• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران خان، منتخب وزیراعظم پاکستان (’’سلیکٹڈ‘‘ کا لفظ پارلیمنٹ کی رولنگ کے سبب نہیں لکھا، قومی اداروں کا احترام لازم ہے) کا امریکی دورہ مجموعی طور پر متوازن اور کامیاب تاثر کا حامل ہے، فیصلہ کن طور پر متوازن اور کامیاب قرار دینا خوش فہمی ہو گی، معاملات حد درجہ پیچیدہ ہیں۔ دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے، عملاً جو بھی واقعات آگے چلنے ہیں وہ انہی دو نازک متوازی خطوط کے درمیان چلیں گے، یہ سفر ہر قدم پر نازک مراحل سے بھرپور ہو گا۔

خان صاحب نے ایسی گفتگو بھی کی ہے جسے ان کے ذاتی احساسات کی نمائندہ گفتگو کہا جا سکتا ہے۔ تاریخ کے حوالے سے تو پاکستان کے اندر جو کچھ ہوا یا کیا گیا، جب ’’قوتوں‘‘ نے کہا ان کی ’’طاقت‘‘ کے پیش نظر یہ تاریخ نہ زیر بحث لائی جا سکتی ہے نہ اس کے سامنے کھڑا ہوا جا سکتا ہے، اشاروں کنایوں کی بات الگ ہے۔ مثلاً اپنے دورے میں خان صاحب نے کہا ’’CIAکو اسامہ کی اطلاع ISIنے دی، پاکستان کو بتائے بغیر اسامہ کے خلاف امریکی آپریشن میری زندگی کا توہین آمیز ترین لمحہ تھا۔ امداد مانگنے سے نفرت ہے، آپ بھکاری بن جاتے ہیں۔ پرانی حکومتیں غلامی کر رہی تھیں۔ برابر کی سطح پر دوستی کا خواہش مند ہوں، سیاسی عسکری قیادت ایک پیج پر ہے‘‘۔ میڈیا کے تناظر میں خان صاحب کے ارشادات یہ تھے: ’’میڈیا واچ ڈاگ کا کردار ادا کرے، بلیک میلنگ نہیں، میڈیا پر پابندی کا ارادہ نہیں، نگرانی کریں گے، 80,70چینلز ہیں، مسئلہ صرف 3کو ہے، کیا امریکہ، برطانیہ میں کوئی ٹی وی پر بیٹھ کر کہہ سکتا ہے کہ وزیراعظم کل اپنی بیوی کو طلاق دے گا، زرداری کے دور میں میڈیا کے لوگ غائب ہو جاتے تھے، نواز شریف دور میں مار پڑتی تھی۔ امریکی تھنک ٹینک ’’انسٹیٹیوٹ آف پیس‘‘ میں خطاب کرتے ہوئے میڈیا کے سلسلے میں اُن کا مزید کہنا تھا ’’ میں برطانیہ میں رہ چکا ہوں، وہاں کا میڈیا کوئی ایسی چیز نشر نہیں کر سکتا جیسا پاکستان میں ہوتا ہے، آزاد میڈیا کی بدولت ہی میں اپنا پیغام اور منشور عوام تک پہنچانے میں کامیاب رہا ہوں۔ پاناما اسکینڈل کے بعد ایک چینل نے ملوث افراد کو بچانے کیلئے ہر حربہ استعمال کیا، اگر پاکستان میں میڈیا سے ٹیکسز کے بارے میں پوچھا جائے تو وہ اسے بھی میڈیا کی آزادی پر حملہ گردانتے ہیں۔

خان صاحب نے اپنے امریکی دورے اور میڈیا، دونوں موضوعات پر ایسا اظہار خیال کیا ہے جس کے جواب میں متعدد گزارشات پیش کی جا سکتی ہیں، ان حدود میں پیش کی جا سکتی ہیں جن میں خان صاحب کا ’’تصورِ آزادی‘‘ مقید ہے، ہاں درمیان میں ایک ایسی سخن گسترانہ بات آن پڑی ہے جس پر فوری ردعمل بعدازاں بحث کی معنویت میں اضافہ کر سکتا ہے۔

وہ سخن گسترانہ بات ’’پاناما لیکس‘‘ سے تعلق رکھتی ہے۔ خان صاحب کا کہنا ہے: ’’پاناما اسکینڈل آنے کے بعد ایک بڑے چینل نے ملوث افراد کو بچانے کے لئے ہر حربہ استعمال کیا‘‘، خان صاحب ’’بڑے چینل‘‘ کے ضمن میں جو کچھ بھی کہیں یہ اُن کا حق بھی ہے، وہ آج ایک بااختیار پوزیشن میں بھی ہیں تاہم ’’پاناما لیکس‘‘ کے موضوع کو وہ جس طرح نواز شریف تک مرتکز کرنا چاہتے ہیں، ضروری نہیں یہ اپروچ درست ہو یا لوگ اس کے برعکس کوئی دوسری سوچ نہ رکھتے ہوں۔ مثلاً پاناما لیکس کے انکشاف پر فوری ردعمل ہی کے طور پر ایک دانشور کی معتبر رائے یہ بھی سامنے آئی تھی ’’بڑی طاقتوں کی آپس کی لڑائی میں خود کو ملوث کر لینے کی تازہ ترین مثال پاناما لیک ہونے والی دستاویزات ہیں جن کی کل تعداد ایک کروڑ پندرہ لاکھ سے زیادہ ہے۔ اپنی پرانی نفسیاتی کیفیت کی وجہ سے ہم پورے ملک میں یہ ماحول پیدا کر رہے ہیں کہ گویا ایک کروڑ سے زیادہ ان دستاویزات کا تعلق صرف ’’وزیراعظم‘‘ نواز شریف سے ہے جبکہ ان کا نام درحقیقت کسی بھی دستاویز میں شامل نہیں ہے اور سندھ ہائیکورٹ بھی ایک درخواست کی سماعت کے دوران یہی کہہ چکی ہے اور اس درخواست کو خارج کر چکی ہے۔ کیا اسے محض ایک اتفاق کہا جائے گا کہ ان دستاویزات کے ذریعے چین کے کاروباری لوگوں کو نہیں بلکہ خود چینی صدر کے قریبی رشتہ داروں اور پوسٹ بیورو کے ارکان کو ملوث کرنے کی سازش کی گئی ہے، چین کے صدر پر یہ حملہ اتنا زبردست تھا کہ چین کی وزارت خارجہ کو براہ راست میدان میں آنا پڑا کہ ان رپورٹوں میں بے بنیاد الزامات کے سوا کچھ نہیں ہے۔چنانچہ پاناما لیکس کے انکشاف پر دانشور تجزیہ کار کا خیال یا فیصلہ یہ تھا ’’ہم اور آپ ایک طرف چین کی دوستی کے گن گاتے رہے اور دوسری جانب امریکہ کی چاپلوسی بھی کرتے رہے لیکن یہ حقیقت نہ سمجھ سکے کہ امریکہ کی 145برس پرانی معاشی بالادستی کو چین سے کتنے خطرناک چیلنج لاحق ہو چکے ہیں۔ اس معجزہ نما تبدیلی پر غور کرنے کے بجائے ہم پہلے جنرل ضیاء الحق اور بعد ازاں ہر تنقید اور قانون سے ماورا جنرل پرویز مشرف کی قیادت میں امریکی مفادات کی جنگ افغانستان میں لڑتے ہوئے خود کو تباہ و برباد کرتے رہے ‘‘۔

پاناما لیکس پر ہم نے حد درجہ تفصیل سے ایک ’’فوری ردعمل‘‘ کا حوالہ اس لئے دیا ہے کہ پاکستان میں اس تناظر میں تاریخ کا بہت بڑا زلزلہ آیا ہے، اب اس پر رائے زنی نہیں ہو سکتی، واجب الاحترام عدالتوں کے فیصلوں کے بعد یہ ممکن بھی نہیں، مذکورہ فوری ردعمل کا کوئی تعلق اس سے نہیں۔ یہ تفصیل تو محض اس لئے نہیں کی گئی کہ دنیا میں اس معاملے کو دیکھنے کے اور بھی پہلو اس وقت سامنے لائے گئے تھے جب یہ ’’پاناما لیکس‘‘ کا بم پھٹا یا چلایا گیا۔

خان صاحب دراصل جس طرح پاکستان کے 70برسوں کے قرضوں اور لوٹی ہوئی دولت کا ذمہ دار شاید صرف دو افراد نواز شریف اور آصف زرداری کو سمجھتے ہیں، اس طرح غالباً ان کے خیال میں پاناما لیکس کا دنیا میں ’’نزول‘‘ صرف نواز شریف کی ’’کرپشن‘‘ تھی، ایسا نہیں، مستقبل کا مورخ اس عنوان سے جانے کون کون سے پردہ اٹھائے اور کون کون سے نتائج نکالے گا۔

اب رہ گئی امریکی دورے کی کامیابیاں، یہاں تزویراتی گہرائی کے بینر تلے جو کچھ ہوا، مذہبی دہشت گردی اور پاکستان، میڈیا اور خان صاحب کی سوچ، میڈیا اور تحریک انصاف کی حکومت کے متوقع ارادے، مہنگائی، لاقانونیت اور تحریک انصاف کی حکومت، بہتر ہوگا ہم تحریک انصاف کے گلستان سے جھڑتے یا گرتے پھلوں کا ابھی اور انتظار کریں، عوام کو اس درخت کی مٹھاس یا کڑواہٹ کا مکمل ادراک ہو جائے گا جس کے یہ پھل ہوں گے۔ جلدی کی کوئی ضرورت نہیں۔ ان موضوعات پر ایک ایک کرکے ہی آگے بڑھنا ہو گا۔

تازہ ترین