• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کچھ روز پہلے اپنے چھوٹے بھائی کی شادی کے سلسلے میں پندرہ دن اپنے شہر بورے والا میں گزارنے کا موقع ملا۔ قریب دس سال پہلے جب میں نے عملی زندگی میں قدم رکھا،یہ پہلا موقع تھا کہ اپنے شہرمیں اتنے لمبے عرصے تک وقت گزارنے کا موقع ملا۔اپنے شہر کے لوگوں کی اذیت دیکھ کر میں نے شکر ادا کیا کہ میں اسلام آباد میں رہتا ہوں۔ جنوری کے اس سرد موسم میں اٹھارہ سے بیس گھنٹے کی لوڈشیڈنگ!! ہر کسی کے منہ میں موجودہ سیاستدانوں کی ”جمہوریت “ کیلئے ٹنوں کے حساب سے مغلظات اور بد دعائیں تھیں۔ پچھلی گرمیوں میں مجھے کسی ٹاک شو میں مدعو کیا گیا تو بورے والا میں اپنے ایک دوست کو اس کے بارے میں میسج کر دیا، اس کا جواب آیا کہ ”ٹاک شو کے ساتھ بجلی بھی بھیج دیتے تو میں تم.ارے ٹاک شو سے واقعی بہت محظوظ ہوتا“۔ میں جب بھی گھر بات کرتا ہوں مجھے بتایا جاتا ہے کہ بجلی نہیں آتی۔ گرمیوں میں اخباروں میں پڑھا کرتا تھا کہ بجلی اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے بند رہتی ہے لیکن بجلی واقعی اٹھارہ گھنٹے بند رہتی ہے ،مجھے قطعاً اندازہ نہیں تھا۔ جب پندرہ دن اٹھارہ گھنٹے سے زیادہ کی لوڈ شیڈنگ کا بذاتِ خود تجربہ کیا تو اندازہ ہوا کہ بجلی واقعتا ہی اٹھارہ گھنٹے سے زیادہ بند رہتی ہے۔ یاد کراتا چلوں کہ یہ اکیسویں صدی ہے۔ جب ہم بیسویں صدی میں رہتے تھے تو ہمارے فرشتوں نے بھی نہیں سوچا ہو گا کہ اکیسویں صدی اتنی بھیانک ہو گی۔جئے جئے جئے بھٹو!!
بورے والا میں بہت سے ہم عصر اور ہم عمر دوستوں سے ملا قات ہوئی جو مختلف بینکوں میں بطور منیجرکام کر رہے ہیں اور بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔ بینکوں میں اس وقت ایسے لڑکے بھی منیجر بن چکے ہیں جن کا بینکنگ کے شعبے کا تجربہ صرف چار پانچ سال کا ہے ۔ مجھے اس بات پر بڑی خوشگوارحیرانی ہوئی۔ بینک منیجر ایک درمیانے درجے کی اچھی ایگزیکٹو جاب ہے جس میں آپ اپنے ورک یونٹ کے انچارج ہوتے ہیں اور دس پندرہ لوگوں کا اسٹاف آپ کے ماتحت کام کرتا ہے اور اتنی کم عمری میں نوجوان لڑکے اس عہدے پر کامیابی سے کام کر رہے ہیں ۔ میں سمجھا شاید بینکوں میں افرادی قوت کی ڈیمانڈ اور سپلائی کا مسئلہ ہو گا جو دھڑا دھڑ نوجوان لڑکوں کو منیجر کے عہدے مل گئے ہوں گے لیکن جب اپنے ایک ہم جماعت دوست حبیب الرحمن سے بات ہوئی جو ایک بنک کا منیجر ہے تو اس کا کہنا تھا کہ بینکنگ سیکٹر میں ایک پالیسی کے طور پر نوجوان لڑکوں کو منیجر کے عہدوں پر لایا گیا ہے کیونکہ پرانے ”بابے“ service- oriented نہیں ہوتے۔ تقریباً تمام ”بابوں“ کو گولڈن ہینڈ شیک جیسی اسکیموں کے تحت فارغ کر دیا گیا ہے، جو کوئی اکا دکا بچے ہیں بینک انہیں سفید ہاتھی سمجھ کر چلا رہے ہیں۔ اپنے دوست کی اس بات نے تو جیسے حامد میر کے اس مظلوم سیاستدان کے سارے سوالوں کا جواب دے دیا جو اگلا الیکشن نہ لڑنے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ انہی دنوں حامد میر نے ایک کالم ”چور لٹیرے سیاستدان“ کے عنوان سے لکھا۔حامد میر نے جب ایک رکن قومی اسمبلی سے پوچھا کہ آپ نے اگلے الیکشن کی تیاری شروع کر دی ہے تو وہ غضب ناک ہو گئے اور کہنے لگے کہ وہ شاید اگلا الیکشن نہ لڑیں۔ ان کا کہنا تھا کہ”کیا مجھے کسی پاگل کتے نے کاٹا ہے کہ میں میڈیا کی گالیاں کھاؤں، ووٹروں کے نخرے اٹھاؤں، اپنی جمع پونجی بچوں پر خرچ کرنے کی بجائے الیکشن پر لگاؤں؟پھر قومی اسمبلی کا رکن بن جاؤں اور مزید پانچ سال کی رسوائی کا عذاب اٹھاؤں؟“انہوں نے مزیدگِلہ کیا کہ ”سیاستدان اس ملک کا سب سے مظلوم طبقہ ہے، جو خود ٹیکس چوری کرتے ہیں سیاستدانوں کو ٹیکس چور قرار دے ڈالتے ہیں جو خود آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 پر پورے نہیں اترتے وہ ہم سیاستدانوں کے کردار میں سے امانت اور دیانت تلاش کرنے لگتے ہیں“۔ اسکے بعد وہ مظلوم سیاستدان مزید فرماتے ہیں کہ ”کیا چند کالی بھیڑوں کی وجہ سے سب سیاستدانوں کو چور، لٹیرے ، یزید اور فرعون کہنا جائز ہے؟“اور تو اور ان صاحب نے تو کینیڈا شفٹ ہو جانے کی دھمکی بھی لگا دی۔
میں بھی اس مظلوم سیاستدان اور ان کے پورے مظلوم طبقے سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ پاگل کتے نے توعوام کو کاٹا ہے کہ وہ آپ کو ووٹ دے کر قانون سازی کیلئے اسمبلیوں میں بھیجتے ہیں جہاں آپ نے پچھلے پانچ سالوں میں بھرپور مہارت سے اتنی خوبصورت قانون سازی کی ہے کہ ان کی قسمت کو چار چاند لگ گئے ہیں۔ عوام نے آپ کو اسمبلیوں میں حکومت کی جواب دہی کرنے کیلئے بھیجا تھا اور آپ نے حکومت کی اتنی خوبصورت جواب دہی کی ہے کہ پاکستان پہلے سے بہت زیادہ ترقی کر گیا ہے، ہم اقوامِ متحدہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں کی طرف سے پاکستان کی رینکنگ کے بارے میں رپورٹس پڑھتے رہتے ہیں۔ پاگل کتے نے تومیڈیا کو کاٹا ہوا ہے جو باؤلا ہو کر خواہ مخواہ آپ کے طبقے کو ہدفِ تنقید بناتا رہتا ہے حالانکہ آپ نہ تو ترقیاتی فنڈز کا غلط استعمال کرتے ہیں، نہ ہی سیاسی مخالفین پر پالتو تھانیداروں کے ذریعے ان کی چھترول کراتے ہیں،نہ ہی آپ اپنے حلقے کے افسروں کو اپنے ڈیرے چلانے، اپنی الیکشن مہم چلانے اور دیگر سیاسی اخراجات پورے کرنے کیلئے ”پھٹیکیں “ ڈالتے ہیں، نہ ہی آپ اپنے سیاسی حمایتیوں کے تمام غلط صحیح کام سرکاری افسروں سے دھونس اور زبردستی سے کراتے ہیں اور نہ ہی آپ سفارش پر نااہل لوگوں کو بھرتی کراتے ہیں۔ پاگل کتے نے تو آپ کے ووٹروں کو کاٹا ہوا ہے جو الیکشن کے دنوں میں آپ یا آپ کے حواریوں کے ایک آدھ دفعہ ان کے گھر چلے جانے پر اتنے باؤلے ہو جاتے ہیں کہ پانچ سال تک آپ کو اپنی ”خدمت“ کرنے کا موقع دے دیتے ہیں اور آپ بھی پھر پانچ سال تک ان کی خوب ”خدمت“ کرتے ہیں۔ آپ تو واقعی بہت اچھے ہیں کہ آپ اپنے بچوں کی جمع پونجی سیاست پر لگا دیتے ہیں اور الیکشن جیتنے کے بعد اپنی انوسٹمنٹ دس بیس گنا کر کے بھی وصول نہیں کرتے، پاگل کتے کے کاٹے عوام کے ٹیکس کے اربوں کھربوں روپے خدا جانے کس کنویں میں چلے جاتے ہیں کہ ان کی حالت بتدریج غیر انسانی حد تک خراب ہو چکی ہے۔آپ تو ٹیکس بھی دیتے ہیں اور ہمارا ملک آپ کے ٹیکس کے پیسوں ہی سے تو چل رہا ہے۔ ویسے عمر چیمہ نے آپ تمام منتخب سیاستدانوں کے مجموعی ٹیکس کا کوئی حساب کتاب تو کیا ہو گا، یقیناآپ کے طبقے کا پاکستان کی ٹیکس کی آمدن میں بہت بڑا حصہ ہو گا۔ بس اب عمر چیمہ کو چاہئے کہ وہ آپ کے طبقے کے لوگوں کے اثاثوں اور سالانہ آمدن کے بارے میں بھی کوئی رپورٹ چھاپ دے ، مجھے یقین ہے کہ آپ سب یقینا سرخرو ہو جائیں گے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ آپ اور آپ کے طبقے کے اکثر لوگ آئین کی شق 62/اور 63پر بھی پورا اترتے ہیں اور آپ لوگوں جیسے صادق اور امین ڈھونڈنے سے نہیں ملیں گے اور چند کالی بھیڑیں تو ہر شعبے میں ہوتی ہیں، آپ خود تو یقینا ان ”چند“کالی بھیڑوں میں شامل نہیں ہوں گے بلکہ اگر آپ کے طبقے کے ایک ایک فرد سے یہ سوال کیا جائے تو یقینا کوئی بھی ان ”چند“ کالی بھیڑوں میں شامل نہیں ہوگا۔ مجھے آپ کی اس رائے سے بھی مکمل اتفاق ہے کہ سیاستدانوں میں بھی ”چند“ کالی بھیڑیں ہیں ، جی ہاں! صرف ”چند“ایک۔
میری ان مذکورہ مظلوم سیاستدان صاحب اور ان کے طبقے کے تمام افراد سے گزارش ہے کہ خدا کے واسطے وہ سیاست چھوڑ دیں۔ حامد میر کا کالم پڑھ کر مجھے ان سے اتنی زیادہ ہمدردی ہو گئی ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ وہ اپنی ذاتوں پر مزید ظلم نہ کریں لیکن میری یہ پیشگوئی ہے کہ مذکورہ سیاستدان اور ان کے طبقے کے دیگر افراد اگلا الیکشن ضرور لڑیں گے کیونکہ پاکستانی سیاست جیسی عیاشی کسی اور شعبے میں کہاں۔بحیثیت مجموعی ان کا سیاست کے بارے میں جو تصور ہے یاان کی جو سیاسی تربیت ہے ، انہیں کسی اور شعبے میں چین آ ہی نہیں سکتا۔ یہ بھلے کینیڈا جانے کا شوق پورا کر لیں لیکن چوتھے دن چھٹی کا دودھ یاد نہ آ گیا تو بات کیجئے گا۔ وہاں تو کام کرنا پڑتا ہے ، یہ مفت کھانے کے عادی ہیں۔ وہاں حساب دینا پڑتا ہے ،انہیں حساب کا لفظ ہی معلوم نہیں۔ وہاں قانون شکنی کرنے پر سزا ملتی ہے، انہیں قانون کا احترام کرنے کی عادت ہی نہیں۔ وہاں کسی کو وی آئی پی پروٹوکول نہیں ملتا، یہاں پروٹوکول مانگنے کے علاوہ اور کوئی کام ہی نہیں۔ وہاں پورا ٹیکس دینا پڑتا ہے ، انہوں نے کبھی پورا ٹیکس دینے کا سوچا بھی نہیں۔مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ ہمارے اوپر اس وقت جو سیاسی لاٹ مسلط ہے، وہ سیاست جیسے انتہائی اہم اور مقدس شعبے کے اہل ہی نہیں۔ نہ تو اس موجودہ کھیپ میں اہلیت پیدا کی جا سکتی ہے اور نہ ہی یہ لوگ اپنا مہلک طرزِ سیاست بدل سکتے ہیں۔ ان کا ایک ہی حل ہے کہ ان کیلئے کوئی گولڈن ہینڈ شیک اسکیم متعارف کی جائے اور ہاتھ باندھ کر ان کو ریٹائر کر دیا جائے تاکہ اس میدان میں پڑھی لکھی اور نوجوان قیادت اوپر آ سکے جس کو ان کے ”تجربے“ کی ہوا بھی نہ لگی ہو۔
تازہ ترین