جناب صادق سنجرانی کو چیئر مین سینیٹ بنانے کے لئے پی پی پی کے سربراہ آصف علی زرداری نے بڑے طریقے سےکام کیا تھا پہلے بلوچستان میں صوبائی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی اور مسلم لیگ (ن) کے وزیر اعلیٰ سردار ثناء اللہ زہری کو ان کے عہدے سے ہٹایا اور بلوچستان کی وزارت اعلیٰ (ق) لیگ کی جھولی میں ڈال دی تھی۔ اسی طرٖح 2018 میںجب سینیٹ کے انتخاب ہوئے تو مسلم لیگ (ن) کو بلوچستان میں وہ حصہ نہ مل سکا جس کی اسے امید تھی،اس وقت نواز شریف اور آصف زرداری کی دوستی ختم ہوچکی تھی۔ لہٰذا سینیٹ کے چیئر مین اور ڈپٹی چیئر مین کے لئے پاکستان پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کا ایک اندرونی اتحاد ہوا اور عمران خان اور زرداری باہم مل گئے اور اس طرح چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کا انتخاب مسلم لیگ (ن) ہار گئی۔
بہت سے دوست اس کو جانتے ہیں کے پی ٹی آئی اورپی پی پی کو قریب لانے میں چند معتبردوستوں نے کردار ادا کیا تھا مگر 2018کے الیکشن میں اس میں شگاف پڑ گیا اورجونہی احتساب کا عمل شروع ہوا دونوں جماعتوں کےٖفاصلے بڑھ گئے۔دوسری طرف 2018کے انتخابات میں مولانا فضل الرحمان صاحب متحرک ہوئےاور تمام پارٹیوں سے اتحاد بنانے میں مصروف ہوگئے،مولا نا صاحب کو نواز شریف اور مریم نواز یقین دلاتے رہے کہ فکر نہ کریں ہم آپ کے ساتھ ہیں اور زرداری صاحب کو بھی راضی کرنے کی مولانا صاحب کو ذمہ داری سونپ دیتے ہیں۔
بینظیر بھٹو اور نواز شریف بھی اس دور سے گزرے ہیں میاں صاحب نے چھانگا مانگا سیاست کی بنیاد رکھی اور وہیں سے پاکستانی سیاست میں پیسہ کا کھیل شروع ہوا عوام کے ٹیکسوں کے پیسوں سے اسمبلی کے ممبران کو خریدا گیا اور اے ایس آئی اور تحصیل دار کی سطح پر 3,3نوکریاں دی گئیں جو ایم پی ایز نے لاکھوں روپے میں فروخت کیںآج وہی نواز شریف مظلوم بنتے ہیں کہ میں نے کچھ نہیں کیا میں جمہوریت کی لڑائی لڑرہا ہوں ۔
اسی طرح بینظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد آنے لگی توسب اسمبلی ممبران کوسوات لے جایاگیا جہاں ان پر بارش کی طرح پیسہ خرچ کیا جس طرح چھانگا مانگا میں خرچ کیاگیا تھا۔کسی صحافی نے بینظیر بھٹو سے کہا کہ اسمبلی ممبران نوکریاں بیچ رہے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ بھائی کل ان کو الیکشن بھی لڑنا ہے۔ بلاول بھٹو کے ماسٹر مائنڈ آصف علی زرداری جب کہ مریم نواز کے نواز شریف ہیں دونوں ایک دوسرے کے کندھے استعمال کرنے کے لئے با ہم سیاسی راہ رسم بڑ ھاتے ہیں اگر مریم نواز بلاول بھٹو کی افطاری میں شرکت کرتی ہیں تو دوسری طرف بلاول بھٹو جیل میں جاکر ملاقات کرتے ہیں۔لیکن ذہنی طور پر ایک دوسرے سے ہر گز مخلص نہیں ہیں۔آصف علی زرداری یہ سمجھتے ہیں کہ جعلی بینک اکائونٹس کے نئے مقدمات میاں نواز شریف کی طرف سے ان کی کمر میں چھرا گھو پنے کے مترادف ہیں جبکہ نواز شریف اپنی جگہ سمجھتے ہیں کہ انہیں جیل پہنچانے کے لئے آصف زردازی نے سیاسی وزن ان کے پلڑے میں نہیں ڈالا اور میثاق جمہویت کو ثبوتاژ کیا ہے۔
اب جبکہ ڈپٹی چیئر مین سلیم مانڈوی والااور چیئر مین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف پیش کی جانے والی عدم اعتماد کی تحریکیں ناکام ہوچکی ہیں۔ مسلم لیگ کے صدر میاں شہباز شریف نے اجلاس سے پہلے جب سینیٹروں کودعوت پر بلایا تھا تو64ارکان نے شرکت کی تھی چنانچہ یقین ہو گیا تھا کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوجائے گی مگر عین خفیہ ووٹ ڈالنے کے وقت 14ارکان پھسل گئے اور تحریک عدم اعتماد کے حق میں 50ووٹ آئے جبکہ منظوری کے لئے 53ووٹ کی ضرورت تھی۔ جبکہ حکمراںجماعت اور اس کے اتحادی سینیٹروں کی تعداد 36ہے اور صادق سنجرانی کو 45ووٹ حاصل ہوئے۔
گویا حزب اختلاف کہ9سینیٹرز نے صادق سنجرانی کو ووٹ دے کر اپنی پارٹیوں سے بے وفائی کی۔ اسی طرح سلیم مانڈوی والا کے خلا ف جو تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تھی جس کے حق میں 36ووٹ آئے جبکہ انہیں ہٹانے کے لئے53درکار تھے لہٰذا سینیٹ کے چیئر مین اور ڈپٹی چیئر مین اپنے عہدوں پر برقرار رہ کر اپنے فرائض سر انجام دیتے رہیں گے،اگر ایک طرف حزب اختلاف کو شکست ہوئی ہے تو دوسری حزب اقتدار کو بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
یہ بات قابل غور ہے کہ صادق سنجرانی کو چیئر مین سینیٹ بنوانے میں آصف علی زرداری کا بڑا ہاتھ تھا سلیم مانڈوی والا بھی پی پی پی کے نہایت اہم رکن ہیں جس کی وجہ سے بعض تجزیہ نگار جو نتیجہ اخذ کر رہے ہیں اس کے بارے میں کچھ کہناابھی مناسب نہیں۔میرے خیال میں چیئر مین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں اپوزیشن کی ناکامی میں جمہوریت کی فتح نہیں بلکہ اس واقعے سے یہ ضرور ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے بعض سیاسی رہنما ذاتی مفاد اور اپنی اناکی خاطر قومی اداروں کے وقار کوبھی قربان کر دیتے ہیں،محسوس یہ ہوتا ہے پی ٹی آئی نے بھی مسلم لیگ (ن)کی طرح چھانگا مانگا اور پاکستان پیپلز پارٹی نے سوات کی طرح کی سیاست شرع کر دی ہے،جو پاکستان کے لئے سرا سر نقصان دہ ہے۔