• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’بابا! پلیز بازار چلیں ناں، مجھے بھی حنا کی طرح اپنا گھرجھنڈیوں سے سجانا ہے۔ اُس کے دادا جان اسے بہت ساری جھنڈیاں ، لائٹس اور بڑا سا جھنڈا دلوا کر لائے ہیں، مجھے بھی اپنا گھر اور گاڑی سجانی ہے۔‘‘ عائزہ نے اپنے بابا کو جھنجھوڑتے ہوئے فرمائش کی۔ ’’افوہ عائزہ! تم بھی ناں ، ابھی تو آفس سے آیا ہوں اور اب تمہاری فرمائشیں شروع ہو گئیں۔ ‘‘ آٹھ سالہ ننّھی عائزہ آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو لیے کمرے سے باہر آگئی۔ بیٹی کی آنکھوں میں آنسو جاوید صاحب سے برداشت نہ ہوئے تو اُسے منانے لگے۔ ’’میری گڑیا رانی! آپ کو تو پتا ہے ناں، بابا کتنی محنت سے پیسا کماتے ہیں، مَیں نے آج تک کبھی آپ کی کوئی بات رَد کی ہے؟ نہیں ناں، پر یہ جھنڈیاں، جھنڈے، لائٹس وغیرہ سب فضولیات ہیں۔ حنا کے دادا تو ریٹائرڈ آدمی ہیں، اُن کے پاس وقت ہی وقت ہے، پر آپ کے بابا تو مصروف رہتے ہیں اور ویسے بھی ہم لوگ کچھ ہی دنوں میں کینیڈا شفٹ ہونے والے ہیں، جہاں آپ کو بہتر تعلیم اور بہت اچھے دوست ملیں گے، وہاں نہ جگہ جگہ کچرا پھیلا نظر آئے گا، نہ گندگی کے ڈھیر،اس مُلک میں کچھ نہیں رکھا، اچھا چلو ماما بُلا رہی ہیں، اب آپ سونے کی تیاری کرو۔ ‘‘ بیٹی کو منا کر جاوید صاحب گھر کے سامنے سے گزرنے والی بجلی کی تاروں میں کُنڈا ڈالنے چلے گئے تاکہ اے سی آن کرکے چین سےسو سکیں۔‘‘، ’’پاپا! آپ کو پتا ہے، پچھلی گلی میں ڈیڑھ لاکھ کی گائے آئی ہے ، لوگ دُور دُور سے دیکھنے آرہے ہیں اور تو اور، انہوں نے اس کے لیے کیا شان دار شامیانہ لگوایا ہے، روم کولرز بھی رکھے ہیں تاکہ گائےکو گرمی نہ لگے۔‘‘ فیضان نے ایک ہی سانس میں اپنے پاپا کو محلّے میں آئے جانور کے بارے میں کہہ سنایا۔’’پاپا! پلیز ہم بھی اس بار منہگا بکرا خریدیں گے، پچھلے سال کتنا کمزور سا بکرا خریدا تھا آپ نے، میرے سارے دوست مذاق اُڑا رہے تھے۔‘‘ ’’ بیٹا ! قربانی کا مقصد نمود و نمائش نہیں ، اللہ کی رضا ہے۔جتنی ہماری استطاعت ہے، اسی حساب سے جانور خریدیں گے اور اس بار تو منہگائی کے سبب شاید ہم قربانی کرہی نہ سکیں، باقی اللہ مالک ہے۔‘‘ ، ’’ مَیں مشکلات سے ڈرنے یا گھبرانے والا ہر گز نہیں ہوں، اسی مُلک میں رہ کر یہاں محنت کروں گا ۔ اپنے وطن کا نام پوری دنیا میں روشن کروں گا اور مجھے تو پوری اُمید ہے کہ آج نہیں تو کل ،یہ مُلک ضرور ترقّی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوگا۔ ‘‘ فرحان نے ڈیپارٹمنٹ کوریڈور میں بیٹھے اپنے دوستوں کو دو ٹوک جواب دیتے ہوئے کہا۔ وہ میڈیکل تھرڈ ایئر میں تھا اور اپنی کلاس کا ’’ٹاپر‘‘ تھا۔ آج بھی معمول کی طرح جب وہ لوگ کلاس سے فارغ ہو کر گپ شپ کرنے بیٹھے ، توخراب مُلکی معیشت، حالات اور منہگائی زیرِ بحث آگئی، تووہ ہمیشہ کی طرح اپنے تاب ناک مستقبل کے لیے پر اُمید نظر آیا۔

مندر جہ بالا جملے ہمارے معاشرے کے تین مختلف پہلوؤں کے عکّاس ہیں۔ جس طرح ایک ہی گھر میں رہنے والے بہن بھائیوں کی سوچ، افکاراور خیالات ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں، اسی طرح ہمارے وطنِ عزیز میں بسنے والے لوگوں کے رویّے، خیالات، مزاج اور جذبات بھی ایک دوسرے سے یک سر جُدا ہیں۔ یعنی ایک وہ طبقہ ہے، جو مُلک کے حالات سے اس قدر نااُمید ہے کہ ہر لحظہ بس یہاں سے کُوچ کرنے کی سوچ میں گُم رہتا ہے، جو اپنی بے جا خواہشات کی تشفّی کے لیے تو بے دریغ خرچ کر سکتا ہے، مگر مُلک کے نام پر جیب سے ایک سکّہ بھی نہیں نکلتا، مغربی ممالک کی خوبیاں اور اپنے مُلک کی کوتا ہیاں توصاف نظر آتی ہیں، مگر یہ فراموش کر بیٹھا ہےکہ ان خرابیوں کا ذمّے دار اور کوئی نہیں،ہم خود ہیں۔ دوسرے طبقے میں وہ لوگ شامل ہیں، جن کی زندگی نمود و نمائش ہی کے گِرد گھومتی ہے، جن کی وجہ سےغربا یا مڈل کلاس فیملیز میں احساسِ کمتری پروان چڑھتا ہے۔کسی سیانے کا قول ہے کہ’’ اگر مُلک کا امیر طبقہ نمود نمائش بند کردے ، تو غریبوں کے کئی مسائل تو خود بخودحل ہو جائیں۔‘‘ واقعی اب تو وہ زمانہ آگیا ہے کہ عیدالاضحی جیسا مقدّس تہوار، جس کا مقصد صرف اور صرف اللہ کی رضا اور خوشنودی کا حصول ہے، وہ بھی کُلی طور پر ’’کمرشلائزڈ‘‘ ہو چُکا ہے۔ اور بہ حیثیت مسلمان ہمارے لیےاس سے زیادہ شرم ناک بات اور کیا ہوگی کہ ہمارے گھروں میں قربانی کے لاکھوں روپے مالیت کےجانوروں کو تو بادام، پستے کھلائے جاتے ہیں، مگر ملازموں کے آگےبچا کھچا کھانا رکھ دیا جاتا ہے۔ تیسرے طبقے میں اُن تعلیم یافتہ افراد کا ذکر ہے، جو نامساعد حالات کے با وجود مُلک کے مستقبل سے نا اُمید نہیں ، وہ امریکا ، برطانیہ میں بسنے کے نہیں ، وطنِ عزیز کو اُن کے مقابل کھڑا کرنے کے خواب سجائے محنت کر رہے ہیں۔اور یقین جانیے، اگر اس پاک سر زمین کا ہر باسی اسی جذبے سے لبریز ہوجائے، تو وہ دن دُور نہیں ،جب ہم بھی ایک ترقّی یافتہ قوم کہلائیں گے۔

اس بار عید الاضحیٰ اورعیدِ آزادی آگے پیچھے آرہی ہیں، کہنے کو تو ایک مذہبی تو دوسرا قومی تہوار ہے، لیکن ذرا غور کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ دونوں تہواروں کی بنیاد ، مقصد اور روح ایک ہی ہے، یعنی ’’محبّت اور قربانی ‘‘۔ بقر عید مناناسنّتِ ابراہیمی ؑکی پیروی ہے کہ جب اللہ تبارک و تعالیٰ کے برگزیدہ بندے نے اپنے خالق و مالک، ربّ ِ کریم کے حضور اپنے جگر گوشے، نورِ نظر بیٹے کو قربان کرنے کا ارادہ کرکے تمام مسلمانوں کو یہ پیغا م دیا کہ دنیا کی کوئی بھی شئے اللہ کی محبّت ، اُس کے حکم سے افضل نہیں۔ایک مسلمان اللہ کی راہ میں اپنا سب کچھ قربان کر سکتاہے، تو اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے بھی حضرت اسماعیلؑ کی جگہ دُنبہ اُتار کر اپنے بندے کی محبّت و عقیدت کا بھر پورجواب دیا۔ تودوسری طرف اگر قیامِ پاکستان کی بات کی جائے، تو یہ ارضِ پاک، جسے آج ہم پاکستان کے نام سے جانتے ہیں، لاکھوں لوگوں کی قربانیوں کا صلہ ہے۔وہ جو کہتے ہیں ناں کہ تقسیمِ ہند نہیں ہونی چاہیے تھی، پاکستان میں یہ بُرا ہے، وہ بُرا ہے، تو یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ یہ مُلک ، یہ پیارا وطن کسی نے ہمیں تھالی میں سجا کر پیش نہیں کیا تھا، ہمارے آباؤ اجداد نے اپنے پُرکھوں کی زمینیں، جائیدادیں اور ان گنت معصوم جانوں کی قربانیوں کے بعد یہ ارضِ پاک حاصل کی ، جس کے وسائل ہم بے دردی سے ضائع کر رہے ہیں۔ وہ چاہتے تو باقی زندگی بھی ہندوستان میں گزار دیتے، مگر وہ اپنی آنے والی نسلوں کو غلامی کی زندگی نہیں ،آزاد فضا میں سانس لیتا دیکھنا چاہتے تھے۔ہم میں سے بہت سے لوگوں کے لیے تو 14اگست کا دن شاید ’’چھٹّی کے دن‘‘ سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا، لیکن آزادی کی اصل قدر و قیمت جاننی ہے ، تو فلسطینیوں یا کشمیریوں سے پوچھیں،جن کے بزرگ جوان لاشے اُٹھاتے اُٹھاتےتھک چُکے ہیں، جن کے بچّوں کے لبوں پر آنے والا پہلا لفظ شاید ’’ماما، بابا‘‘ نہیں ’’آزادی‘‘ ہوتا ہے۔ممکن ہے، آپ سوچیں کہ ہمارے ہاں توجشنِ آزادی خُوب اہتمام سے منایا جاتا ہے۔بلاشبہ اس بات میں کوئی شک نہیں، لیکن ’’کیا قیامِ پاکستان کے ابتدائی ادوار والا جوش و جذبہ اب بھی باقی ہے اور کیا نسلِ نو آزادی کی اصل قدر و قیمت سے آگاہ ہے؟‘‘یہی جاننے کے لیے ہم نے جامعۂ کراچی کے پاکستان اسٹڈی سینٹر میں پی ایچ ڈی کے طلبہ کے نگران اور سینئر استاد ،ڈاکٹر محمّد رضا کاظمی سے بات چیت کی ، ماضی کے بند دریچے کھولتے ہوئے انہوں نے بات کا آغاز کچھ اس انداز میں کیا کہ ’’ جس وقت یہ مُلک معرضِ وجود میں آیا ، تو یہاں وسائل کی کمی تھی، کہا جاتا تھا کہ پاکستان چھے مہینے میں ختم ہوجائے گا،مگر اللہ کے فضل و کرم سے ہم ایک مضبوط قوم بن کر اُبھرے۔ اُس وقت لوگوں کا جذبہ دیکھنے لائق تھا، اپنا سب کچھ گنوا کر بھی مہاجرین نے اس سر زمین پر قدم رکھتے ہی شکرانے کے نوافل ادا کیے۔ آج مجھے یہ دیکھ کر انتہائی افسوس ہوتا ہے کہ ہمارے ہی چند دانش وَر ، ہماری ہی آزادی پر سوال اُٹھاتے ہیں، ارے بھئی! یہ مُلک دو قومی نظریے کے تحت معرضِ وجود میں آیا، ہندوستان میں ہمارے ساتھ امتیازی سلوک برتا جاتا تھا۔ہم نے یہ مُلک لازوال قربانیوں کے بعد حاصل کیا ہے، کوئی کیسے اس کی سالمیت، آزادی پر سوال اُٹھا سکتا ہے؟ اگر پاکستان نہ بنتا تو آج ہمارا بھی وہی حال ہوتا، جو کشمیری بھائیوں کا ہے۔ جہاں تک بات ہے، نسلِ نو کی آزادی کی قدر و قیمت جاننے کی، تو یہ نوجوان ہمارا سرمایا ہیں۔ یہ ہم بڑے ، بزرگ ہی ہیں جو کوٹا سسٹم وغیرہ کا رونا روتے رہتےہیں، بچّے تو اس مُلک سے بے لوث محبّت کرتے ہیں۔ یہ وطن ایک نعمت ہےاور ہمیں کفرانِ نعمت نہیں کرنا چاہیے، شُکر گزار ہونا چاہیے۔‘‘

ہم نےکہیں پڑھا تھا کہ ’’محبّت قربانی مانگتی ہے، عشق صلے سے بے پرواہوتا ہے، اور پیار دینے کا نام ہے۔‘‘ اگر اس پہلو سے پرکھا جائے تو سب سے پہلے جو سوال پیدا ہوتا ہے ،وہ یہ کہ ہم اس مُلک سے محبّت کے دعوے دار، مُلک کو دے کیا رہے ہیں؟ اور مُلک چھوڑیں بہ حیثیت مسلمان ،ہم اپنے خالق کے کتنے احکامات کی پیروی کر رہے ہیں؟ یا درکھیں! قومیں اپنے اجتماعی رویے سے پہچانی جاتی ہیں۔ بقر عید کے دنوں میں دوست احباب کو مرعوب کرنے کے لیے منہگے جانورتو خرید لاتے ہیں، لیکن سڑک کے بیچوں بیچ شامیانہ لگا کر راستے بند کرنے سے جو راہ گیروں کو مشکلات پیش آتی ہیں، ان کا کیا؟ خُوب عقید ت و احترام سے قربانی تو کرتے ہیں، لیکن بعد میں گائیں، بکروں کی سریاں کئی کئی دنوں تک گھر کے باہر پڑی رہتی ہیں۔ صفائی نصف ایمان ہے، مگر ہمارے رویّوں سے دین نہیں جھلکتا، اگر کچھ نظر آتی ہے، تو صرف ریاکاری۔ مشاہدے میں ہے کہ آج کل لوگوں میں ایک دوسرے سے بہتر، منہگا جانور خریدنے کی ایک دوڑ سی لگی ہوئی ہے،تو’’سنّتِ ابراہیمیؑ کا حقیقی مقصد و اہمیت کیا ہے؟‘‘، اس حوالے سے ہم نےمعروف مذہبی اسکالر مولانا ولی رازی کے خیالات جاننے کی کوشش کی۔اُن کا کہنا ہے کہ ’’عید الاضحیٰ ، حق تعالیٰ کے حضور اس بات کا اعلان ہے کہ آپ کے لیے جان بھی حاضر ہے۔ قربانی کے حوالے سے چند باتیں ضرور ذہن میں رکھنی چاہئیں کہ نمودو نمائش ، مقابلے بازی قطعاً حرام ہے۔قربانی کا جانور کبھی قرضہ لے کر نہیں خریدنا چاہیے، خوش دلی سے تمام بنیادی اخراجات پورے ہونے کے بعد جو پیسے بچیں ،اُن سے جانور خریدنا چاہیے۔علاوہ ازیں، اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ نہ آپ کا جانور کسی اور کے جانور کا چارہ کھائے اور نہ ہی کسی اور کا جانور آپ کے جانور کا ۔ اللہ تعالیٰ نے ذی الحج کے ابتدائی دس ایّام بہت مبارک بتائے ہیں۔ اِن دنوں میں روزہ رکھنا پورے سال کی نفلی عبادتوں سے بہتر ہے ۔‘‘

ذراسوچیں، اللہ تعالیٰ نے قربانی کے حوالے سے کتنی باریکیاں رکھی ہیں کہ آپ کا جانور کسی اور کے پیسوں کا چارہ تک نہ کھائے اور ہمارا تو مزاج ہی یہ بن چُکا ہے کہ کسی کا حق مارنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ آج سے 72 سال قبل ، جب یہ مادرِ گیتی وجود میں آئی ، تب بھی ہمیں دو خوشیاں ایک ساتھ نصیب ہوئی تھیں اور اس بار بھی عید اور یومِ آزادی آگے ،پیچھے ہیں۔ اتنے برس میں ہمارے یہاں لوگوں کا رہن سہن، اطواریہاں تک کہ روایات تک بدل گئیں ، تو قیامِ پاکستان کے ابتدائی دنوں میں تہوار منانے کے طریقوں کے حوالے سے جاننے کے لیے ہم نے معروف محقّق، مصنّف اور قائد اعظم اکیڈمی کے ڈائریکٹر، خواجہ رضی حیدر سے بات چیت کی، انہوں نے خیالات کا اظہار کچھ اس طرح کیا کہ ’’کیا ہی حسین اتفاق ہے کہ پاکستان 27رمضان المبارک کو معرضِ وجود میں آیا۔ کیمپوں میں رہنے کے با وجود بھی سب نے خُوب اہتمام سے عید منائی تھی۔ قائد اعظم نے ایم اے جناح روڈ پر نمازِ عیدادا کی اور بہت بڑا ہجوم وہاں نماز کی ادائیگی کے لیے آیا تھا۔مَیں عُمر کے لحاظ سے پاکستان سے ڈھائی سال بڑا ہوں۔ میری نگاہوں میں ستّر ، بہتّر سال پہلے کے جشنِ آزادی اور عیدین بھی ہیں اور آج کے تہوار بھی اور یقین جانیے، صرف نسلیں بدلی ہیں، حبّ الوطنی اور وطن سے محبّت میں ذرّہ بھر کمی نہیں آئی۔ آج بھی ہمارے گھروں میں تہوار روایتی انداز میں منائے جاتے ہیں اور یہی اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم زندہ قوم ہیں کوئی ہماری سالمیت، خود مختاری اور شناخت پر سوال اُٹھائے تو یہ قوم ایسے اتحاد کا مظاہرہ کرتی ہے ، جس کی مثال نہیں ملتی۔‘‘

ویسے اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ مشکل وقت پڑے تو ہم متحد ہونے میں دیر نہیں لگاتے، لیکن ذرا غور کریں کہ صرف پریشانی یا مشکل حالات ہی کیوں، اگر روز مرّہ معاملاتِ زندگی میں بھی اپنی صفیں سُدھارلی جائیں تو کیا حرج ہے۔ مگر افسوس، ہماری روز مرّہ زندگی کا جائزہ لیں،تو سڑکوں پربے ہنگم ٹریفک، بس اسٹاپس پر دھکّم پیل اوران جیسے دیگر رویّے ہی ہماری عادات بن چُکےہیں۔سرکاری اداروں پر تنقید کرتے ہوئے کبھی سوچا ہے کہ گلی، محلّوں میں کچرے کے ڈھیر کسی اور نے نہیں ، ہم نے خود لگائے ہیں۔ ٹریفک جا م میں پھنسنے پر کبھی خیال آیا کہ ٹریفک کے زیادہ تر مسائل قوانین کی خلاف ورزی کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں؟ ’’ہر جگہ رشوت کا بازار گرم ہے‘‘، تو ہر کوئی کہتا ہے، مگررشوت کھلانے میں ایک لمحہ بھی نہیں لگاتے، کیوں کہ ہمارے نزدیک چالان بھرنے سے بہتر رشوت دینا ہے۔ بجلی کے بحران ، لوڈ شیڈنگ پر تو فوراًچراغ پا ہوجاتے ہیں، پر کُنڈے ڈالنا نہیں چھوڑتے۔ یاد رکھیے! ان رویّوں کے ساتھ کبھی اقوام ترقّی نہیں کرتیں۔ آگے بڑھنے کے لیے ہمیں مِل جُل کر صرف اور صرف مُلک کے لیے کام کرنا ہوگا، تب ہی کہیں جا کر ہماری آنے والی نسلوں کو ایک پُر سکون ، خوش حال اور پُر آسائش پاکستان نصیب ہوگا، وگرنہ …

تازہ ترین