• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گمنامی بڑے کام کی چیز ہے، زندگی سکون سے گزرتی ہے۔ الحمدللہ جنگ کے لئے لکھتے چھ برس ہو گئے مگر ابھی تک راولپنڈی سے لیکر کراچی اور کوئٹہ تک کے کسی آفس میں بھی اپنا اتہ پتہ نہیں چھوڑا۔ سو اگر کوئی چاہے بھی تو رابطے سے محروم رہتا ہے۔ ایسے میں الیاس مٹھیار اور جنرل حسن کے خطوط سخت جان نکلے کہ منزل مقصود تک پہنچ ہی گئے۔ وہ یوں کہ جنگ آفس راولپنڈی سے فارن آفس پہنچے اور کسی مہربان نے غریب خانے پر پہنچا دیئے کیونکہ ہم آج کل وہاں نہیں پائے جاتے۔ اس بے ربط سے انٹروکیلئے بے حد معذرت، مگر خط ہیں بڑے مزے کے۔ اور دونوں کا تعلق راقم کے سابقہ کالم ”کولڑے رشتے“ سے ہے۔ الیاس مٹھیار نے ایک دعویٰ کیا ہے اور کھلا چیلنج پھینکا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ آپ نے پیپلزپارٹی کی نوکریاں دینے کی پالیسی کی تعریف کی ہے۔ بھٹو شہید کو چھوڑ کر پارٹی نے آج تک کوئی ایک نوکری بھی سفارش، رشوت، جان پہچان اور تعلق داری کے بغیر نہیں دی۔ موصوف کا دعویٰ ہے کہ پارٹی کوئی ایک نام بتا دے جسے محض میرٹ اور خدا ترسی کی بنا پر روزگار دیا گیا ہو، وہ اسے غلط ثابت نہ کر سکے تو کوئی بھی سزا بھگتنے کیلئے تیار ہوں گے۔ انہوں نے یہ دہائی بھی دی ہے کہ اپنوں کو ضرور نوازو مگر لاوارثوں کے لئے کچھ نہ کچھ تو چھوڑ دیا کرو جو شبانہ روز کی محنت سے حاصل کی گئی ڈگریاں ہاتھوں میں لئے دھکے کھاتے پھرتے ہیں اور بازار میں بکنے والی سندوں والے مزے کر رہے ہیں۔
دوسرا خط جنرل حسن کا ہے ”کولڑے رشتوں“ کے حوالے سے انہوں نے لکھا ہے کہ آپ کا دھیان میاں صاحبان کی طرف تو چلا گیا مگر ایک ایسی شخصیت کو فراموش کر گئے جو ایوان صدر کا باسی تھا مگر اقربا پروری اور سفارشی کلچر کا اس قدر دشمن کہ اس کی اولاد تک کو ہر کام لائن میں لگ کر کرانا پڑا، جس کی امانت، دیانت، حب الوطنی اور خود داری ضرب المثل تھی۔ جس نے ضلع بنوں کے ایک پسماندہ گاؤں کے کچے مکان میں جنم لیا اور ذاتی محنت کے بل بوتے پر مملکت کے تمام قابل ذکر عہدوں پر فائز رہا۔ جو متعدد محکموں کے سیکرٹری کے علاوہ سیکرٹری جنرل انچیف، چیئرمین واپڈا اورگورنر اسٹیٹ بینک بھی رہا۔ سیاست میں آیا تو سینیٹ کے چیئرمین شپ کے راستے ایوان صدر تک جا پہنچا جو پاکستان کے جوہری پروگرام کا گمنام ہیرو ہے۔ جس کے بارے میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا کہنا ہے کہ اگر ہمیں ان کی رفاقت، تعاون اور رہنمائی حاصل نہ ہوتی تو ہمارا جوہری پروگرام ابتدا ہی میں منتشر اور ناکام ہو جاتا اور جس کی خدمات کا اعتراف جنرل حمید گل یہ کہہ کر کرتے ہیں کہ موصوف نے پاکستان کے جوہری پروگرام کو یوں پالا پوسا، جیسے کوئی اپنی اولاد کو پروان چڑھا رہا ہو، پھر بدقسمتی سے سیاست کی بساط کچھ اس طرح بچھی کہ نابغہ روزگار یہ شخصیت متنازع ہو گئی۔
میرے دوست جنرل حسن کا اصرار ہے کہ غلام اسحاق خان نام کا یہ شخص ہماری تاریخ میں کنبہ پروری، اقربا پروری اور سفارشی کلچر کا سب سے بڑا دشمن ہو گزرا ہے۔ مگر انہوں نے یہ سب کچھ ذاتی حیثیت میں اور محدود حلقہ میں کیا۔ قوم پران کا کتنا بڑا احسان ہوتا اگر وہ اپنی اس سوچ کو وسعت دیتے اور سماج کا حصہ بنا دیتے توآج پاکستان جنت ارضی کی نظیر ہوتا۔ نہ جانے ان کا اس طرف دھیان کیوں نہیں گیا؟ جو اپنوں کیلئے ننگی تلوار تھا، اس نے خلق خدا کو رشوت، سفارش اور اقربا پروری کے عذاب سے نجات کیوں نہیں دلائی؟ شاید سیاسی معاملات زیادہ گمبھیر تھے یا کچھ اور۔ مگر حقیقت یہی ہے کہ صلاحیت اور رجحان طبع کے باوجود وہ اس حوالے سے ڈیلور نہ کر پائے۔
موصوف صدر پاکستان تھے اور لوگ ان کے اکلوتے صاحبزادے مامون کے نام سے بھی ناواقف تھے حتیٰ کہ ایوان صدر کا عملہ بھی ان کے بارے میں کچھ زیادہ معلومات نہیں رکھتا تھا۔ بیٹا بھی باپ کا مزاج آشنا تھا۔ انجینئرنگ کی ڈگری مکمل ہوئی تو ایک خلیجی ریاست میں معمولی سی نوکری کرلی، جہاں مہینے میں پندرہ دن رِگ پر ڈیوٹی ہوتی تھی اور کمپنی قطعی لاعلم تھی کہ اس قدر مشقت کی ملازمت کرنے والا صدر پاکستان کا صاحبزادہ ہے۔ ملازمت کی درخواست بھری تو باپ سے پوچھا کہ والد کے پیشہ کے خانے میں کیا لکھوں؟ جواب ملا، سرکاری ملازمت لکھ دو۔ خان صاحب کے ایک داماد ناصر درانی بیرون ملک بینکار تھے، فیملی سمیت پاکستان لوٹ آئے اور ایوان صدر میں مہمان ہوئے۔ ناشتے کی میز پر خان صاحب سے ملاقات ہوئی سرسری طور پر پروگرام کا پوچھا اور یہ کہ کسی چیز کی ضرورت تو نہیں؟ داماد نے جواب دیا کہ ”چند جگہوں پر اپلائی کر رکھا ہے انٹرویو کیلئے جانا پڑتا ہے، اگر گاڑی مل جائے تو!!“ صدر پاکستان کا جواب تھا، ٹھیک ہے، ڈرائیور چھوڑ آیا کرے گا اور جب فارغ ہو جاؤ، فون کر کے بلا لینا۔ ساس صاحبہ سے نہ رہا گیا، بولیں، میرا بھانجا ہی نہیں تمہارا داماد بھی ہے۔ پریذیڈنٹ ہاؤس میں درجنوں گاڑیاں کھڑی ہیں۔ اس کے لئے ایک بھی اسپیئر نہیں ہو سکتی؟ جواب ملا، یہ گاڑیاں صرف صدر اور اس کی فیملی استعمال کر سکتی ہے۔ قانونی طور پر ناصر فیملی کا حصہ نہیں۔ داماد نے یہ عزت افزائی دیکھی تو چپکے سے والد کو پشاور فون کردیا اور چند گھنٹوں میں شوفر سمیت گاڑی ایوان صدر کے پورچ میں کھڑی تھی۔
ناصر کی طرح ڈاکٹر ظفر درانی کا بھی خان صاحب کے ساتھ دہرا رشتہ تھا، بھانجے بھی تھے اور داماد بھی۔ برطانیہ میں طبی تربیت کا آخری سمسٹر چل رہا تھا۔ اسلام آباد کا پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز نیا نیا بنا تھا، بھرتیاں ہو رہی تھیں ڈاکٹر ظفر نے بھی ایک اسامی کیلئے درخواست اس طور گزاری کہ ایک براہ راست اسپتال کو اور دوسری سسر صاحب کو ایوان صدر کے ایڈریس پر بھجوا دی۔ انٹرویو ہوا اور سلیکشن ہوگئی۔ نوکری کرتے ہوئے بھی مہینوں بیت گئے ایک دن سسرال گئے تو دیکھا کہ صدر پاکستان کو بھیجا گیا لفافہ جوں کا توں بند اسٹڈی ٹیبل کے ایک کونے پر دھرا ہے۔ حیرت کے مارے داماد نے سسر سے پوچھا کہ آپ نے تو اسے کھولا بھی نہیں؟ جواب ملا، ضرورت بھی نہیں تھی، مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ اس کے اندر کیا ہے۔
تازہ ترین