• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی دھینگا مشتی میں متحارب قوتیں اپنی اپنی چونچ اور اپنی اپنی دُم گنوا بیٹھیں۔ سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کے ووٹ پر جو مناظر اصل رائے دہندگان نے ٹیلی وژن پر دیکھے تو جتنی بے توقیری اپنی آنکھوں سے اُنہوں نے ایوانِ بالا کے معزز ارکان کی ہوتے دیکھی تو اُن کا ایمان اپنے ووٹ کی بے وقعتی پر کیا بچا ہوگا۔ ایسے ہوتے ہیں منتخب جماعتوں کے نامزد منتخب ارکان جن کے ضمیر کی بے ضمیری پر ریاستِ مدینہ والے سجدۂ شکر اور حزبِ اختلاف والے اپنے پرانے گناہوں کے اجر پر سجدۂ سہو بجا لا رہے ہیں۔ کیا تو جمہوری بالادستی کےلئے 64 اراکینِ ایوانِ بالا بلاخوف تن کر کھڑے ہوئے کہ خلقِ خدا کی نظر کا کچھ تو پاس کیا جائے اور کیا پردے کے پیچھے جا کر ووٹ کی عصمت گنوا بیٹھے۔ اب اِن میں وہ 14کون ہیں جو اپنے سیاسی عہد سے مُکر گئے اور ساری حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی سُبکی کا باعث بنے۔ ریاستِ مدینہ کی گنتی پرکوئی کیا سر دھنے۔ چلئے 36میں اگر جگائے گئے ضمیر والے 9اراکین کو بھی شامل کر لیں تو گنتی اکثریت سے آٹھ کم پڑتی ہے اور 45والا ہار کر بھی جیت گیا اور 50والا جیت کر بھی ہار گیا۔ ایسے میں جماعتِ اسلامی والے صالحین کو کیا پڑی تھی کہ اپنے ووٹ سنبھال کر رکھنے کا ثواب حاصل نہ کرتے۔ سیاست کے بھی عجب رنگ ہیں اور یہ سیاستدانوں کو کیسے کیسے پینترے بدلنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ کیا تو عمران خان خفیہ رائے دہی کے خلاف تھے اور کیا اب سینیٹ میں خفیہ ووٹ کے کرشمے پر مسرور۔ ایسے میں پیپلز پارٹی والے اپنی خفگی چھپائیں تو کیسے کہ یہ آصف علی زرداری صاحب ہی تھے جن کی کمالِ ہوشیاری، عمران خان کی خفت بھری اعانت سے بلوچستان میں نواز لیگ کی پوری کی پوری پارلیمانی پارٹی اپنی ہی جماعت کے خلاف ہو گئی تھی اورپیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کا مشترکہ امیدوار چیئرمین سینیٹ بن گیا تھا۔ اب اُسے مسند سے ہٹانے کی ضرورت پیش آئی بھی تو کس منہ سے ؟رہی ن لیگ تو وہ بھی ن غنا (ں) ہوئی۔ اب سینیٹر رحمان ملک اور سینیٹر جنرل عبدالقیوم کیسی ہی دہائیاں دیں تیر تو کمان سے نکل چکا۔ اِس سے زیادہ مضحکہ خیز منظر کیا ہوگا کہ جب عدم اعتماد کا ووٹ ہار کر اپوزیشن کا اجلاس ہوا تو اس میں وہ 14پردہ نشین باضمیر بھی تھے جو ہارس ٹریڈنگ کا شکار ہوئے۔ اب ڈھونڈے اپوزیشن اپنی اپنی آستینوں میں چھپے سانپوں کو اور اُن کو بھی جو کل کو پھر دام لگوانے پر تیار ہوں گے۔ رہ گئے ہمارے دوست رضا ربانی جنہوں نے اس ایوان کو بطور چیئرمین تو بڑی وفاقی تمکنت بخشی تھی، وہ اپنا منہ چھپائیں نہ تو کیا کریں۔ یہ وہی رضا ربانی تھے جن پر تقریباً ساری سینیٹ متفق تھی کہ اُنہیں چیئرمین بنایا جائے لیکن خود زرداری صاحب سب پر بھاری ہوئے کہ آج سینیٹ بطور وفاقی ایوان ہلکی پڑ گئی۔ پھر شہباز شریف سوچ میں پڑے نظر آئے کہ یہ کون ہیں جو اُن کی صفوں میں زیادہ چلتر ثابت ہوئے۔

اس کے باوجود کہ اپوزیشن جیت کی پوزیشن میں ہوتے ہوئے ہار گئی اور حکومت کم تعداد کے ساتھ بھی جیت گئی، حزبِ اختلاف کی احتجاجی مہم کے آغاز سے پہلے ہی اُس کے غبارے سے ہوا نکل گئی۔ اسمبلیوں کے اندر لڑنے کا راستہ سود مند نہ رہا تو حزبِ اختلاف سڑکوں کی راہ لے گی اور اگر مہنگائی اور نئی اُمیدوں کے قتل پر بپھرے عوام بھی باہر آ گئے تو پھر جانے نقشہ کیا سے کیا ہو جائے۔ شاید محمود رہے نہ ایاز۔ یوں لگتا ہے کہ عمران خان اب ہر تنخواہ پہ کام کرنے پہ ہر نئے روز زیادہ سے زیادہ راضی ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اُن کا بس یہی کام رہ گیا ہے کہ وہ اپوزیشن کے خلاف کرپشن کے بیانیے کو کنٹینر والے زور شور سے جاری رکھیں اور وہ کام کرنے والوں کو وہ کام بھی کرنے دیں جو کہ اُن کا کام نہیں۔ خیر سے واشنگٹن یاترا کے بعد  اگلے دو برس کپتان کی جیسی کیسی حکومت کو کچھ ہونے والا نہیں۔ اب جانے ہمارے مولانا فضل الرحمان کی قوت کیا رنگ جماتی ہے جب وہ اکتوبر میں اسلام آباد میں براجمان ہوں گے۔ نواز شریف حکومت کے خلاف ایک مولانا نے تو دو ہزار لوگوں کے ساتھ اسلام آباد اور راولپنڈی کو بے بس کر دیا تھا،اب مولانا فضل الرحمان لاکھوں نہیں تو دسیوں ہزار فدائین کے ساتھ کیا کرشمہ دکھانے جا رہے ہیں جب افغان طالبان کابل پر پھر سے براجمان ہونے کو ہیں۔ امریکہ کی فوجی شکست اور طالبان کی فتح قریب ہےایسے میں چپ سادھ کر بیٹھنا ہی ٹھیک ہے۔ ریاست جانے ریاست کا کام۔ کم از کم اس بار دوسری عظیم تزویراتی فتح کے بعد ہمیں پھر سے افغان جنگ کے اگلے مرحلے کا ملبہ نہ اُٹھانا پڑے۔ پہلے ہی ہماری مالی حالت دگرگوں ہے، اوپر سے امریکی رفو چکر ہو گئے اور سارا بوجھ پاکستان پر آن پڑا تو ملک کا کیا بنے گا۔

خطے کے منظر میں بڑی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ اور ہم اپنی بے کس جمہوریت کی مٹی پلید ہونے پہ بغلیں بجا رہے ہیں۔ یہ ہارس ٹریڈنگ کا دھندہ بہت پُرانا ہے۔ چھانگا مانگا سے بھی بہت پہلے کا۔ اس کاروبار میں سبھی شامل رہے ہیں۔ کیا محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف عدم اعتماد کے لئے اسامہ بن لادن تک کا پیسہ استعمال نہیں ہوا تھا۔ اور کیا بلوچستان کی پوری حزبِ اقتدار نہیں بک گئی تھی؟ ضرورت ہے کہ حزبِ اختلاف اپنے گناہوں پرمعافی مانگے، ایک نئے چارٹر آف ڈیموکریسی پر عہدنامہ کرے اور اپنی صفوں کو صاف کرے اور جمہوریت کی طلبگار ہونے کے لئے اپنی اپنی جماعتوں کو بھی جمہوریت کے سبق سے آشنا کرے۔ کوئی کیوں شریف خاندان یا بھٹو خاندان کے لئے میدان میں اُترے اور کس بنیاد پر۔ اب کوئی کس طرف دیکھے؟ ہر طرف اندھیرا ہے! بہتر ہے کہ رضا ربانی اور حاصل بزنجو جیسے سر پھرے اپنی راہ لیں۔

لڑتے لڑتے ہو گئی گم، ایک کی چونچ اور ایک کی دُم۔

تازہ ترین