• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جادو چل گیا اور صادق سنجرانی تحریک عدم اعتماد کے دوران یقینی شکست سے بچ گئے۔ بقول فردوس عاشق اعوان انہیں تحریک عدم اعتماد سے بچانے کے لئے بھی وہی تعویذ استعمال کیا گیا ہے جو انہیں چیئرمین سینیٹ بناتے وقت استعمال کیا گیا تھا۔ فردوس عاشق اعوان صاحبہ نے جو فرمایا، وہ سب درست۔ میں ان کی اس بات سے بالکل متفق ہوں کہ یہ جمہوریت کی فتح ہے اور وہ 14سینیٹر جنہوں نے تحریک عدم اعتماد پیش ہوتے وقت تائید کی مگر بعد میں یوٹرن لیتے ہوئے ووٹ نہیں دیا، نے ضمیر کی آواز پر لبیک کہا۔ بہرحال پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں ایک موقع ایسا ضرور آیا جب ناہنجار ارکان پارلیمنٹ نے ضمیر کی آواز پر لبیک نہیں کہا اور یوں جمہوریت کی رسوائی اور ملکی وقار کی جگ ہنسائی کا سبب بنے۔ جب چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی جا رہی تھی تو مجھے 80کی دہائی میں پیش کی گئی ایک اور عدم اعتماد کی تحریک یاد آرہی تھی۔ 25فروری 1985کو غیرجماعتی بنیادوں پر انتخابات ہوئے تو سندھ سے تعلق رکھنے والے رُکن قومی اسمبلی محمد خان جونیجو کو وزیراعظم بنانے کا فیصلہ کیا گیا تاہم اس سے پہلے اسپیکر کا انتخاب ہونا تھا۔ ضیاء الحق کے قریبی ساتھی جنرل خالد محمود عارف کی کتاب Working with Zia جس کا اردو ترجمہ ’’ضیاء الحق کے ہمراہ‘‘ کے نام سے ہوا ہے، میں لکھا گیا ہے کہ ’’اسپیکر کے عہدے کے لئے صدر(جنرل ضیاء الحق)کی نگاہ انتخاب خواجہ محمد صفدر (خواجہ آصف کے والد )پر تھی۔ وزیراعظم اس پر متذبذب تھے لیکن انہوں نے کوئی دوسرا نام تجویز نہ کیا(اراکین اسمبلی نے صدر اور وزیراعظم کے مابین پائی جانے والی اس عدم موافقت کو بھانپ لیا تھا۔ ایک گروپ نے سید فخر امام کا نام تجویز کیا جو ضیاء کے ایک سابق وزیر تھے) ضیاء نے ذاتی طور پر فخر امام کو ٹیلیفون کیا اور انہیں اپنا نام واپس لینے کو کہا لیکن فخر امام نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔ پھر انہیں کثرت رائے سے قومی اسمبلی کا اسپیکر منتخب کر لیا گیا۔ یہ انتخاب ضیاء اور جونیجو کے لئے صدمہ سے کم نہ تھا‘‘۔

خواجہ صفدر کو شیخ رشید، حامد ناصر چٹھہ، ڈاکٹر شیر افگن نیازی، الٰہی بخش سومرو، حاجی حنیف طیب، گوہر ایوب، شیخ روحیل اصغر، ایم پی بھنڈارا سمیت کئی اہم شخصیات کی تائید و حمایت حاصل تھی اور پھر جنرل ضیاء الحق کا دست شفقت ان پر تھا مگر 22مارچ 1985کو ہونے والے انتخابات میں کسی نے ضمیر کی آواز پر لبیک نہ کہا، خواجہ صفدر کو 111ووٹ ملے جبکہ سید فخر امام 119ووٹ لیکر اسپیکر منتخب ہو گئے۔ سید فخر امام کا بطور اسپیکر منتخب ہو جانا سیاسی بندوبست پریقین رکھنے والوں کے لئے بہت بڑی شکست تھی۔ سید فخر امام نے اسپیکر منتخب ہونے کے بعد ایوان کو غیر جانبداری سے چلانے کی کوشش کی مگر مقتدر حلقے انہیں برداشت کرنے کو تیار نہ تھے۔ 26مئی 1986کو یعنی تقریباً ایک سال ایک ماہ بعد رانا نذیر احمد نے اسپیکر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جمع کروائی۔ جب ووٹنگ ہوئی توفخرامام کو صرف 72ووٹ ملے جبکہ 152ارکان قومی اسمبلی نے ان پر عدم اعتماد کا اظہار کردیا۔ یوں ارکان اسمبلی کا ضمیر جاگ جانے پر ایک بار پھر جمہوریت کی فتح ہوئی اور سید فخر امام سابق اسپیکر ہوگئے۔ چند برس قبل ایک معاصر اخبار کے ملتان دفتر میں ہورہے فورم کے دوران سید فخر امام نے اس واقعہ کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے بتایا کہ چند روز قبل میں برطانیہ کا دورہ کرکے آیا تھا، وہاں مجھ سے بہت تلخ سوالات کئے جاتے رہے اور میں انہیں یقین دلاتا رہا کہ پاکستان میں آمریت نہیں بلکہ جمہوریت رائج ہے مگر واپس آتے ہی میرے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کر دی گئی۔ بعد ازاںونسٹن چرچل جونیئر نے مجھے تار بھیجا جس میں لکھا تھا ’’Dont worry ,this also happend to my grand father‘‘۔ بہر حال نئے سرے سے اسپیکر کا انتخاب ہوا تو حامد ناصر چٹھہ 176ووٹ لیکر اسپیکر منتخب ہوگئے جبکہ ان کے مقابلے میں سردارآصف احمد علی اور شیخ رشید نے صرف 2,2ووٹ حاصل کیئے۔

دلچسپ بات یہ ہے صادق سنجرانی جو 12مارچ 2018کو چیئرمین سینیٹ منتخب ہوئے، ان کے خلاف بھی دوسرا سال مکمل ہونے سے پہلے ہی عدم اعتماد کی تحریک پیش کی گئی۔ اسپیکر قومی اسمبلی کے برعکس چیئرمین سینیٹ کے خلاف اس نوعیت کی یہ پہلی کارروائی ہے اور آج تک کسی چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب نہیں ہو سکی۔ 1973ء کا آئین نافذ ہونے کے بعد سینیٹ وجود میں آیا تو خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے سابق جج حبیب اللہ خان مروت پہلے چیئرمین سینیٹ منتخب ہوئے۔ حبیب اللہ مروت ایوب خان کے دور میں وزیر داخلہ اور مغربی پاکستان کے وزیراعلیٰ رہے۔ 6اگست 1973ء کو چیئرمین سینیٹ منتخب ہوئے۔ ان کی میعاد 5اگست1975ء کو ختم ہو رہی تھی مگر وہ دوسری مدت کے لئے بھی چیئرمین منتخب ہو گئے اور پھر جولائی کو جب سسٹم کی بساط لپیٹ دی گئی تو انہیں گھر جانا پڑا۔ البتہ جب صدر فضل الٰہی چوہدری کو علاج کے لئے بیرون ملک جانا پڑا تو انہوں نے قائم مقام صدر کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔ ضیاء دور میں غیر جماعتی انتخابات کے بعد سینیٹ کا ایوان ایک بار پھر وجود میں آیا تو 21مارچ 1985ء کو غلام اسحاق خان چیئرمین منتخب ہوئے۔ جب ضیاء الحق طیارہ حادثے میں مارے گئے تو غلام اسحاق خان نے صدر مملکت کا منصب سنبھال لیا جبکہ وسیم سجاد چیئرمین سینیٹ منتخب ہوگئے۔ اس دوران حکومتیں ادلتی بدلتی رہیں، وزیراعظم آتے جاتے رہے مگر وسیم سجاد اپنے عہدے پر برقرار رہے۔ 12اکتوبر کو جنرل پرویز مشرف نے جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کرلیا تو سینیٹ کا ادارہ بھی غیر فعال ہوگیا۔ 2002ء کے عام انتخابات کے بعد 12مارچ2002ء کو محمد میاں سومرو چیئرمین سینیٹ منتخب ہوئے جو 11مارچ 2009ء تک اس منصب پر رہے۔ 2008ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں پیپلز پارٹی برسراقتدار آچکی تھی اس لئے 12مارچ2009ء کو فاروق ایچ نائیک چیئرمین سینیٹ منتخب ہوگئے۔ 11مارچ 2012ء کو فاروق ایچ نائیک سکبدوش ہوئے تو سید نیئر بخاری چیئرمین منتخب ہوگئے۔ سید نیئر بخاری کے بعد 12مارچ2015ء کو میاں رضا ربانی چیئرمین سینیٹ منتخب ہوئے۔ 12مارچ 2018ء کو جب نئے چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کا مرحلہ آیا تو مسلم لیگ (ن) نے میاں رضا ربانی کو متفقہ امیدوار بنانے کی پیشکش کی تاہم سابق صدر آصف زرداری نے انکار کردیا۔ شاید یہی وہ تعویذ ہے جس کی طرف فردوس عاشق اعوان نے اشارہ کیا ہے۔ یوں 12مارچ 2018ء کو صادق سنجرانی چیئرمین جبکہ سلیم مانڈوی والا ڈپٹی چیئرمین سینیٹ منتخب ہو گئے۔ مسلم لیگ (ن) کو سینیٹ میں واضح اکثریت حاصل تھی مگر راجہ ظفرالحق کامیاب نہ ہو سکے۔ اس مرتبہ مسلم لیگ (ن) نے اپنا امیدوار لانے کے بجائے بلوچستان سے ہی تعلق رکھنے والے میر حاصل بزنجو کو چیئرمین سینیٹ کے لئے امیدوار نامزد کرکے ترپ کا پتہ پھینکا۔ مگر ہوا کا رُخ تبدیل نہ ہوسکا۔ عددی برتری کی بنیاد پرچیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو جاتی تو اس کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی، وزیراعظم اور پھر صدر مملکت کی باری آتی اس لئے نظام کو برقرار رکھنے کے لیے اس تحریک کو روکنا ضروری تھا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین