• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
موجودہ حکومت نے قوم کی دادرَسی کیلئے ماشااللہ یوں تو گذشتہ پانچ سالوں میں بہت سے دُوررَس بلکہ رس سے ٹپکتے ہوئے کارنامے سرانجام دیئے جن میں سے چند ایک خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ پہلے تو یہ کہ جب عوام الناس کا بجلی، پانی، گیس، پٹرول اور دہشت گردوں کے ہاتھوں قتلِ عام جاری تھاتو حکومت نے کمال ہوش مندی اور دانشمندی سے محترم ذوالفقارعلی بھٹو شہید کے عدالتی قتل کا کیس عدالتِ عظمیٰ میں دائر کر دیا جس کے نتیجے میں شہید تو شہید ہی رہا مگرشہید کا وکیل بھی شہیدوں کی لائن میں لگ گیا۔ دوسرا قابلِ تحسین کارنامہ یہ کہ جب حکومت سے ملک نہ چل پایا تو وہ صوبوں کا اتوار بازار سجانے کے منصوبے پر چل نکلی۔ اس خشک سالی کے دورمیں عوام کے سر پر حکومت اور حکومت کے سر پر سازش سوار رہی جس کے نتیجے میں حکومت ہر چیز میں سازشی وائرس کو ڈھونڈتی رہی مگر نہ تو ڈھونڈ پائی اور نہ ہی بے نقاب کر پائی۔ ڈاکٹر قادری صاحب کی آمد اور جاوت بھی اسی وائرس زدہ آنکھ سے دیکھی گئی مگر نظر کچھ نہ آیا اور بلاآخر ایک لولا لنگڑا معاہدہ کر کے اسی سازش کا حصہ بن بیٹھی۔ اگر میں اور آپ حکومت کی مدد کی غرض سے سازش کا سراغ لگانے کی کوشش کریں تو کوئی تعجب نہیں کہ سازش کا واویلا حکمرانوں کے ایوانوں سے ہی شروع ہو کر اُنہی کی بند گلیوں میں دم توڑتا نظر آئے گا ۔ کچھ روز قبل کراچی میں قیامتِ صغرٰی کا منظردیکھا جس میں علمائے کرام کا دن دہاڑے کیمرے کی آنکھ کے سامنے قتلِ عام ہوا، اُس کے بعدصوبائی حکومت نے ایک اجلاس منعقد کیا اورکیونکہ صوبہ وزیرِداخلہ کے بغیر چل رہا ہے، اس لئے وزیرِاطلاعات نے میڈیا کو فخریہ انداز میں اطلاع دی کہ اجلاس میں وزیرِ اعلیٰ نے ایک اہم فیصلہ کیا ہے ، جس کے تحت سندھ کے تمام اضلاع سے ریزرو(Reserve) پولیس کو بلا کر پولیس اور رینجرز کو آپریشن کا حکم دے دیا گیا ہے۔ ذرا خود سوچئے ! کیا
اس فیصلے پر پہنچنے کے لئے پانچ سال درکار تھے؟ اتنی تاخیر کے بعد تو ”دیر آید درست آید“ کا محاورہ بھی اپنا مفہوم کھو بیٹھتا ہے۔ ہمارے پھرتیلے وزیرِداخلہ جن کو دہشت گردی کی اطلاع دہشت گرد سے بھی پہلے مل جاتی ہے ،نے کراچی کے تمام SHOs کو حکم دیا کہ وہ اپنی اپنی ذمہ داری کے علاقے میں پٹرولنگ میں اضافہ کردیں مگر اسی روز IG صاحب نے پٹرول کے کوٹے کو 9لیٹر سے کم کرکے 7 لیٹر یومیہ کردیا ”نہ رہے بانس نہ بجے بانسری“۔بقولِ شاع #
جہاں کی تیز رفتاری کو روکا تو ہے کچھ ہم نے
ہمیں جو آج کرنا ہے وہ اگلے سال کرتے ہیں
قارئینِ کرام!صوبوں کے قیام کی شعبدہ بازی بھی حکمرانوں کی درد مندی اور خلوصِ نیت کی منہ بولتی مثال ہے۔ مفاہمتی پالیسی پر چلتے ہوئے پہلے KPK بنایا ، پھر GB بنایا اور اب BJP کا اعلان کر دیا۔ KPK کے قیام سے تو محض ہزارہ والے سراپا احتجاج ہوئے لیکن BJP کے اعلان کے بعدسے تو پورے پنجاب میں اُچھل کود شروع ہے۔ایسے قومی معاملے کو حکومت نے جس عجلت میں نمٹایا ہے، اس پر مجھے سیّد ضمیر جعفری کا ایک شگفتہ قبر کَتبہ یا دآیا :- #
آنجہانی ایک احمق شخص تھے
یہ تو تھا معلوم کہ مر جائیں گے آپ
لیکن اِس پھُرتی کے کیا کہنے جناب
قارئینِ کرام! ہر وہ کام جو ملک کی ترقی اور خوشحالی کاضامن ہو ضرور ہونا چاہیے اور اِس ضمن میں اگر مزید صوبے بھی بنانا مقصود ہو توضرور بنائیں لیکن کیا صوبوں کی تقسیم ریوڑیوں کی تقسیم کی مانند ہے جو 14 مارچ سے پہلے کے قلیل عرصے میں تقسیم کی جائے؟ اسی لئے اب تو عدلیہ بھی یہ کہہ چکی ہے کہ مر تی ہوئی پارلیمنٹ نئے صوبوں کو جنم کیسے دے سکتی ہے؟ کیا یہ عمل واقعی قوم سے درد مندی اور خلوصِ نیت پر مبنی ہے؟ حکمرانوں کی عجلت اور طریقہء کار کو دیکھتے ہوئے میر ی نا قص رائے میں اس تمام مشق کا مقصد درا صل پنجاب میں ووٹوں کی تقسیم ہے ۔ شاید اِس کی مثال اُس شمع کی سی ہے جو بجھنے سے پہلے اپنے پھڑپھڑانے کا عمل پورا کرنے کے در پے ہو! قوم کے درد مندوں سے اپیل ہے کہ وہ اپنے ذاتی سیاسی مقاصد کے بر عکس قومی مفاد اور قومی یکجہتی جیسے اہم معاملات کو تدّبر اور فہم و فراست سے حل کریں۔ باقی حل طلب معاملات جو اڑتے تیروں کی مانند ان کی دسترس سے باہر ہیں، انہیں اپنی طرف کھینچنے کی بجائے آئندہ آنے والوں کے لیے چھوڑ دیں تاکہ آنے والی نسلیں ان کو تاقیامت یاد رکھیں۔
تازہ ترین