• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سینیٹ میں کیا کھیل کھیلا گیا سب تاریخ کا حصہ بن چکا مگر سینیٹ میں اپوزیشن کی شکست سے آئندہ کچھ عرصے کے لیے حکومت اور اپوزیشن کے حوالے سے چند باتیں واضح ہو گئی ہیں۔

سینیٹ میں تحریک عدم اعتماد کی ناکامی سے یہ بات طے ہو گئی ہے کہ اپوزیشن کی صفوں میں کچھ ایسی کالی بھیڑیں موجود ہیں جو اسے کسی بھی وقت دھوکا دے سکتی ہیں۔ یہ ایسے لوگ ہیں جو یقینی طور پر اپوزیشن کی حکومت کے بارے میں حکمت عملی کے حوالے سے پل پل کی خبریں حکومت کو پہنچاتے ہیں۔ یہ افراد سینیٹ میں ہی نہیں قومی اسمبلی میں بھی ہیں اور سیاسی جماعتوں کے اندر بھی۔

آئندہ چند مہینوں میں اپوزیشن کی توجہ حکومت سے زیادہ اپنی صفیں درست کرنے میں لگے گی۔ اس ضمن میں سب سے زیادہ ذمہ داری پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور مسلم لیگ نون کی مریم نواز کے کاندھے پر آن پڑی ہے۔ انہیں اپنی اپنی سیاسی جماعتوں میں بیٹھے مشکوک افراد کی نشاندہی کرکے اپنی جماعتوں کے اندر ایک حکمت عملی وضع کرنا ہوگی۔ یہ مشکل کام دونوں نوجوان قیادتیں ہی کر سکتی ہیں۔

اپوزیشن اسی صورت میں موثر حکمت عملی اپنا کر اس پر عملدرآمد کر سکے گی جب اس کی صفوں میں اتحاد اور اعتماد ہوگا۔ ظاہر ہے اپوزیشن کی آئندہ آل پارٹیز کانفرنس میں حکومت پر الزامات تو عائد کیے جائیں گے مگر اپنے اندر بیٹھے غداروں کی نشاندہی کے لیے طریقہ کار بھی وضع کرنا پڑے گا۔ اگر ایوان کے اندر کھڑے ہوکر قوم کے سامنے جھوٹ بولنے والوں کی نشاندہی کئے بغیر بات آگے بڑھی تو بات آگے نہیں بڑھے گی۔

انگریزی زبان کا مقولہ ہے کہ Success has many fathers, failure is an orphanیعنی کامیابی کے دعویدار کئی ہوتے ہیں لیکن ناکامی یتیم ہوتی ہے۔ سینیٹ کی شکست کے بعد سیاسی جماعتوں کے اندر خود احتسابی کا نظام لانا ہوگا۔ کس سے کیسے اور کہاں غلطی ہوئی، یہ بتانا ہوگا تاکہ مستقبل میں ایک شفاف جمہوری نظام کی بنیاد رکھی جا سکے۔ اس شکست کے بعد ’’شک‘‘ پیدا ہوگا اور اس شک کو مصنوعی طریقے سے نشو و نما دینے کی کوشش بھی کی جائے گی۔ سیاسی جماعتوں میں بیٹھے عناصر شکست کا الزام ایک دوسرے پر عائد کریں گے اور باہمی نفاق اور عدم اعتمادی کا ماحول پیدا ہوگا۔

لگتا ایسا ہے کہ اپوزیشن کا زیادہ وقت باہمی نفاق دور کرنے میں ہی گزرے گا۔ عوامی سطح پر احتجاج یا اسلام آباد تک مارچ ابھی فوری نظر نہیں آرہے۔ وقت نے مولانا فضل الرحمٰن کے اس نظریے کو سچ ثابت کیا ہے کہ اپوزیشن کے میدان میں آئے بغیر بات نہیں بنے گی۔ اپوزیشن جماعتوں کو آج نہیں تو کل مولانا فضل الرحمٰن کی باتوں پر عمل کرنا پڑے گا۔

جو لوگ یہ تاثر دے رہے تھے کہ حکومت لانے والے خود حکومتی کارکردگی سے مطمئن نہیں اور جلد ہی وزیراعظم عمران خان کی حکومت کو چلتا کیا جائے گا۔ سینیٹ میں شکست ان کی مایوسی کا سبب بن گئی ہے لیکن یہ بات واضح ہوگئی کہ عمران خان تاحال نہ صرف قابل قبول ہیں بلکہ مقبول بھی ہیں۔

وزیراعظم عمران خان دورۂ امریکہ کی کامیابی کے بعد پہلے ہی زیادہ مطمئن اور بااعتماد تھے مگر سینیٹ کی فتح نے ان کے اعتماد میں اضافہ کر دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں ممکنہ طور پر اپوزیشن کے بعض بڑے سیاستدانوں کی گرفتاریاں بھی عمل میں لائی جائیں گی۔

مجھے ایک کرم فرما نے چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ سے قبل بتایا تھا کہ جلد مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے خلاف مقدمات اور گرفتاریوں کا نیا طوفان آ رہا ہے۔ مذکورہ کرم فرما نے یہ بھی بتایا تھا کہ اس بار گرفتاریوں کی فہرست میں مسلم لیگ نون کی رہنما مریم نواز، پارٹی کی ترجمان مریم اورنگزیب، پارٹی جنرل سیکرٹری احسن اقبال اور میاں جاوید لطیف وغیرہ کے نام بھی شامل ہیں۔ ایک اور ذریعے نے بتایا کہ وفاقی کابینہ کا ایک رکن نیب لاہور کے سربراہ کو قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف کی گرفتاری کے بارے میں اکثر رابطہ کرکے اصرار کرتا ہے یعنی شہباز شریف کی ایک بارپھر گرفتاری عمل میں لائی جائے گی۔

شاہد خاقان عباسی کی گرفتاری سے ٹھیک دس روز قبل انہیں اور ان کے ساتھ مفتاح اسماعیل کو کہا گیا کہ نوازشریف کو پیغام دیں کہ وہ بیرونِ ملک جانے پر رضامند ہو جائیں، آسانیاں پیدا ہو جائیں گی۔ عباسی نے پیغام دینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ یہ کام کسی اور سے ہی کرا لیا جائے۔ عباسی کو بھی مشورہ دیا گیا کہ وہ بھی باہر چلے جائیں مگر عباسی نے ماننے سے انکار کر دیا۔ بعد میں جو ہوا ریکارڈ کا حصہ ہے۔ میرے خیال میں ایسی پیشکشیں دوبارہ ہوں گی مگر انکار کرنے والے انکار پر ڈٹے رہیں گے اور اقرار کرنے والے اپنی راہ لیں گے۔

گرفتاریوں کی آندھی صرف مسلم لیگ نون کے خلاف ہی نہیں بلکہ پیپلز پارٹی کے چند رہنمائوں پر بھی چلے گی۔ میرے ایک دوست کا بتانا ہے کہ چونکہ نوجوان بلاول بھٹو زرداری بھی کسی کے قابو میں نہیں آرہے، انہیں بھی سبق سکھانے کے لیے نیب گرفتاری عمل میں لائے گی۔ نیب میں بلاول بھٹو کے خلاف پارک لین پارتھنن کیس میں کوئی ثبوت نہیں ملا لیکن انہیں جعلی اکائونٹس پارک لین کے مرکزی کیس میں گھسیٹا جا سکتا ہے۔ کون، کب، کیسے اور کس کیس میں گرفتار ہوگا کسی کو کچھ پتا نہیں لیکن ایسا ہوتا واضح طور پر نظر آ رہا ہے۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ یکسوئی سے ملکی معیشت اور اداروں کو درست کرنے کی پالیسی اختیار کرے لیکن لگتا ہے حکومت نئے محاذ کھولنے کا کام جاری رکھنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ حکومت کا ہنی مون پیریڈ ابھی جاری ہے جو رواں سال دسمبر میں ختم ہوگا اور اسی وقت حکومت کے لیے مسائل کے دور کا آغاز ہوگا۔

تازہ ترین