• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

  • انسان نے انسان کو جلانے، تڑپانے کے کتنے حربے ایجاد کر رکھے ہیں
  • کاغذ بالکل سادہ، کورا تھا، لیکن مجھے ہر سطر پر لکھے لفظ صاف نظر آرہے تھے
  • اِک دَربدر، خاک بسر… اور عشقِ مجازی سے عشقِ حقیقی تک کا سفرِ مسلسل

حضرت سلیمان علیہ السلام کا دربار لگا ہوا تھا۔ سب جن و انس، چرند پرند، ہوائیں تک مؤدب، ساکت کھڑے نئے حکم نامے کا انتظار کر رہے تھے۔ ہُد ہُد جو ملکہ صبا کے تخت کی خبر لایا تھا، اُس نے کن انکھیوں سے مور راجہ کی طرف دیکھا۔ سامنے خُوب صُورت نقّاشی والے اونچے عظیم ستونوں میں سے ایک پر دیمک کے کیڑے دَم سادھے بیٹھے تھے کہ ابھی شہتیر کھانے کا حکم نہیں ملا تھا۔ اچانک دربانوں میں کچھ ہلچل سی ہوئی اور باہر کسی بحث کی آوازیں اُبھریں۔ حضرت سلیمانؑ کی رُعب دا آواز گونجی ’’فریادی کو آنے دیا جائے۔‘‘ دربار میں داخل ہونے والا شخص سخت خوف زدہ تھا اور وحشت بھرے انداز میں بار بار بیرونی دروازے کی طرف دیکھ رہا تھا۔ حضرت کے استفسار پر وہ گِڑگِڑا کر بولا ’’حضور! میں نے شاید ابھی ابھی آپ کے دروازے پر عزرائیل علیہ السلام کو دیکھا ہے اور مجھے شک ہے کہ وہ میری ہی رُوح قبض کرنے یہاں آئے ہیں، لیکن میں ابھی مرنا نہیں چاہتا۔ آپ کے تابع تو سارا جہاں ہے، یہ جن و انس، یہ سرسراتی ہوائیں، آپ کسی کو حکم کیجیےکہ مجھے ابھی دنیا کے دوسرے سرے تک پہنچا دے، ہزاروں، لاکھوں مِیل دُور، قطب شمالی یا قطب جنوبی کے کسی سِرے پر۔ کہیں بھی، لیکن پلک جھپکتے کہ میں عزرائیل کا سامنا نہیں کرنا چاہتا۔‘‘ حضرت سلیمانؑ کے جلال کو فریادی پر رحم آ گیا اور ہوا کو حکم دیا کہ ’’یہ جہاں خود کو محفوظ سمجھے، اسے دنیا کے اُسی خطّے میں اتار دیا جائے۔‘‘ اور وہ شخص پلک جھپکتے ہوا ہوگیا۔ دو لمحے بعد عزرائیلؑ دربار میں حاضر ہوئے۔ حضرت سلیمانؑ نے مُسکرا کر پوچھا ’’یاعزرائیل! کیا بات ہے، کسی الجھن میں دکھائی دیتے ہیں؟‘‘ حضرت عزرائیلؑ نےجواب دیا ’’ہاں! ازل سے آج تک کبھی نہیں اُلجھا، پر آج دو لمحے پہلے آپ ہی کے دربار کے دروازے پر ایک شخص کو دیکھ کر پریشان ہوگیا کہ کہیں مجھے رُوح قبض کیےجانے والوں کی کوئی غلط فہرست تو نہیں تھما دی گئی۔‘‘ حضرت سلیمانؑ نے چونک کر پوچھا ’’کیوں، ایسا کیا ہوا؟‘‘ حضرت عزرائیلؑ بولے ’’میری فہرست کےمطابق مجھے اگلے لمحے جس شخص کی جان لینی تھی، اُسے اس وقت دنیا کے دوسرے سِرے پر ہونا چاہیے تھا، لیکن وہ مجھے آپ کے دروازے پر کھڑا نظر آیا، تو میں الجھ گیا لیکن کیا عجیب بات ہے کہ میں ٹھیک وقت پر جیسے ہی مقررہ مقام پر پہنچا تو میں نے اس شخص کو اُسی جگہ پایا، جہاں اس کی جان لینا طے تھا۔ سچ ہے، میرا رب بڑی طاقت والا ہے۔‘‘ صوفی رحمت اللہ نے اپنی بات ختم کی، تو قیدیوں پر ہُو کا عالم طاری تھا۔ آج بدھ کے روز پھر تبلیغی جماعت قیدیوں کو درس دینے آئی ہوئی تھی۔ صوفی صاحب نے گہرا سانس لیا ’’اس حکایت سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہر ذی رُوح کی موت کا ایک مقام مقرر ہے اور قدرت ٹھیک وقت پر اُسے وہاں پہنچانے کا ازخود انتظام کر دیتی ہے۔ یہ نادان انسان جتنا بھی دوڑنے، بھاگنے کی کوشش کر لے، موت اُسے اس کے مقررہ وقت اور مقام پرجا پکڑتی ہے اور تب تک موت خود زندگی کی حفاظت کرتی ہے۔ اگر اس ذی روح کا وقت مقررہ ابھی نہیں آیا تو اسے دنیا کی ساری طاقتیں مل کر بھی کوئی گزند نہیں پہنچا سکتیں۔‘‘ صوفی صاحب نے اپنی بات ختم کی تو میں نے قریب بیٹھے یوگی کی طرف دیکھا، جو میری ہی طرف دیکھ رہا تھا۔ کل ہی پاپا میری عُمر قید کی سزا، سزائے موت میں بدلے جانے کی خبر دینے آئے تھے۔ ایک باپ کے لیے اپنے بیٹے کو یہ خبر پہنچانا کس قدر اذیت ناک ہے، یہ صرف ایک باپ کا دل ہی جان سکتا ہے۔ غالب نے شاید میرے لیے ہی کہا تھا ؎ مجھے کیا بُرا تھا مرنا، اگر ایک بار ہوتا۔ ہم ایک بار بھلا مرتے کب ہیں۔ ایک بار تو صرف سانس رُکتی ہے، مرتے تو ہم ہر روز،ہرپل ہیں۔ ہر گھڑی، فنا ہمارا مقدر ہے۔ کبھی وقت کے ہاتھوں، کبھی حالات کے، تو کبھی رشتے، لوگ اور دنیا ہماری جان کے درپے ہو جاتی ہے۔ جیسے آج یہ قانون میری سانسوں کی گنتی ختم کرنے کا پروانہ جیلر کو پہنچا گیا تھا۔ بیرک میں یہ خبر پھیل چُکی تھی اور اب مجھے سزائے موت کےقیدیوں والےحصے میں منتقل کیےجانےکے انتظامات کیے جا رہے تھے۔ صوفی رحمت اللہ کو بھی نہ جانے یہ خبر کیسے مل گئی، شاید اِسی لیے جاتے جاتے، وہ دو گھڑی میرے پاس رُک گئے۔ ان کی پلکیں مجھے کچھ نم سی محسوس ہوئیں، ’’عبداللہ نام ہے ناں تمہارا۔ جانے کیوں کسی کا چہرہ دیکھ کر یقین ہی نہیں آتا کہ لوگ اُسے جس جرم سے منسلک کرتے ہیں، وہ اُسی سے سرزد ہوا ہے۔‘‘ میں دھیرے سے مُسکرایا۔ ’’شاید مجھے میری زندگی کا چھٹا اور آخری سِکّہ اِسی قید میں خاتمے کے لیے مِلا تھا۔‘‘ وہ اپنی آنکھیں پونچھتے آگے بڑھ گئے۔

یوگی اُس رات میرے پاس آیا، تو اس کا چہرہ اُترا ہوا تھا، ’’کاش ! میں تمہاری سزا اپنے سر لے سکتا، عدالتوں کا نظام بھی عجیب ہے، جہاں دلیل اور ثبوت کی بنیاد پر فیصلے سنائے جاتے ہیں۔ گویا انسان کا حق پر ہونا اتنا ضروری نہیں، جتنا ضروری اس کے وکیل کے پاس مضبوط دلیل اور ثبوت کا ہونا ہے۔ نہ ہو تو بندہ صِفر ہو جاتا ہے، یہ کیا بات ہوئی یار…؟‘‘ مَیں نے اُس کی مسکراہٹ بحال کرنے کے لیے ایک پرانا چُٹکلا سنایا۔ ’’شاید اسی لیے کہتے ہیں کہ تم جیسے نیم حکیموں سے کوئی غلطی ہو تو انسان زمین کے چھے فٹ نیچے چلا جاتا ہے اور وکیل کی غلطی اسی بندے کو زمین سے چھے فٹ اوپر ہوا میں معلّق کر دیتی ہے۔‘‘ لیکن یوگی مسکرانے کے بجائے میرے گلے لگ کر رو پڑا۔ اگلی صبح جیل کا عملہ مجھے کال کوٹھری منتقل کرنے آن پہنچا۔ بیرک کے سارے ساتھی مجھے رُخصت کرنے قطار میں کھڑے تھے، وہ سب ہی اپنی کوئی پسندیدہ، عزیز چیز جاتے وقت مجھے تحفے کے طور پر دینا چاہتے تھے۔ چھوٹا سا کنگھا، ایک ٹوٹا آئینہ، گُڑ والی روٹی، تھوڑے سے چنے، بلوریں کنچے، تاش کی گَڈّی، دل کے نشان والا لاکٹ… وہ نادان جانتے بھی تھے کہ جس وقت مجھے سزائے موت کے قیدیوں کے احاطے میں لےجایا جائے گا، میری تلاشی کے دوران یہ سب کچھ مجھ سے چھین لیا جائے گا، لیکن پھر بھی یہ ایک قیدی کا دوسرے سے اظہارِ محبّت تھا، اِک بے بس اور لاچار سا اظہار۔ ایک محتاج کا دوسرے مجبور کو ایک خِراج، جو میرے لیے دنیا بھر کے ہیرے جواہرات سے بڑھ کر تھا۔ میں سب سے مِل کر دروازے کے قریب پہنچا تو یوگی سر جھکائے افسردہ ساکھڑا تھا۔ ’’کیوں یوگی صاحب! تم مجھے کوئی تحفہ نہیں دو گے۔ شاید اب دوبارہ ہماری ملاقات نہ ہو۔‘‘ یوگی نے تڑپ کر میری طرف دیکھا ’’بہت ظالم دوست ہو، لیکن فکر مت کرو۔ جہاں تمہیں یہ لے جا رہے ہیں، وہاں تمہیں یوگی سے بھی بڑھ کر ایک یاروں کا یار ملے گا، جس کا نام ظہیر ہے۔ اُسے میرا سلام کہنا اور کہنا کہ یوگی کو اپنا وعدہ یاد ہے۔‘‘ مَیں ان سب سے رُخصت ہو کر چار سپاہیوں اور ایک حوالدار کے پہرے میں کالے چکّر تک پہنچا۔ سزائے موت کے قیدیوں کا احاطہ اسی چوراہے کے سامنے تھا، جسے یہاں عرف عام میں ’’کالا چکّر‘‘ کہا جاتا تھا۔ میری تیسری مرتبہ مکمل تلاشی ہوئی اور پھر ایک تکیے، کمبل کے ساتھ اندر جانے کی اجازت مل گئی۔

مَیں آہنی دروازے سے اندر داخل ہوا تو تقریباً چار بجے شام کا وقت تھا۔ یہ ایک چوکور بڑا سا صحن نمااحاطہ تھا، جس کے چاروں طرف چھوٹی چھوٹی کال کوٹھریاں اور ان کے آگے ٹین کی چھت والا ایک برآمدہ تھا، جو چاروں اطراف جڑا ہوا تھا۔ یہ قیدیوں کی ٹہلائی کا وقت تھا۔ وہاں کل نو قیدی دکھائی دیئے، جنہیں سر سے پیر تک بیڑیوں، زنجیروں میں جکڑ کر انتہائی کڑے پہرے میں شام کے اس وقت کوئی آدھے گھنٹے کے لیے باہر ٹہلانے لایا جاتا تھا۔ شاید قیدیوں کے آپس میں زیادہ بات کرنے کی بھی ممانعت تھی، تبھی پہرے پر موجود سپاہی انہیں بار بار جھڑک کر خاموش رہنے کو کہہ رہے تھے۔ ماحول میں صرف ان کی ہتھکڑیوں اور بیڑیوں کی جھنکار تھی۔ قیدیوں کو باہر نکالنے سے پہلے اُن کے پیروں میں آہنی بیڑیوں سے جڑی، وی شکل کی لمبی سی سلاخیں پہنا دی جاتی تھیں، جنہیں یہاں کی زبان میں ’’ڈنڈا ڈولی‘‘ کہا جاتا ہے۔ ان سلاخوں کی وجہ سے قیدی اپنے گھٹنے نہیں موڑ سکتا اور اسے سیدھی ٹانگ اٹھا کر چھوٹا سا قدم آگے رکھنے ہی کی سہولت حاصل ہوتی ہے۔ مجھے دور ہی سے ان قیدیوں کی کلائیوں اور ٹخنوں میں پڑے نیل اور زخموں کے گہرے نشان دکھائی دے گئے۔ ڈنڈا ڈولی کی وجہ سے قیدی تکلیف اور بہت اذیت میں چل رہے تھے، کیوں کہ لوہے کی وہ سلاخیں ذرا بھی غلط یا تیز قدم اُٹھنے پر ان کی رانوں کے اندرونی گوشت میں پیوست ہوجاتی تھیں۔ انسان نے اپنے جیسے انسان ہی کو تڑپانے اوراذیت دینے کےکتنےحربےایجاد کررکھے تھے۔ مَیں اندر داخل ہوا تو سبھی قیدیوں نے چونک کر میری طرف دیکھا اور احاطے کے برآمدے اور چھت کے اطراف گارڈز اپنی بندوقیں قیدیوں کی طرف سیدھی کیے چوکنّا کھڑے تھے۔ احاطےکے اطراف اٹھائیس کوٹھریاں تھیں، یعنی ہر برآمدے تلے سات چھوٹی کھولیاں،صحن کےدرمیان ایک گول چبوترہ تھا، جس کے وسط میں لکڑی کا ایک پرانا سا بجلی کا کھمبا نصب تھا۔ ادھر کافی اونچائی پر لیمپ شیڈ کےنیچے کمزور پیلی روشنی والا ایک بلب جھول رہا تھا، جسے سرِشام ہی جلادیا گیا تھا۔ لیکن پھر بھی وہ مدھم لگ رہا تھا۔ مجھے جو کال کوٹھری دی گئی، اس کا نمبر17تھا، چار بائی چھے کا ایک ناکافی سا ڈربا، زنگ آلود، سیلن زدہ، باس والی کھولی، جہاں میری باقی ماندہ زندگی گزرنے والی تھی۔ تھوڑی ہی دیر میں شام ڈھل گئی۔ یہ آزاد کھلے شہروں اور آسمان تلے جینے والے جوکبھی کبھی اُکتا کر شام کی اداسی کا رونا روتے ہیں۔ وہ اگر کبھی جیل کی ڈھلتی شام کی اداسی کو اپنی رُوح کے اندر اترتا محسوس کرلیں تو شاید عُمر بھرکبھی دوبارہ اُداس شام کی شکایت نہ کریں۔ قیدی کی شام بھی کسی قید میں جکڑے کڑے پہرے کی طرح اُترتی ہے۔ قطرہ قطرہ زہر کے پیالے جیسی شام، سُرمئی، سیاہی مائل، دل کے اندر اندھیرا کر دینے والی شام۔

ہماری کوٹھریوں کےگردبھی تاریک اندھیرا پھیلنے لگا، تو برآمدے میں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر لگے زرد بلب جل اُٹھے۔ ہر قیدی کےحصّے میں تھوڑی سی روشنی آئی، جسے سب نے مل بانٹ لیا۔ رات گہری ہوچکی تھی، مگر نیند میری آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ جانے کیوں آج مجھے سلطان بابا بہت یاد آرہے تھے۔ کبھی ایسی ہی ایک کوٹھری میں ہم دونوں الگ الگ جبروت کی قید میں بند تھے، لیکن جب وہ میرے ساتھ تھے، تب مجھے کسی بات کی پروا ہی کب تھی۔ مَیں تو جیسے سب ان کے سپرد کر کے خود اطمینان سےلمبی تان کر سو جایا کرتا تھا۔ شاید آدھی رات بیت چُکی تھی، جب اچانک میری کوٹھری کی دیوار پر کسی نے لوہے یا سلور کی کسی چیز سے دستک دی۔ ’’جاگ رہے ہو یا اپنے نصیبوں کی طرح سو گئےتم بھی۔‘‘ بولنے والے کی آوازدھیمی تھی۔ ’’جب نصیب سو جائیں تو نیند کسے آتی ہے بھلا؟‘‘ دوسری جانب کوئی ہنسا۔ ’’مَیں ظہیر ہوں۔ تمہارا نام کیا ہے۔ میری کھولی کا نمبر 15 ہے‘‘۔ گویا وہ مجھ سے ایک کوٹھری دُور تھا۔ تب ہی آواز بمشکل مجھ تک آ رہی تھی۔ ’’اِن لوگوں نے ہر قیدی کے درمیان ایک کھولی کا فاصلہ رکھا ہے تاکہ رابطہ مشکل ہو۔ ویسے بھی ہر آدھے گھنٹے بعد دو سنتری یہاں سامنے سے مخالف سمت گزرتے ہیں۔ بات کرنے پر پابندی ہے یہاں۔ جب میں زور سے دیوار پر یہ چمچ ماروں تو تم سوتے بن جانا۔‘‘ مَیں نے اسے یوگی کے بارے میں بتایا تو ظہیر کی آواز میں چھلکتا جوش صاف سنائی دیا۔ ’’یوگی یاروں کا یار ہے۔ مجھے اس کا پیغام مل چکا ہے، ایک سنتری کے ذریعے۔ بس اب ہم سب یہاں سے نکلنے کے انتظار میں پل پل کاٹ رہے ہیں۔‘‘ مَیں چونکا …’’ہم کون … مطلب تمہارے ساتھ دوسرے بھی کچھ قیدی شامل ہیں اس منصوبے میں…؟‘‘ ظہیر کے کچھ کہنے سے پہلے ہی قدموں کی چاپ اُبھری اور وہ خاموش ہوگیا۔

رات ڈھل گئی اور صبح کی روشنی ہوتے ہی نئے پہرے داروں اور دیگر عملے کارائونڈ شروع ہوگیا۔ ڈیڑھ حولدار چائے کی بڑی سی چینک اور چند پتلی سِلور کی گلاسیاں چھنکاتا آیا اور ہمیں جیل کے لنگر کی روٹیاں بانٹتا، گلاسوں میں چائے انڈیلتا گیا۔ اس کےسر پر بھی دو کرخت چہروں والے منکرنکیر نما سپاہی پورا وقت تنے کھڑے رہے۔ ڈیڑھ حوالدار کی نظر مجھ سے ملی تو وہ دھیرے سے مُسکرایا۔ جیسے کہہ رہا ہو ’’فکر مت کرنا…مَیں ہوں یہاں…‘‘ کال کوٹھری کے احاطے میں وقت، عام جیل کی دیگر چاردیواریوں سے بھی زیادہ سُست گزر رہا تھا۔ پچھلی والی بیرک میں تو پھر بھی صبح سے دوپہر اور دوپہر سے شام کبھی نہ کبھی ہو ہی جاتی تھی، مگر یہاں تو ایسا لگ رہا تھا، جیسے وقت کی سوئی ٹوٹ کر کہیں گرگئی ہے۔ تبھی مجھے ایک عجیب سا احساس ہوا، وقت کے پیمانے کا تعلق ہمارے اندرکی کیفیت سے ہوتا ہے۔ ایک ہی شہر میں ایک ہی زمان و مکان میں چلتے پھرتے لوگوں کے لیے وقت کی مقدار اور گزرنے کا دورانیہ مختلف ہوسکتا ہے۔ مثلاً اسی جیل کی بیرونی دیوار سے پرے گائوں یا کچھ دُور شہر میں چلتے پھرتے لوگوں کے لیےوقت بہت نارمل اور اپنے معمول کے مطابق ہوگا، بلکہ گھروں میں کام کرتی عورتیں اور کھیتوں، دفتروں میں کام کرتے مرد بار بارگھڑی کی طرف دیکھ کرہاتھ مل رہے ہوں گے کہ اُف دن کتنی تیزی سے گزر گیا یا آج تو جیسے وقت کو پَر لگ گئے ہیں۔ کچھ لوگ جمعےکی نماز پر ایک دوسرے سے کہتے ملتے ہیں ’’ارے، آپ ابھی پچھلے جمعے ہی کو تو ملے تھے۔ لگتا ہے بس کل کی بات ہے۔‘‘ کچھ مہینوں، سالوں کے پلک جھپکتے گزر جانے کا شکوہ کرتےہیں۔ ارے، رمضان پھرآگیا…لگتا ہے، جیسے پچھلے ماہ ہی تو عید ہوئی تھی۔ لیکن ہم قیدیوں کے لیےیہی وقت اس چار دیواری کے اندر جم سا گیا تھا۔ کئی صدیوں بعد شام کے4بجے تو مجھے بھی آہنی زیور پہنا کر باقی قیدیوں کے ساتھ باہر نکالا گیا۔ ایک جوان سے قیدی نے مجھے نظروں نظروں میں سلام کیا، وہی ظہیر تھا۔ وہ بمشکل تیس سال کا لگتا تھا۔ باقی قیدیوں میں سے چند کے نام مجھے سنتریوں کے انہیں پکارنے سے پتا چلتے رہے۔ ’’سنتوش! بات مت کرو‘‘۔ ’’ظہیر! تم سیدھی طرف ہو جائو…‘‘ ’’اوئے بگھے سنگھ! بار بار کیوں بیٹھ جاتے ہو؟‘‘ ’’کُندن مسیح! اِدھر اُدھر کیا دیکھ رہا ہے؟‘‘ ان میں صرف ایک لمبی اور سیدھی کٹی لمبی لَٹوں والا شخص ایساتھا، جو اپنے آپ میں گم اور چُپ چاپ سنتریوں کی ہدایات پر چلتا رہا۔ بعد میں مجھے اس کا نام بخت خان پتا چلا۔ شاید کسی قبائلی علاقے سے تعلق تھا اس کا۔ ٹہلنے کا وقت ختم ہوا تو ظہیر نے آنکھوں آنکھوں میں مجھے اشارہ کیا کہ وہ گزشتہ رات کی طرح دیر گئے مجھ سے بات کرے گا۔ مغرب کے وقت قیدیوں کو رات کا کھانا بانٹ دیا گیا۔ جانے کھانا بدمزہ تھا یا پھر قید کی اس اذیت نے ہماری ہی ذائقے کی حِس مار دی تھی۔ گویا ذائقہ بھی زبان سے نہیں، آس پاس کے ماحول سے محسوس ہوتا ہے۔

آدھی رات گزری تو ظہیر نے پھر اُسی انداز میں رابطہ کیا۔ پتا چلا کہ ظہیر نے یہاں دیگر چار قیدیوں کو اپنے منصوبے میں شامل کر رکھا ہے۔ سنتوش، بگھا، کندن اور بخت خان۔ مَیں ان چاروں کو آج ہی کال کوٹھریوں کے احاطے میں دیکھ چُکا تھا۔ ایک ہندو، دوسرا سِکھ، تیسرا عیسائی اور چوتھا مسلمان۔ موت بھلا مذہب اور ذات پات کہاں دیکھتی ہے۔ وہ سبھی کےلیے یکساں اُترتی ہے۔ اگلےایک ہفتے میں ظہیر نے مختلف وقفوں اور بات کرنے کے عجیب و غریب طریقوں سے مجھے جو کچھ بتایا، وہ ازخود ایک لمبی کہانی تھی۔ ظہیر کو ان سب قیدیوں کو فرار کے لیےتیار کرنے میں دو سال کا وقت لگا تھا۔ اس دوران ان کے ایک چھٹے ساتھی کرم داد کو پھانسی بھی دی جا چُکی تھی، مگر ظہیر اپنی دُھن کا پکّا تھا۔ اس نے سپاہیوں اور پہرے داروں کے چوبیس گھنٹے کے پہرے کا یہ توڑ نکالا تھا کہ ان پانچوں نے اپنی ایک نئی زبان ایجاد کرلی تھی۔ جیسے کوئی مورس کوڈ، زنجیر اور بیڑیوں کی چھن چھن، ٹہلائی کا وقت، ایک چھن، مطلب ’’سلام‘‘، چھن چھن، مطلب ’’کیسے ہو؟‘‘ چھن چھن چھن ’’سب ٹھیک ہے‘‘۔ پھر وہ پانچوں اس زبان میں اتنے ماہرہوگئے کہ ماچس پرانگلیوں کی تھاپ، سلاخوں پر پانی کے گلاس یا پھر دیوار پر لوہے کے چمچ کی کھٹ کھٹ ان کی بولی بنتی گئی۔ دو سال کے اس عرصے میں کال کھوٹریوں کے چار قیدیوں کی پھانسی کا وقت آپہنچا اور یکے بعد دیگرے آس پاس کی کھولیوں سے قیدی تختہ دار پر لٹکتے گئے۔ انہی میں ان سب کا چھٹا ساتھی کرم داد بھی شامل تھا، جس کی دوری نے ان پانچوں کو مزید قریب کردیا۔ ظہیر ان سب کا لیڈر تھا، جس نے فزکس میں ماسٹرز کی ڈگری لےرکھی تھی، اسی لیے کسی ماہر انجینئر کی طرح اُسےجیل اور سزائے موت کے احاطے کا ہر روٹین ازبرتھا۔ اس کا اندازہ گھڑی کی سوئیوں کی طرح کامل تھا۔ رات جیل کی چوبرجی پر سپاہی کتنے بجے تبدیل ہوتے تھے۔ جیل کی فصیل پر بنی پہرے داروں کی بُرجیوں کے درمیان کتنے قدموں کا فاصلہ تھا اور کتنی دیر میں دو سنتری ایک دوسرے کو کراس کر کے دوسری جانب چلے جاتے تھے۔ کھانا لانے کے لیے صبح و شام تین مرتبہ ٹھیک کس لمحے سزائے موت والا احاطہ کھولا جاتا تھا، کتنے سپاہی چھت اور فصیل پر کتنی دیر لنگر سے کھانا آنے کے دوران ہمارے سَروں پر تعینات رہتےتھے اور اگر انہیں کبھی گولی چلانی پڑے تو کتنی دیر میں وہ گولی چیمبر سے بدل کر دوسرے فائرکے لیےتیار ہو پائیں گے۔ غرض چھوٹی سی چھوٹی بات کی تمام تر تفصیلات اُسے کسی ریاضی کے پروفیسرکی طرح ازبر تھیں۔ لیکن ظہیر کا اصل منصوبہ کیا تھا، یہ ان میں سے کسی کو ابھی تک پتا نہیں تھا۔ یوگی اور ڈیڑھ حوالدار ظہیر کے پلان کا بہت اہم حصّہ تھے۔ ظہیر رات کے مخصوص حصےمیں مجھےتفصیلات بتاتا رہتا۔ کبھی زبانی اور کبھی اپنی مخصوص کھٹ کھٹ یا ٹن ٹن کی زبان میں۔ مشرقی طرف کے برآمدے میں صرف مَیں اور ظہیر بند تھے، باقی پانچ کوٹھریاں خالی تھیں۔ جب کہ مغربی، شمالی اور جنوبی برآمدوں میں دو، دو اور تین قیدی تھے۔ ظہیر کو یہاں پہلے اکیلے رکھا گیا تھا، انہیں ظہیر کے پس منظر سے واقفیت تھی، تبھی جیل حکّام نے اسے باقی قیدیوں سے دُور رکھا ہوا تھاپھرمجھے شاید بےضرر سمجھ کرظہیر کےساتھ ہی مشرقی برآمدے میں ایک کوٹھی چھوڑ کر قید کیا گیا۔ ظہیر کا دماغ دن رات کسی کمپیوٹر کی طرح چلتا رہتا تھا۔ شاید اسی لیے اس کی تنظیم بھی اس سے خوف زدہ تھی اور مختلف طریقوں سے اسے چُپ رہنے کے پیغامات بھجواتی رہتی تھی۔ مجھے یہاں آئے تین ہفتے بیت چُکے تھے، اس عرصے میں پاپا کے ڈاکٹر کا ایک پیغام آیا تھا کہ پاپا بہت بیمار ہیں اور دوسرا ایک خط میرے نام آیا، جس کے اوپر لکھی پتے کی تحریر دیکھ کر میرا دل اس زور سے دھڑکا کہ جیسے پسلیاں توڑ کر باہر آجائے گا۔ وہی مانوس مہکتی سی تحریر، میں نے بےتابی سے خط کھولا، اندر تہہ کیا ہوا کاغذ بالکل سادہ اور ورق کورا تھا۔ لیکن مجھے ہر سطر پر لکھے لفظ صاف نظر آ رہے تھے۔ کچھ تحریریں الفاظ کی محتاج نہیں ہوا کرتیں۔ زہرا کا بھیجا ہوا کورا ورق پوری لُغت سے بھرا پڑا تھا، محبّت کی لُغت، میں نے دن میں کئی بار اس کا وہ کورا خط پڑھا۔ بار بار اسے اپنی آنکھوں سے لگایا۔ رات ڈھلے ظہیر کی ٹھک ٹھک اور پھرسرگوشی اُبھری…’’جاگ رہے ہو مولانا؟ آج تمہیں اپنے فرار کا منصوبہ بتانا ہے مجھے، اور ہاں، ایک اور اہم بات، ڈیڑھ حوالدار آج کھانے کے برتن تلے جیل کے نقشے کی نقل چپکا کر پہنچا گیا ہے مجھے۔ تیار ہو جائو، ہم یہاں سے بہت جلد ’’پُھر‘‘ ہونے والے ہیں‘‘۔ (جاری ہے)

تازہ ترین