• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم امریکہ کے ایک ایسے کامیاب دورے سے واپس آئے ہیں جو بظاہر بڑا ہی کامیاب اور دونوں ممالک کے لئے بڑا مفید دورہ قرار دیا جارہا ہے۔ اس کے جواب میں اب امریکی صدر ٹرمپ آنے والے چند ماہ میں افغانستان سے ہوتے ہوئے پاکستان آئیں گے۔ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات ضروریات کی بنیاد پر ہمیشہ سے ایک ہی ڈگر پر چلتے رہے ہیں۔ ہر دور کا امریکی صدر اپنے اداروں کی ایڈوائس کی روشنی میں فیصلہ کرتا ہے کہ اس نے پاکستان کے ساتھ کیا سلوک کرنا ہے۔ اسی طرح ہر امریکی صدر کی سوچ امریکی مفادات اور مستقبل کی ضروریات کی عکاسی کرتی ہے۔ ہمیں جون 1989سے وائٹ ہائوس میں اس وقت سے جانے کا موقع ملا ہے جب مسز بینظیر بھٹو پہلی بار وزیر اعظم بننے کے بعد واشنگٹن ڈی سی آئی تھیں اور اینڈریو ایئر بیس پر انہیں خوش آمدید کہا گیا تھا۔ وائٹ ہائوس میں انہیں امریکی صدر جارج بش سینئر نے ریسیو کیا تھا۔ اس کے بعد وائٹ ہائوس کے پچھلے والے لان میں ایک شاندار تقریب کا انعقاد بھی کیا گیا تھا جس میں آصف علی زرداری وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے شوہر کے طور پر آئے تھے۔ اس کے بعد وزیر اعظم نواز شریف اور صدر مشرف کے ساتھ بھی دو تین بار وائٹ ہائوس، پینٹا گون اور اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ حتیٰ کہ امریکی کانگریس میں بھی جانے کا موقع ملا۔صدر مشرف کے ساتھ تو ہمیں فریڈرک ایریا میں کیمپ ڈیوڈ میں بھی بش جونئیر کے دور میں جانے کا موقع ملا۔ غرض امریکہ کے ہر ادارے کے کلچر سے آگاہی کے بعد یہ پتہ چلا ہے کہ ہر ملک سے دوستی اور تعلقات کا اپنا امریکی ایجنڈا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر صدر جنرل ضیاء الحق کے دور میں جب امریکہ کو پاکستان کی ضرورت تھی تو افغان لیڈر گلبدین حکمت یار ہی پاکستان میں آکر سرگرم ہوئے تھے۔ پھر کیا ہوا، روس کو افغانستان میں شکست پاکستان کی وجہ سے ہوئی۔ اس کے باعث پاک روس تعلقات میں کشیدگی اور بداعتمادی بڑھنے کا بھارت نے خوب فائدہ اٹھایا اور اب تک اٹھارہا ہے۔ اس طرح امریکی روایت ہے کہ جب کسی ملک کیمپ ڈیوڈ میں آنے کی دعوت دی جاتی ہے تو پس منظر میں امریکہ کے کوئی خاص الخاص ہی مقاصد ہوتے ہیں۔ یہی ہوا صدر مشرف کیمپ ڈیوڈ سے واپس آئے تو پاکستان کو نیٹو کا غیر اتحادی ممبر کا درجہ دے دیا گیا۔ اس کے بعد کے نتائج قوم اب تک بھگت رہی ہے۔ باقی رہا وزیر اعظم عمران خان کا موجودہ دورۂ امریکہ، اللہ کرے اس کے نتائج مثبت ہی برآمد ہوں، لیکن اس دورے کو اس لحاظ سے بہترین ضرور دیا جاسکتا ہے کہ انہیں وہاں پر مقیم پاکستانیوں کی طرف سے جو پذیرائی ملی ہے وہ قابل داد ہے لیکن ان کا ایک پیغام بھی وزیر اعظم عمران خان کو مدنظر رکھنا چاہئے کہ وہ بھی پاکستان میں ٹیکس قوانین پر عملدرآمد اور احتساب کے حق میں ہیں لیکن وہ پاکستان میں عام آدمی کی زندگی میں بھی آسانیاں چاہتے ہیں، جس سے مراد سستی روٹی کے لئے مہنگائی کا خاتمہ اور پٹرول سمیت مختلف اشیاء کی گرانی روکنا وہ ضروری سمجھتے ہیں۔ دوسرا بڑا فائدہ اس دورے سے یہ ہوا ہے کہ اب عالمی بینک، آئی ایم ایف اور دیگر اداروں کے رویے میں نرمی آجائے گی باقی امریکی حکام نے تو پاکستان کو افغانستان کے مسئلہ پر ایران کے ساتھ معاملات اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے کافی چیزیں طے کرنا ہیں یا طے کرائی ہیں۔ اس لئے ہوسکتا ہے کہ 2020میں وزیر اعظم امریکہ کے کیمپ ڈیوڈ جانے والے دوسرے پاکستانی سربراہِ حکومت بن جائیں اور پھر پاکستان چند سال کے لئے امریکہ کو عزیز رہے۔ اس وقت پاکستان کو امریکہ سے اپنے اقتصادی مفادات کے حصول پر فوکس بڑھانا چاہئے۔ اس وقت امریکی حکومت اور صدر دونوں پاکستان کے تعاون کے حصول کے لئے کھلے دل سے مل رہے ہیں، اس سے خوش ہونے کے بجائے احتیاط اور ذمہ داری سے اپنے قومی مفادات کے تحفظ اور ان میں اضافہ پر فوکس بڑھانے کے بہترین موقع ہے، جسے صحیح حکمت عملی سے استعمال کرنا چاہئے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین