• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سینیٹ آف پاکستان کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد کی تحریکوں پر رائے شماری ( ووٹنگ ) کا جو نتیجہ سامنے آیا، اس پر ساری دنیا حیرت زدہ ہے۔ اپوزیشن اتحاد کے 14 سینیٹرز نے اپنی سیاسی جماعتوں کی ظاہری حکمت عملی سے انحراف کرکے وہ کچھ کر دکھایا ہے، جو ہم جیسے سیدھی سادی سوچ رکھنے والے لوگ توقع نہیں کر رہے تھے۔ آخر ہوا کیا؟ اس سوال کا حقیقی جواب ملنے سے پہلے اتنا کچھ ہو چکاہو گا کہ ہمیں یہ سوال بھی یاد نہیں رہے گا اور ماضی کے کئی رازوں کی طرح یہ راز بھی مکمل طور پر افشا نہیں ہو گا۔ 25 جولائی 2018 ء کے عام انتخابات کے بارے میں بھی ہم یہی سوال کر رہے تھے کہ آخر ہوا کیا ؟ بہت عرصہ ہوا ہم نے عام انتخابات کے بارے میں سوچنا ہی چھوڑ دیا ہے۔ پھر کچھ دنوں تک اس معاملے پر بحث جاری رہے گی اسی حوالے سے ہم بھی اپنے ضمیرکے مطابق رائے زنی کی جسارت کرتے ہیں۔ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف جب ایوان میں تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تو 64 سینیٹرز یعنی پاکستان کے ایوان بالا کے انتہائی محترم ارکان نے کھڑے ہو کر اس تحریک کی حمایت کی لیکن جب تحریک پر خفیہ رائے شماری ہوئی تو 50 ارکان سینیٹ نے اس تحریک کے حق میں ووٹ دیئے۔ کھڑے ہونے والے 64ارکان نے اپنا فیصلہ تبدیل کر دیا۔ 104 ارکان کے ایوان بالا میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لئے 53 ووٹوں کی ضرورت تھی لیکن یہ تحریک تین ووٹ کم ہونے کی وجہ سے ناکام ہو گئی اور صادق سنجرانی بھی چیئرمین سینیٹ کے عہدے پر برقرار رہے، جنہیں بلوچستان کی ’’ محرومیاں ‘‘ دور کرنے کے لئے یہ منصب جلیلہ اس طرح ملاکہ ہم نے پاکستان کے عظیم تر مفاد میں یہ سوال ہی نہیں کیاکہ آخر ہواکیا ؟ یہ 14 سینیٹرز کون ہیں اور انہوں نے ایسا کیوں کیا ؟ یہ کسی ٹی وی چینل کے نیلام گھر جیسے شو کا آج کل ایک کروڑ کا سوال ہے۔ اپوزیشن اتحاد کے رہنما یہ کہتے ہیں کہ ان 14 سینیٹرز نے غداری کی جبکہ حکمراں پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں کا موقف یہ ہے کہ ان سینیٹرز نے اپنے ضمیر کے مطابق فیصلہ کیا ہے۔ یعنی ان کے خیال میں یہ محترم سینیٹرز اپنی سیاسی جماعتوں میں قیدی یا یرغمال بنے ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود وہ فیصلہ اپنے ضمیر کے مطابق کرتے ہیں۔ خفیہ رائے شماری کامقصد ہی یہی ہے کہ لوگوں کو اپنے ضمیر کے مطابق فیصلہ کرنے کا موقع فراہم کیا جا سکے۔ اس تناظر میں ان سینیٹرز کو ’’ ضمیر کا قیدی ‘ کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کو بھی چاہئے کہ وہ انہیں ضمیر کا قیدی قرار دے۔

اپوزیشن اتحاد کا ان سینیٹرز پر غداری کا الزام درست نہیں ہے۔ ضمیر کے مطابق فیصلہ کبھی غداری نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے یہ سمجھا ہو گا کہ ان کی قیادت کا صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ درست نہیں ہے کیونکہ قیادت نے کچھ عرصہ قبل کسی ’’ وجہ ‘‘ کے بغیر صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ منتخب کرنے کی ہدایت کی تھی، جنہیں اس سے پہلے بہت کم لوگ جانتے تھے۔ لہٰذا تحریک انصاف والوں کا ان `14 سینیٹرز کو باضمیر قرار دینا منطقی ہے کیونکہ تحریک انصاف میں بھی زیادہ تر لوگوں نے اپنے ضمیر کے مطابق فیصلہ کرتے ہوئے اپنی پرانی سیاسی جماعتوں کو چھوڑ کر تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی تھی اور اسی طرح دنیا کے ساتھ ساتھ اپنے ووٹرز کو بھی حیرت زدہ کر دیا تھا۔ ایک تھیوری یہ بھی چل رہی ہے کہ اپوزیشن اتحاد کی کچھ سیاسی جماعتوں کی قیادت نے ’’ مفاہمت ‘‘ کے لئے ان سینیٹرز کو ایسا کرنے کی ہدایت کی ہو گی۔ اب اگر اس تھیوری یا مفروضے کو درست تصور کر لیا جائے تو ان 14 سینیٹرز کا فیصلہ ضمیر کے مطابق ہی قرار پائے گا کیونکہ اپنی قیادت سے وفاداری بھی باضمیر لوگوں کی خاصیت ہے۔ قیادت نے انہیں باضمیر سمجھ کر اعتماد میں لیا ہو گا اور دوسروں کو اعتماد کے قابل نہیں سمجھا ہو گا۔ حقیقت کچھ بھی ہو، ضمیر جو فیصلہ کرتا ہے، وہ ہرحال میں درست قرار پائے گا۔ ضمیر کے مطابق کیا چیز درست ہے یا کیا چیز غلط ؟ اس کا معیار کوئی اصول یا نظریہ نہیں ہے۔ اپنے صولوں اور نظریات پر قائم رہنے والے اور طویل اسیری کا شکار جن لوگوں کو ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ضمیر کا قیدی قرار دیا، وہ ہمارے تاریخی تجربات کی روشنی میں ’’ ضدی ‘‘ لوگ تھے۔ ضمیر ضد کا نام نہیں۔ ضمیر کے مطابق آج جو فیصلہ غلط ہے، وہ کل درست بھی ہو سکتا ہے۔ اب لغت اور انسائیکلوپیڈیاز میں ضمیر کی نئی تعریف کرنا ہو گی۔ اصل میں ضمیر کے قیدی ہم لوگ ہیں۔ جو اپنی سیاسی اور نظریاتی وابستگی کے اسیر ہوتے ہوئے بھی اپنے ضمیر کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں۔ جو لوگ آج 14 سینیٹرز کے ضمیر کے مطابق فیصلے پر اعتراض کررہے ہیں، وہ بھی کئی مرتبہ اپنے ضمیر کے مطابق فیصلے کر چکے ہیں۔

پاکستان کے ایوان بالا کے ان 14 معزز ارکان نے خود گمنام رہ کر پاکستان کا نام روشن کیا ہے۔ مگر ایوان بالا کے اندر اس جمہوری عمل میں ایک بڑی خامی رہ گئی ہے، جو عام انتخابات میں بھی تھی۔ ڈالے گئے 100 ووٹوں میں سے 5 ووٹ مسترد کر دیئے گئے۔ اس طرح مسترد ووٹوں کا تناسب 5 فیصد ہے، جو تاریخ کی سب سے بڑی شرح ہے۔ مسترد ووٹوں پر ہی فیصلہ الٹ ہوگیا۔ بالکل اسی طرح 25 جولائی 2018 ء کے عام انتخابات میں ہوا تھا، جب زیادہ تر حلقوں کے نتائج مسترد ووٹوں کی وجہ سے تبدیل ہو گئے۔ اگرچہ نتائج کی تبدیلی باضمیر لوگوں کے حق میں ہوئی لیکن دنیامیں یہ تاثر گیا ہے کہ کچھ ضمیر کے قیدی ایسے ہیں، جو اپنے ضمیر کے مطابق واضح فیصلہ نہیں کر سکتے۔ تذبذب اور خوف کا شکار ضمیر کے یہ قیدی عام انتخابات میں بھی لاکھوں کی تعداد تک پہنچ گئے۔ ان کے مسترد ووٹوں کی شرح بھی ریکارڈ 5 فیصد تک تھی۔ یہ شرح ایوان بالا میں بھی برقرار رہی۔ سینیٹ میں خفیہ رائے شماری کے دوران جن 10 باضمیر سینیٹرز نے اپنا واضح فیصلہ کیا، ان کی اہمیت کم ہو گئی کیونکہ نتیجہ ان 4 دیگر سینیٹرز کے مسترد ووٹوں سے بنایا، جنہوں نے اپنے ضمیر کے مطابق دو ٹوک فیصلہ نہیں کیا لیکن ان کی اہمیت زیادہ ہو گئی۔ پتہ نہیں ضمیر کے قیدیوں کی کیا مجبوریاں ہیں ! باضمیر لوگوں کو زیادہ عزت اور اہمیت دلانے کے لئے مسترد ووٹوں کی بنیاد پر نتائج بنانے کا سلسلہ ختم ہونا چاہئے۔

تازہ ترین