پراسس سے ہٹادیا اور پاکستان نے طالبان پر پورا دبائو ڈال کر مذاکرات کی میز پر لانے اور اسے مستقبل کے سیاسی عمل کا حصہ بنانے کی یقین دہانی کرائی۔ امریکی صدر کے مطابق آئندہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کا انحصار اس بات پر ہے کہ جلد از جلد امریکی افواج کا افغانستان سے انخلاء ممکن ہو سکے جس کا وعدہ انہوں نے پچھلے الیکشن میں امریکی عوام سے کیا تھا۔ وہ افغانستان سے امریکی انخلا جلد از جلد چاہتے ہیں تا کہ وہ 2020کے الیکشن میں اس معاملے کو الیکشن مہم کا حصہ بنا سکیں، انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں ہے کہ اس انخلا سے افغانستان اور پاکستان کے سماجوں پر کتنے مضر اثرات مرتب ہو تے ہیں؟
پاکستان اور افغانستان کے عوام آپس میں گہرے تاریخی، تمدنی اور سماجی تعلقات رکھتے ہیں اور دونوں ملکوں کی یہ خواہش رہی ہے کہ آپس میں خوشگوار تعلقات پیدا کریں اور اچھے پڑوسیوں کی طرح رہیں لیکن یہ ممالک آج تک آپس میں دوستانہ تعلقات پیدا نہ کر سکے۔ ان کے درمیان اختلافات کی انتہائی پیچیدہ وجوہات ہیں جو نو آبادیاتی دور سے ورثے میں ملی ہیں جن میں روسی اور امریکی مداخلت، افغان مجاہدین، طالبان، اور دوسرے فوجی اور نیم فوجی گروہوں کا دونوں ملکوں کی حدود کا استعمال کر کے تخریبی کارروائیوں میں ملوث ہونا ہے۔ افغانستان اور پاکستان میں امن کا دارومدار بہت حد تک پاکستان کی حکومت کے کردار اور اسکی پالیسیوں پر منحصر ہوگا۔ ہمیں پڑوسی ممالک میں کسی بھی ملک کے ساتھ خصوصی تعلقات رکھنے یا اپنی سر زمین پر ناجائز حقوق دینے یا انہیں اپنے داخلی معاملات میں دخل اندازی کی پالیسی ہمیشہ کے لئے ترک کرنا ہوگی۔ کسی ایک طاقت کا دست نگر بننے کے بجائے حقیقی غیر جانبدارانہ راہ اختیار کرنا ہوگی اور بڑی طاقتوں اور پڑوسی ملکوں کی طرف پر امن بقائے باہمی کے نظریے پر عمل کرتے ہوئے نظریاتی اختلافات کا احترام کرنا ہوگا لیکن المیہ یہ ہے کا آج کے حالات پاکستان کے حکمرانوں سے جتنی زیادہ سیاسی بصیرت، مدبری اور اعتدال پسندی کا تقا ضا کر رہے ہیں، پا کستان کا سیاسی ڈھانچہ اتنے ہی تیزی کے ساتھ انحطاط پذیر ہو رہا ہے۔ ایک ذمہ دارانہ قسم کی خارجہ پالیسی مرتب کرنے کی پیشگی شرط یہ ہے کہ داخلی طور پر تمام سیاسی رہنما ایک دور رس پالیسی پر متفق ہوں۔ اس سلسلے میں بلاول زرداری نے عمران خان کے ساتھ شدید سیاسی اختلافات کے باوجود ان کی افغان امن کی پالیسی کو سپورٹ کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ جب داخلی طور پر سیاسی ادارے اپنی اپنی جگہ آئینی اختیارات کے تحت کام کرنے لگیں تو تب ہی سیاسی عمل مثبت انداز میں آگے بڑھے گا اور ایسی پالیسیوں کو جو تمام سیاسی رہنما مل کر بنائیں گے ان کو عوام کی تائید بھی حاصل ہوگی۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے آج جب کہ ہندوستان، پاکستان اور امریکہ میں سیاسی ماحول کی پذیرائی مخالفین سے نفرت کی بنیاد پر پنپ رہی ہے تو ایسا ماحول ہمارے خطے میں امن کے قیام کے لئے نیک شگون نہیں ہوگا۔
تاریخی طور پر افغانستان اپنی داخلی پسماندگی اور قدامت پسندی کے باوجود اپنی قومی آزادی کو برقرار رکھنے کی پوری کو ششیں کرتا رہا ہے اور آج اس آزادی کو برقرار رکھنے کے لئے اسے نہ صرف غیر جانبداری کی پالیسی کو اپنانا ہو گا بلکہ پر امن بقائے باہمی کے اصولوں کو بھی اپنانا ہوگا جس کے تحت ہر ملک کو اپنی پسند کے سماجی نظام اور سیاسی نظریہ کا انتخاب کرنے کا پورا حق ہوگا اور یوں نظر یا تی اختلافات کے باوجود دونوں ملکوں کو اکیسویں صدی میں ان اصولوں کے تحت امن کا خطہ بننے کی طرف گامزن کیا جا سکتا ہے۔
آج پاکستان اور دنیا کے عوام کی نظریں افغانستان پر گڑی ہوئی ہیں کہ وہاں امریکی فوج کے انخلا کے بعد کس قسم کی سماجی تبدیلیاں برپا کی جاتی ہیں۔ کیا پاکستانی حکومت امریکی انخلا کے بعد طالبان کو ایک ایسے سیاسی نظام میں برقرار رکھ سکتی ہے جس سے افغان عوام کو وہ مادی اور روحانی خوشیاں نصیب ہوں جن سے انہیں صدیوں سے محروم رکھا گیا ہے یا پھر طالبان اپنی پرانی پالیسیوں کو برقرار رکھ کر نہ صرف افغانستان کو اپنی داخلی پسماندگی اور قدامت پرستی کے دور میں دکھیل دیں گے جس کے مضر اثرات یہ خطہ اور خاص طور پر پاکستانی سماج پچھلے چالیس سالوں سے بھگت رہے ہیں۔ افغانستان کے بارے میں امریکہ اور پاکستان کی امن پالیسی کے بعد کوئٹہ اور پشاور میں تخریبی حملے ہو چکے ہیں جس کی ذمہ داری طالبان نے قبول کی ہے اور اسی بنا پر سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ جلد از جلد طالبان کو مذاکرات کی میز پر لا کر اس خطے میں دیرپا امن کی نوید سنائی جائے۔