• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکی عوام کی اکثریت پاکستانیوں کو مذہبی انتہاپسند، جاہل اورخونخوار سمجھتی ہے۔ پاکستانی عوام کی اکثریت امریکہ کو اسلام کا دشمن اوربھارت واسرائیل کا اتحادی سمجھتی ہے۔ دونوں ممالک پچھلی ایک دہائی سے دہشت گردی کے خلاف ایک نام نہاد قسم کی جنگ میں ایک دوسرے کے پارٹنر ہیں لیکن ایک دوسرے پر اعتماد بھی نہیں کرتے۔ ایک دوسرے پر شکوک و شبہات اور عدم اعتماد کی فضا پیدا کرنے میں امریکی میڈیا کا کردار نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ امریکہ ایک سپرپاور ہے اور سپرپاور کے اخبارات اور ٹی وی چینلز بھی عالمی میڈیا میں سب سے سپر ہیں۔ پچھلے دس سال میں امریکی میڈیا نے پاکستان کو کئی مرتبہ توڑا اور کئی مرتبہ جوڑا۔ امریکی میڈیا کے اکثر دعوے جھوٹے ثابت ہوتے رہے لیکن جس کے پاس طاقت ہوتی ہے اس کے جھوٹ کوبھی سچ کہا جاتا ہے۔ جس طرح امریکی میڈیا نے پاکستان کو دنیا کا خطرناک ترین ملک ثابت کرنے کی کوشش کی اسی طرح پاکستانی میڈیامیں بھی کچھ لوگ امریکہ کو پاکستان کا سب سے بڑا دشمن قرار دیتے ہیں۔ امریکی میڈیا کے پروپیگنڈے نے پاکستان کو پوری دنیا میں بدنام کیا جبکہ پاکستانی میڈیا کے پروپیگنڈے نے کم از کم پاکستان کے اندرامریکی ساکھ کو بری طرح مجروح کیا۔ اس میڈیا وار میں یقینا امریکہ کا پلڑا بھاری ہے لیکن آہستہ آہستہ کہیں نہ کہیں اس حقیقت کا ادراک کیا جارہا ہے کہ پاکستان اور امریکہ میں عدم اعتمادکی فضا ختم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ دونوں ممالک کے میڈیا میں جنگ کا ماحول ختم کیا جائے۔ اس مقصد کے لئے کچھ عرصہ قبل وائس آف امریکہ کے ٹی وی پروگرام پاکستانی چینلز پر نشر کروائے گئے جس کے لئے پاکستانی چینلز پروقت خریداجاتا تھا لیکن شاید اس منصوبے کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے۔
حال ہی میں انٹرنیشنل سینٹر فار جرنلسٹس نے امریکہ اورپاکستان کے صحافیوں میں پارٹنر شپ کو فروغ دینے کے لئے ایک نیا منصوبہ شروع کیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت مختلف پاکستانی اخبارات اور ٹی وی چینلز کے صحافیوں کو امریکہ بھجوایا جائے گا جہاں وہ امریکہ کے اخبارات اور چینلز میں کچھ عرصہ کے لئے کام کریں گے۔ اسی طرح امریکی صحافیوں کو پاکستان لایا جائے گااور وہ پاکستانی اخبارات وٹی وی چینلز کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔ مقصد یہ ہے کہ امریکی و پاکستانی صحافی ایک دوسرے کی خوبیوں کا ذکر بھی کریں اور ایک دوسرے کے کلچر کوبھی سمجھیں۔ اس مقصد کیلئے پچھلے ہفتے انٹرنیشنل سینٹر فار جرنلسٹس کی طرف سے امریکہ کے مختلف شہروں سے امریکی صحافیوں کے ایک وفد کو پاکستان بلایا گیا اور اسلام آباد میں ایک تین روزہ ورکشاپ کااہتمام کیا گیا۔ اس ورکشاپ میں پاکستان کے چاروں صوبوں کے علاوہ قبائلی علاقوں کے ایک سو سے زائد صحافی بلائے گئے۔ امریکی اورپاکستانی صحافی تین دن تک مختلف گروپوں میں بٹ کر مختلف موضوعات پر ایک دوسرے سے تبادلہ خیال کرتے رہے۔
اس ورکشاپ کے ایک سیشن میں مجھے بھی اظہار خیال کی دعوت دی گئی۔ اس سیشن کا موضوع گفتگو یہ تھا کہ ہم ایک دوسرے کو کس نظرسے دیکھتے ہیں؟ میں نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر کہا کہ آپ ہمیں تعصب کی نظر سے دیکھتے ہیں اور ہم آپ کوشک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ امریکہ نے ہمیشہ پاکستان میں ڈکٹیٹروں کی حمایت کی اور ہمارے ایٹمی پروگرام کی مخالفت کی جس کے باعث پاکستان کے جمہوریت پسندوں اورمحب وطن حلقوں میں امریکہ کے خلاف جذبات پیدا ہوئے۔ 1994میں طالبان پیدا ہوئے تو امریکہ ان کی حمایت کر رہا تھا لیکن گیارہ ستمبر 2001 کے بعد امریکہ نے طالبان کواپنا دشمن قرار دیدیا۔ میں نے حاضرین کو 30مئی 2002 کے نیویارک ٹائمز میں سلمان رشدی کا مضمون دکھایا جس میں پاکستان کو دنیا کا خطرناک ترین ملک قرار دے دیا گیا تھا حالانکہ اس وقت نہ خودکش حملے شروع ہوئے تھے نہ ڈرون حملے شروع ہوئے۔ 20اکتوبر 2007 کے نیوزویک نے بھی پاکستان کو دنیا کا خطرناک ترین ملک قرار دے دیا اور پھرمیں نے 22مارچ 2009 کا واشنگٹن پوسٹ پیش کیا جس میں امریکی حکومت کے فوجی مشیر ڈیوڈ کیلکولن نے دعویٰ کیا تھا کہ اگلے چھ ماہ تک پاکستان ٹوٹ جائے گا۔ میں نے ورکشاپ میں موجود امریکی صحافیوں سے پوچھاکہ آج 2013 ہے پاکستان نہیں ٹوٹا لیکن کیا آپ نے کبھی ڈیوڈ کیلکولن سے پوچھا کہ تم نے واشنگٹن پوسٹ میں جھوٹ کیوں لکھا تھا؟ میں نے ورکشاپ کے شرکا کو 27ستمبر 2011 کا نیویارک ٹائمز دکھایا جس میں مجھ پرتنقید کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ حامد میر کیپٹل ٹاک میں یہ سوال اٹھارہا تھاکہ کیا امریکہ کی طرف سے پاکستان پر زمینی حملے کی تیاری کی جارہی ہے؟ اس سوال کے جواب میں فرخ سلیم نے حامد میر سے کہا کہ آپ جلتی ہوئی آگ پر تیل کیوں پھینک رہے ہیں۔ 13اکتوبر 2011 کو سی این این کی ویب سائٹ پربھی مجھے اور کیپٹل ٹاک کوتنقید کانشانہ بنایا گیا کہ میں امریکہ کے ممکنہ حملے کا سوال اٹھا کر سنسنی پھیلا رہا ہوں لیکن آخرکار 26نومبر 2011 کو امریکہ نے سلالہ چیک پوسٹ پر حملہ کرکے ہمارے فوجی جوانوں اور افسروں کوشہیدکردیا۔ میں نے امریکی مہمانوں سے پوچھا کہ جب آپ کی تنقید غلط ثابت ہوگئی تو آپ نے مجھ پر لگائے گئے الزامات کو واپس لینا بھی ضروری نہیں سمجھا۔ اس موقع پر میں نے امریکہ کے کچھ صحافیوں کے مثبت رویئے کا بھی ذکر کیاکیونکہ نومبر 2007 میں مشرف حکومت نے پاکستانی میڈیا پر پابندیاں لگائیں تو سی این این اور واشنگٹن پوسٹ سمیت کئی امریکی اخبارات نے ان پابندیوں کی مخالفت کی تھی جس کے بعدمشرف کے زیر کنٹرول خفیہ اداروں نے مشرف کے مخالف صحافیوں کو امریکی ایجنٹ قرار دیناشروع کر دیا تھا۔
میں نے شرکا کو بتایا کہ ابھی تک سوشل میڈیا پر بلاثبوت پاکستانی صحافیوں پر جھوٹے الزامات کا سلسلہ جاری ہے اور قابل غور نکتہ یہ ہے کہ عام طورپر اس قسم کے الزامات صرف ان صحافیوں پر لگتے ہیں جو مارشل لا کے مقابلے پر جمہوریت کی حمایت کرتے ہیں۔ یہاں مجھ سے ایک سوال کیا گیا کہ کیا میں مارشل لا کے مقابلے پر جمہوریت کی حمایت کرکے جانبداری کا مظاہرہ نہیں کرتا؟ کیا میں طالبان کے مقابلے پر ملالہ یوسف زئی کی حمایت کرکے جانبداری نہیں دکھاتا؟ میں نے اپنے جواب میں کہا کہ مارشل لا آزادی ٴ صحافت کا دشمن ہوتاہے اس لئے پاکستان کے باضمیر صحافیوں نے ہمیشہ مارشل لا کی مخالفت کی ہے اورآئندہ بھی کریں گے۔ ملالہ یوسف زئی تعلیم پھیلانے کی بات کرتی ہے اور تعلیم پھیلانا ہم سب کا فرض ہے۔ اس لئے ملالہ کی حمایت ضروری ہے۔ صحافی کو خبر لکھتے اور بیان کرتے ہوئے غیرجانبدار رہنا چاہئے لیکن خبر کا تجزیہ کرتے ہوئے وہ جھوٹ اور سچ میں توازن قائم نہیں رکھ سکتا۔ ظالم اور مظلوم میں توازن قائم رکھنے کی کوشش کا مطلب ظلم کی حمایت ہے اسی لئے جہاں میں ملالہ یوسف زئی کی حمایت کرتاہوں وہاں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ بھی کرتا ہوں۔ میں نے اپنے امریکی مہمانوں سے گزارش کی کہ وہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر لگائے گئے الزامات کی تحقیقات کریں اوراس کے بارے میں سچائی سے دنیا کو آگاہ کریں تاکہ پاکستانیوں کو پتہ چلے کہ آپ سچ بھی لکھتے ہیں۔
واشنگٹن پوسٹ کے رچرڈ لیبی نے میری اکثر گزارشات سے اتفاق کیا۔ ایلپشیاڈین نے کہا کہ پاکستان آ کر پتہ چلا کہ یہاں صرف طالبان اور القاعدہ نہیں بلکہ عبدالستار ایدھی جیسے اچھے لوگ بھی رہتے ہیں۔ سیشن ختم ہوا تو ایک امریکی صحافی نے مجھے کہا کہ اس نے ایک امریکی ویب سائٹ پرمیرے بارے میں ایک آرٹیکل پڑھا جس میں کہا گیا تھا کہ حامد میر طالبان اور القاعدہ کاحامی ہے یہاں آ کر لوگوں سے بات کی توکچھ نے کہاکہ آپ توسی آئی اے کے لئے کام کرتے ہیں۔ یہ سن کرمیں ہنس پڑا۔ بلوچستان کی ایک خاتون صحافی نے امریکی صحافی کو بتایا کہ جس آرٹیکل کا وہ ذکرکر رہی تھی یہ آرٹیکل کوئٹہ کے ایک صحافی نے لکھا تھا۔ مشرف کے حامی اخبار میں کام کرنے والے اس صحافی کو امریکہ میں فیلوشپ ملی تو اس نے امریکہ میں پہنچ کر سیاسی پناہ لے لی۔ اب وہ امریکہ میں اہمیت بنانے کے لئے جھوٹ لکھتاہے۔ میں نے امریکی صحافی سے کہا کہ آپ ہمارے بھگوڑوں کی رائے ضرور سنا کریں لیکن یہ بھی دیکھیں کہ ہم صرف ڈ رون حملوں کی مخالفت نہیں کرتے۔ جب رمشا مسیح پرغلط الزام لگتا ہے توہم اس کے ساتھ بھی کھڑے ہوتے ہیں۔ بلوچستان میں ظلم ہوتو وہاں بھی پہنچتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ ہمیں پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کریں اور اگر ہم انکار کردیں تو آپ ہمارے بھگوڑوں کو ہمارے پیچھے لگا دیں۔ یہ سن کر امریکی صحافی بھی ہنس پڑااور کہنے لگا کہ بھگوڑوں کو سنبھالنا آپ کا مسئلہ ہے ہمارا نہیں۔
تازہ ترین