• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ریٹائرڈ لیفٹننٹ جنرل شاہد عزیز نے اپنی 14سالہ ”خاموشی“ کو توڑتے ہوئے اور جنرل (ر) پرویز مشرف کے موقف سے اختلاف کرتے ہوئے کارگل میں آپریشن اور پاک بھارت فوجی تصادم کے بارے میں اپنی کتاب میں جو انکشافات کئے ہیں ان پر جنرل (ر) مشرف اتنے ناراض ہیں کہ انہوں نے واشنگٹن میں بعض امریکی شخصیات سے ملاقاتوں کے پروگرام پر توجہ مرکوز رکھنے کی بجائے، واشنگٹن سے ہی پاکستانی الیکٹرونک میڈیا کے پروگراموں میں اپنی صفائی پیش کرنے پر مرکوز کر دی اور واشنگٹن سے نیویارک واپسی اور لندن روانگی تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ واشنگٹن میں ان کی امریکیوں سے ملاقاتوں اور موضوعات کی تفصیلات ابھی سامنے نہیں آئیں لیکن ان کے دورہ واشنگٹن کے ہمراہی اور ترجمان خاموش ہیں جو بذات خود بہت کچھ بتانے کے مترادف ہے۔ ویسے تو واشنگٹن کے متعدد سرکاری امریکی ادارے14سال پرانے پاک بھارت کارگل فوجی تصادم کے بارے میں بڑے مفصل طور پر امور، حقائق، تجزیہ اور تناظر پر مبنی خفیہ رپورٹوں کا ریکارڈ رکھتے ہیں لیکن جنرل (ر) پرویز مشرف کی سویلین منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کے حامی اور اہم معاون، مشرف کے نو سالہ دور میں اہم پوزیشنوں اور ذمہ داریوں پر فائز رہنے اور معرکہ کارگل کے دوران بھی اہم فوجی عہدے پر فائز رہنے والے شاہد عزیز کے انکشافات اور پرویز مشرف کے جوابی بیانات نے متعدد سوالات کو جنم دیا ہے اور کارگل کے آپریشن کے ذمہ دار جنرل کے فیصلوں، اقدامات اور حکمت عملی کو چیلنج کر کے ایک صحت مند بحث کو جنم دیا ہے۔ پاکستان کے پہلے فوجی آمر ایوب خان کے دور میں روس کے خلاف امریکی جاسوسی کیلئے یوٹو طیارہ کی پرواز کا تاریخی واقعہ ہو یا جنرل ضیاء الحق کے دور میں افغان جہاد کے نام پر آپریشن ہو، جنرل یحییٰ خان کے دور میں سانحہ مشرقی پاکستان کی المناک داستان ہو یا جنرل پرویز مشرف کے دور حکمرانی میں طالبان اور افغانستان کے خلاف جنگ ہو، ان تمام حالات و واقعات کی دستاویزی اور درست داستانیں واشنگٹن کے سرکاری حساس اداروں کے ریکارڈ میں موجود ہیں اور یہی بات کارگل کے واقعے اور معاملات کے بارے میں یوں درست ہے کہ کارگل کی برف پوش چوٹیوں پر جس فوجی آپریشن کا آغاز ہوا اس کو ایک مکمل پاک بھارت جنگ میں تبدیل ہونے سے بچانے اور پاک بھارت کشیدگی دورکرنے کیلئے بالآخر واشنگٹن میں وہائٹ ہاؤس کے مکین صدر بل کلنٹن اور ان کی ٹیم کو متحرک ہونا پڑا اور اس پاک بھارت کارگل کشیدگی کو مزید پھیلنے سے بچانے میں اہم رول ادا کیا۔ پاکستانی وزیراعظم نواز شریف نے ”واشنگٹن کنکشن“ کا استعمال کر کے صدر بل کلنٹن سے 4جولائی1999ء کو واشنگٹن آ کر مذاکرات کئے اور پھر واشنگٹن سے نئی دلّی میں رات گئے فون کال کر کے صدر بل کلنٹن نے بھارت کے عمر رسیدہ وزیراعظم واجپائی کو جگا کر گفتگو کے علاوہ 18سطور کا 180/الفاظ پر مشتمل وہ بیان بھی پڑھ کر سنایا اور بھارتی منظوری بھی حاصل کی۔ یہی مختصر اور کسی کے دستخط کے بغیر جاری کی جانے والی یہ تحریر پاکستان بھارت اور امریکہ کے دستاویزی ریکارڈ کا حصہ بنی اور سخت گرمی کے موسم میں سندھ کے پاک بھارت بارڈر سے ایک مکمل پاک بھارت جنگ کا خطرہ بھی ٹل گیا۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کچھ بھی دعویٰ کریں حقیقت یہ ہے کہ کارگل آپریشن کے باعث بھارت نے تمام فوجی تیاریاں مکمل کرکے امریکہ سے انڈر اسٹینڈنگ کے مطابق اسے آگاہ کر دیا تھا کہ وہ 26جون کو سندھ میں پاک بھارت سرحد عبور کر کے حملے کا آغاز کر دے گا۔ اس بارے میں امریکی ذرائع سے ملنے والی اطلاعات پر مبنی ایک رپورٹ ”دی نیوز“ اور ”جنگ“ میں 4جولائی سے قبل ہی شائع ہو چکی تھیں۔ اسی طرح جولائی کے آغاز کے ساتھ ہی میری تیار کردہ ایک مختصر مگر چونکا دینے والی یہ خبر بھی ”دی نیوز“ اور ”جنگ“ کے ریکارڈ کاحصہ ہے جس میں ذرائع نے بتایا تھا کہ کارگل کی کشیدگی کے سلسلے میں آئندہ 48گھنٹوں میں ”بریک تھرو“ ہونے والا ہے، جس کے بعد 4جولائی کو وزیراعظم نواز شریف اپنے تین وزراء سرتاج عزیز، جنرل (ر) مجید ملک اور چوہدری نثارعلی خان کے علاوہ معاون عملے کے ساتھ اچانک واشنگٹن پہنچ گئے جہاں صدر بل کلنٹن سے مذاکرات کے ذریعے کارگل اور پاک بھارت کشیدگی کوکم کرنے کے اقدامات طے پائے۔ مجھ سمیت پاکستانی اور بھارتی صحافیوں کے ایک چھوٹے سے گروپ نے4جولائی کی سخت گرمی میں واشنگٹن کے بلیئر ہاؤس (سرکاری گیسٹ ہاؤس) میں ہونے والے بل کلنٹن نواز شریف مذاکرات کی لمحہ بہ لمحہ رپورٹنگ بذریعہ فون کی اور پھر وہائٹ ہاؤس کے پریس روم میں جا کر دو اعلیٰ افسروں بروس ریڈل اور کارل انڈر فرتھ سے اس بارے میں بریفنگ اور پھر خاصے گرم سوالات کے ذریعے معلومات بھی حاصل کیں جو سب ”جنگ“ اور ”دی نیوز“ کے صفحات پر بکھریں۔ بعد ازاں مجھے4جولائی کی شام ہی وزیراعظم نواز شریف سے بھی آمنا سامنا ہونے پر گفتگو اور پھر5جولائی کو نیویارک میں تفصیلی گفتگو کا موقع ملا لہٰذا کارگل کے حوالے سے ”واشنگٹن کے رول اور کنکشن“ کے جو حقائق میرے علم میں آئے ان کی بنیاد پر جنرل (ر) پرویز مشرف اور جنرل (ر) شاہد عزیز کے موقف اور انکشافات کے بارے میں اپنی رائے کو قارئین کے سامنے پیش کرتا ہوں، اسے قبول کرنا یا مسترد کرنا ان کاحق ہے۔
(1) نواز شریف واشنگٹن، پرویز مشرف کی حمایت اور درخواست پر آئے تھے اور امریکیوں کو بھی اس کا علم تھا۔ (2) بھارتی ٹینک اور فوج 26جون کو پاک بھارت عالمی سرحد سندھ میں عبور کر کے حملہ کیلئے بالکل تیار تھی جسے امریکیوں نے بھارت کو ایسے کسی اقدام سے روکا اور پھر نواز شریف واشنگٹن آئے جبکہ پرویز مشرف واشنگٹن مذاکرات کو پاکستان میں بیٹھ کر مانیٹر کر رہے تھے۔ چند پاکستانی سرکاری افسر جو ان دنوں پاکستانی سفارت خانہ واشنگٹن میں متعین تھے وہ ان مذاکرات کے بارے میں خاصی معلومات رکھتے ہیں۔ (3)نواز شریف کا اصرار اس وقت بھی یہی تھا کہ وہ آپریشن سے لاعلم تھے۔ جنرل (ر) شاہد عزیز فوجی اعلیٰ افسر اور کلیدی پوزیشن پر رہنے کے باوجود اس سے لاعلم ہونے اور صرف چار جنرلوں تک خفیہ رکھے جانے کا ذکر کر کے نواز شریف کے موقف کی تصدیق کر رہے ہیں۔ (4) پرویز مشرف اپنے بااعتماد ساتھی جنرل کو آج غیرمستقل مزاج کا حامل اور جھوٹا قرار دے رہے ہیں تو سوال یہ ہے کہ پرویز مشرف نے ایک غیرمستقل مزاج فوجی افسر کو اپنی حکمرانی میں اہم عہدے دے کر اپنی کس مہارت اور بصیرت کا ثبوت دیا ہے؟ کون سے قومی اور فوجی مفاد کی حفاظت کی۔ مختصر الفاظ میں کارگل کے بارے میں پرویز مشرف کا موقف خاصا کمزور اور متضاد ہے اور یہ بات ”واشنگٹن کنکشن“ کے علم میں بھی ہے مزید تحقیق و تصدیق کی اب بھی ضرورت ہے۔
تازہ ترین