• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آسیہ پری وش

خالی پلاٹ پہ برسوں سے جمع ہوتے ڈھیروں ڈھیر کچرے کو آگ لگاتے پرجوش بچوں کو دیکھ کر وہاں سے گزرتے رحمت صاحب ان کی طرف آئے۔’’ کیا بات ہے بچو! صبح تم بچے ہاتھوں میں جھاڑو پکڑے پورے علاقے کی گلیوں کو صاف کرتے نظر آرہے تھے اور اب شام کو برسوں سے جمع ہوتے اس کچرے کو آگ لگا رہے ہو۔ خیر تو ہے۔ کہیں صفائی کا دن تو نہیں منایا جارہا؟‘‘ رحمت چاچا کے بلانے اور اس سوال پر سب بچے ان کے سامنے آکر کھڑے ہوگئے۔

’’نہیں چاچا، صفائی کا دن نہیں منایا جارہا بلکہ ہم اپنے پیارے پاکستان کو صاف ستھرا اور سنوارنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ‘‘ساجد نے پرجوش ہوکر رحمت چاچا کو ان کے سوال کا جواب دیا۔

’’ویسے بھی چاچا اس کچرے کی وجہ سے پورے علاقے میں مچھروں، مکھیوں، چوہوں اور دوسرے کیڑے مکوڑوں کی بہتات کی وجہ سے ہم سب بچے، بڑھے، بوڑھے طرح طرح کے مسائل اور بیماریوں میں سالہا سال سے مبتلاہورہے ہیں۔ سو ہم بچوں نے فیصلہ کیا کہ کیوں نا ان بیماریوں اور مسائل کی جڑ کو ہی کاٹ ڈالیں‘‘۔عادل نے بھی کچرے کو آگ لگانے کے مقصد پہ روشنی ڈالی۔

ان بچوں کی معصومیت پہ رحمت چاچا کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی۔ ’’لیکن بچو! اس کچرے کو ختم کرنے کا فائدہ کیا ہوگا۔ کل پھر یہاں پر کچرا جمع ہوجائے گا کیونکہ اس علاقے کے گھروں کے روزمرہ کے کچرے کو پھینکنے کی اس کے سوا اور کوئی جگہ ہی نہیں ہے اور دوسرا یہ کام تم بچوں کا نہیں ہے بلکہ یہ کام حکومتی اداروں کا ہے‘‘۔

’’ چاچا جب تک اس کچرے کا مکمل بندوبست نہیں ہوجاتا ،تب تک روز جمع ہوتے کچرے کو روز آگ لگانے کو بھی ہم تیار ہیں اور اس کا مکمل بندوبست بھی ہم نے چاچا حاجی کے ساتھ مل کر سوچ لیا ہے، اب صرف اس پر عمل کرنا ہے اور چاچا یہ پاکستان صرف حکومت کا نہیں ہے بلکہ ہم سب کا ہے۔ اس کی حفاظت، اس کے کام اور صفائی ستھرائی پوری نیک نیتی سے کرنا ہم پر بھی فرض ہے‘‘۔ عادل نے عظم سے کہا۔اس بات نے ثابت کیا کہ آج کل کے بچے عقل و شعور رکھتے ہیں۔

’’ہم تو کل اپنی جیب خرچ سے مختلف قسم کے درختوں، پھولوں اور بیلوں کے بیج بھی لے کر آئے ہیں۔ ان سے ہم اپنے گھروں اور پورے علاقے کو ہرا بھرا کردیں گے۔ ان کی صحیح دیکھ بھال بھی ہم خود کریں گے۔ ‘‘شہزاد اپنے پاکستان پہ زور دے کر جوش سے بولا۔

بچوں کا پاکستان کو صاف ستھرا رکھنے کا جوش قابل دید تھا ،جس سے متاثر ہوکر رحمت چاچانے اشتیاق سے پوچھا۔ ’’یہ تو بتاؤ کہ تم بچوں نے بھائی حاجی کے ساتھ مل کر کیا سوچا ہے؟‘‘

زاہد نے بتایا کہ’’چاچا آپ کو تو پتا ہے کہ چاچا حاجی اس علاقے کے ایک معتبر آدمی مانے جاتے ہیں۔ سب لوگ ان کی بہت عزت کرتے ہیں اور ان کی ہر بات کو اہمیت بھی دیتے ہیں۔ سو ہم بچوں نے مل کر چاچا حاجی سے اپنے علاقے میں گندگی اور کچرے سے پھیلتی بیماریوں اور ناقص مال کے استعمال سے بار بار بنتی اور ٹوٹتی سڑکوں پر ہوتے گڑھوں سے ہوتے نقصانات کی شکایت کی اور ان سے کہا کہ جس طرح سرکاری ادارے ہونے کے باوجود لوگ یہی ادارے اپنے بل بوتے پر پرائیوٹ طور پہ کھول کے خود کو اور دوسروں کو فائدہ پہنچارہے ہیں تو کیوں نا ہم بھی سرکار کا انتظار کرنے کے بجائے خود اپنے بل بوتے پر پوری سچائی اور ایمانداری سے اپنے علاقے کے ان مسائل پہ کام کریں۔ اس مقصد کے لیے ہم بچے روزانہ اپنی جیب خرچ سے کچھ پیسے بھی جمع کرتے جارہے ہیں جو کہ ہم آپ کو دے کر اس مقصد کے لیے آپ کی رہنمائی اور مدد چاہتے ہیں۔ ہماری بات سن کر چاچا حاجی نے بہت خوش ہوکر ہمیں شاباشی دے کر کہا، کہ وہ اس سلسلے میں علاقے کے سب لوگوں سے بات کرکے ان سے بھی مالی مدد اور بھرپور ساتھ کی درخواست کریں گے اور ایک بڑے کوڑےدان اور اس میں سے روز کچرا لے جانے کے انتظام کے ساتھ ساتھ دوسرے ممکنہ ترقیاتی کاموں میں بھی سب لوگوں کو ساتھ لے کر پوری سچائی اور ایمانداری سے اپنی مدد آپ کے تحت کام کریں گے۔ ‘‘

’’اور اگر علاقے کے بڑوں نے تعاون نہیں کیا تو؟‘‘ رحمت چاچا نے ایک خدشہ ظاہر کرکے ان بچوں کے باہمت ارادوں کی مضبوطی کو جانچنا چاہا۔

ساجد نے کہا،’’ تو کیا ہوگا چاچا۔ ہم نے اپنے کلاس اور اسکول فیلوز میں سے اکثر بچوں کو بھی اپنے اس مشن میں ساتھ ملالیا ہے لیکن اگر سب لوگوں نے مل کر بھی ہمیں اکیلا چھوڑدیا، پھر بھی ہمیں یقین ہے کہ اگر ہم پوری نیک نیتی سے اکیلے بھی اپنے پیارے پاکستان کو بنانے سنوارنے کے مشن پہ کام کرتے رہے تو ہمارا اﷲ ہمیں کبھی اکیلا نہیں چھوڑے گا۔ اﷲ کی رحمت اور مدد ہر لمحے ہمارے ساتھ رہے گی۔ ‘‘

لیکن بیٹا! تم سب ان کاموں کے لیے ابھی بہت چھوٹے ہو۔‘‘ رحمت چاچا نے فکر مندی سے کہا۔

’’ ارے چاچا یہ دیکھیں ہم کب چھوٹے ہیں۔‘‘ اسلم نے ایڑیوں کو اوپر کرکے کہا۔ اس کی اس بچکانہ حرکت پر رحمت چاچا سمیت سب ہنس پڑے۔

’’چاچا ہم بھی تو ابھی بچوں والے ہی کام کررہے ہیں اور اپنی عمر کے حساب سے ہی اپنے اس مشن کو آگے بڑھا ئیں گے اور اپنے پیارے پاکستان کو سرسبز اور صاف ستھرا بنائیں گے۔‘‘ شہزاد نے کہا۔

’’ بیٹا تم بچوں کا جذبہ، عزم اور مشن بہت اچھا اور قابل قدر ہے۔ میں بھی تم لوگوں کے ساتھ اس مشن میں شامل ہونا چاہتا ہوں۔ ‘‘رحمت چاچا کی بات سن کر سب بچے خوشی سے ان کے گرد گھیرا بنا کر کھڑے ہوگئے۔ ہم اپنے پیارے پاکستان کو سنوارنے اور اس کی حفاظت کے مشن میں آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔

تازہ ترین