• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

ذیابطیس: پاکستان میں سالانہ 3 لاکھ سے زائد افراد معذوری کا شکار

ملکی و غیر ملکی ماہر امراض ذیابطیس کا کہنا ہے کہ دنیا میں ہر ایک منٹ میں تین افراد ذیابطیس کی پیچیدگیوں کے نتیجے میں معذور ہوجاتے ہیں، پاکستان میں سالانہ تین سے چار لاکھ افراد شوگر کی بیماری کے نتیجے میں ہونے والے زخموں کی وجہ سے اپنے پیروں یا ٹانگوں سے محروم ہوجاتے ہیں، ذیابطیس کے نتیجے میں پیر یا ٹانگیں کٹنا دنیا بھر کی طرح پاکستان میں معذوری کی سب سے بڑی وجہ بن چکا ہے۔


ماہرین کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں ذیابیطس کی شرح ساٹھ فیصد تک جا پہنچی ہے، ڈاکٹروں کی تربیت اور عوام میں آگاہی پیدا کرکے ذیابطیس میں مبتلا پاکستانیوں کو مستقل معذور ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔

ان خیالات کا اظہار مقامی ہوٹل میں منعقدہ دو روزہ بین الاقوامی ذیابطیس کانفرنس کے پہلے روز خطاب کرتے ہوئے کیا۔

کانفرنس سے سابق وفاقی سیکریٹری صحت ایوب شیخ، لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر سر پروفیسر بھیکا رام، انٹرنیشنل ڈائبٹیز فیڈریشن کے مشرقی وسطیٰ اور شمالی افریقہ (مینا) ریجن کے چیئرمین پروفیسر عبدالباسط، اٹلی کے معروف ماہر ذیابطیس ڈاکٹر البرٹو اینچینی، تنزانیہ کے ماہر ذیابطیس ڈاکٹر ذوالفقار جی عباس، کانفرنس کے چیئرمین ڈاکٹر زاہد میاں، ڈاکٹر سیف الحق، پروفیسر یعقوب احمدانی، پروفیسر فیروز میمن، پروفیسر بلال بن یونس سمیت ملکی اور غیر ملکی ماہرین نے خطاب کیا۔

دو روزہ ذیابطیس کانفرنس اتوار کی شام تک مقامی ہوٹل میں جاری رہے گی جس کے دوران ملکی اور غیرملکی ماہرین زیابطیس کے نتیجے میں پیروں میں ہونے والے زخموں کے علاج کے لیے مقامی ڈاکٹروں کو تربیت دیں گے جب کہ کانفرنس کے دوسرے روز غذا، ورزش اور علاج کے ذریعے شوگر کنٹرول کرنے کے حوالے سے تربیت فراہم کی جائے گی۔

کانفرنس کے افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے دنیا کے معروف ماہر ذیابطیس پروفیسر عبدالباسط کا کہنا تھا کہ تمام تر آگاہی کے باوجود دنیا بھر میں میں شوگر کی بیماری سے ہونے والی پیچیدگیوں کے باعث پیر اور ٹانگیں کٹنے کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے جو کہ اس وقت دنیا میں مستقل معذوری کا سب سے بڑا سبب بن چکا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں بھی صورتحال باقی دنیا سے مختلف نہیں، پاکستان میں ہر سال تین سے چار لاکھ لوگ ذیابطیس کے نتیجے میں ہونے والی پیچیدگیوں کے باعث اپنے پیروں اور ٹانگوں سے محروم ہوجاتے ہیں ہیں جن میں سے 70 فیصد افراد پانچ سال کے اندر مر جاتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ڈاکٹروں اور شوگر کے مریضوں کی تربیت کرکے ان کے ادارے بقائی انسٹیٹیوٹ آف ڈائیبیٹالوجی اینڈ انڈوکرائنولوجی نے پیروں اور ٹانگیں کٹنے کی شرح کو آدھے سے بھی کم کردیا ہے اور اب ضرورت اس امر کی ہے کہ پورے ملک میں ایسے تین ہزار کلینک قائم کئے جائیں جہاں ماہر ڈاکٹر اور پیرا میڈیکل اسٹاف شوگر کے مریضوں کا علاج کر کے ان کے پیروں اور ٹانگیں کٹنے سے بچا سکیں۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ بلوچستان میں ذیابطیس کی شرح ساٹھ فیصد سے بھی زیادہ ہوچکی ہے جس کی ایک بڑی وجہ وہاں امن و امان کی ناگفتہ بہ صورتحال حال اور صوبے میں کھیل اور تفریحی سرگرمیاں کم ہونا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں اس بات کی بھی تحقیق کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا وہاں کے لوگ بنیادی طور پر پاکستان کے دیگر خطوں کے عوام سے جینیاتی طور پر مختلف تو نہیں ہیں جس کے نتیجے میں ان میں شوگر کی بیماری انتہائی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔

پروفیسر عبدالباسط نے بتایا کہ وہ سندھ حکومت سے رابطے میں ہیں تاکہ مقامی ڈاکٹروں کو تربیت دے کردیہی علاقوں میں شوگر کے مریضوں کا علاج کیا جاسکے اور وہاں پیروں اور ٹانگ کاٹنے کی شرح کو مزید کم کیا جا سکے۔

سابق وفاقی سیکریٹری صحت ایوب شیخ نے کہا کہ پاکستان میں ایسے کئی گاؤں اور علاقے ہیں، جہاں کی سو فیصد آبادی ذیابطیس کے مرض میں مبتلا ہے لیکن بدقسمتی سے نہ وہاں کے لوگوں کو علم ہے اور نہ اس کے نتیجے میں ہونے والی پیچیدگیوں کی خبر ہے۔

پروفیسر عبد الباسط کی ٹیم کو ملکی سطح پر ذیابطیس کے حوالے سے  کوششو ں پر مبارکباد دیتے ہوئے انہو ں نے کہا کہ حکومت کو اس مہلک مرض کے پھیلاؤ کو روکنے کے اقدامات کرنے ہوں گے جو کہ متعدی امراض سے بھی زیادہ تیزی سے پاکستان میں پھیل رہا ہے۔

لیاقت یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر پروفیسر بھیکا رام کا کہنا تھا کہ اس بات میں اب کوئی شک نہیں کہ ذیابطیس اس وقت حادثات اور جنگوں سے بھی زیادہ معذوری کا سبب بن رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹروں اور لوگوں کو تربیت فراہم کرکے معذوری اور ذیابطیس کے نتیجے میں ہونے والی اموات کو بڑی حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔

کانفرنس کے آرگنائزنگ کمیٹی کے چیئرمین ڈاکٹر زاہد میاں کا کہنا تھا کہ ان کی تنظیم نیشنل ایسوسی ایشن آف ڈائبیٹیز ایجوکیٹر آف پاکستان نے  شبانہ روز محنت کرکے پاکستان میں ذیابطیس کے نتیجے میں پیر اور ٹانگیں کٹنے کی شرح کو نصف کر دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہزاروں مزید افراد کو مستقل معذوری سے بچایا جاسکتا ہے لیکن اس کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا جبکہ سوشل میڈیا اس سلسلے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔

تنزانیہ سے آئے ہوئے معروف ماہر امراض ذیابطیس پروفیسر ذوالفقار جی عباس نے کہا کہ ذیابطیس کے ایسے مریض جن کے پیروں میں زخم ہوجاتے ہیں وہ پہلے تین سے چار ہفتے دیسی ٹوٹکوں اور حکیموں کے چکر میں اپنے زخموں کا بیڑا غرق کر لیتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ اپنے پیروں اور ٹانگوں سے محروم ہوجاتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ذیابطیس کے مریضوں کے لیے وقت بہت اہمیت کا حامل ہے انہیں اپنے پیروں کا روزانہ معائنہ کرنا چاہیے اور کسی بھی زخم یا غیر معمولی تبدیلی کی صورت میں ڈائیبیٹک فُٹ کلینک یا ماہرین سے رجوع کرنا چاہیے۔

تازہ ترین
تازہ ترین