• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جنوری کے درمیانی عشرے میں پاکستان میں دو ایسے اہم واقعات رونما ہوئے جن کی نظیر گزشتہ 65سال میں نہیں ملتی۔ اولاً کوئٹہ کا 86/افراد کا ہولناک قتل اور ان کے اعزا کا چار روز تک بطور احتجاج شدید سردی اور برف باری میں ان کے تابوتوں پر سر رکھ کر ماتم اور نوحہ گری کرنا دوسرے لاہور سے اسلام آباد تک کا لانگ مارچ۔ یہ اصطلاح ماؤزے تنگ کے اس طویل لانگ مارچ سے استعاراً لی جاتی ہے جو انہوں نے چین کی سرکاری فوجوں کے گھیرے سے بچنے کے لئے اختیار کیا تھا اور وہ کئی سو میل پر مشتمل تھا جہاں ماؤ کو اپنے چند ہزار سپاہیوں کے ساتھ پیدل جنگلوں، پہاڑوں اور دریاؤں کو عبورکرنا پڑا تھا۔ اکثر پتوں اور جنگلی جانوروں پر گزارہ کرنا پڑتا تھا اور اس طویل سفر میں ان کے کئی ہزار سپاہی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے اس کا آرام دہ بسوں، ویگنوں اور آراستہ و پیراستہ فائیو اسٹار ہوٹل کے مانند کنٹینر سے کیا تقابل جس کا فاصلہ صرف288میل تھا، بہرحال جو بات ہونا تھی وہ ہوگئی اور بظاہر یہ ڈرامہ کامیڈی کی شکل میں انجام پذیر ہوا، سانپ نکل گیا اب لکیر پیٹنے سے کیا فائدہ۔ تاہم ایسے واقعات سے سبق لینا ضروری ہوتا ہے تاکہ ان اسباب پر غور کیا جائے جس کی بدولت یہ واقعہ پیش آیا اور پروان چڑھا تاکہ خدانخواستہ آئندہ ایسی یا اس کے مماثل کوئی صورت پیش آئے تو اس کی روک تھام ہو سکے۔
ابتدا میں مطالبہ سیاست کو نہیں ریاست کو بچانا مقصود تھا پھر مطالبات نیم سیاسی ہوگئے اور آخر میں خالص سیاسی۔ بعض مطالبات مناسب تھے مگر ان کی تکمیل کے لئے جو ذرائع اختیار کئے اور جس دباؤ اور دھمکیوں سے کام لیا گیا وہ کسی سطح پر بھی مناسب نہ تھے اور نہ آئین اور قانون ان کو جائز قرار دیتا تھا۔ آئیے اس کے فائدے اور نقصانات کا سرسری جائزہ لیں۔
نقصانات: (1) حکومت کی رٹ کو زبردست نقصان پہنچا یعنی جو شخص چاہے وہ دھمکی اور دھونس سے دباؤ ڈال کر اپنے مطالبات منوا سکتا ہے۔
(2) مارچ کا ایک مقصد ملک سے رشوت خوری کا خاتمہ کرنا تھا مگر اس کے آغاز کے لئے خود ہی اس ذریعہ کو استعمال کیا گیا جلسے اور جلوس میں عوام کو شریک ہونے کے لئے نذرانوں کی پیشکش اور ٹرانسپورٹروں کو پولیس کے جرمانوں کی تلافی اور کئی روز کے لئے روکنے کا زائد معاوضے ادا کرنا۔
(3) جلوس اور جلسے میں زیادہ تعداد معتقدین کی تھی مگر چالیس لاکھ افراد کو جمع کرنے کی خواہش نے مجبور کیا کہ لوگوں کو پیسے دے کر خریدا جائے، کچھ لوگ رقم لے کر فرار بھی ہوگئے۔
(4) لانگ مارچ کے دوران سارے ملک میں اضطراب اور بے چینی پھیل گئی۔
(5) اسلام آباد کی معاشی، معاشرتی اور کاروباری زندگی تقریباً مفلوج ہوگئی۔ اسکول، کالج، بینک، بازار سب بند، ٹرانسپورٹ غائب، دفتروں میں معمولی سی حاضری۔
(6) اسلام آباد کے شہریوں بالخصوص خواتین اور چھوٹے بچوں میں خوف کی لہر سے رات کی نیندیں اڑ گئیں، لوگ پریشان کہ کیا ہوتا ہے۔
(7) روزانہ مزدوری کرنے والوں کی مزدوری غائب اور ان کے چولہے ٹھنڈے،کچھ بے روزگار جلوس میں شامل۔
(8) حکومت کا سیکورٹی کی خاطر 22ہزار پولیس، رینجرز اور دوسرے افراد کا تقرر اور ان کے لئے 15کروڑ 40لاکھ کی رقم مہیا کرنا۔
(9) اسلام آباد میں جلوس کی جو جگہ مقرر کی گئی تھی اس کی اور بیت الخلاؤں وغیرہ کی صفائی اور جلوس کو روکنے کے لئے جو خندقیں کھو دی گئی ان کی مرمت کے اخراجات وہاں کی میونسپل کارپوریشن کو برداشت کرنا ہوں گے صرف کچرے کی مقدار 100ٹن کے قریب تھی۔
(10) کراچی کے اسٹاک ایکسچینج میں 525 پوائنٹس کی گراوٹ اور متعدد لوگوں کا لاکھوں کا نقصان
فوائد:۔ عوام کو تو اس ڈرامے کا کوئی براہ راست فائدہ نہیں پہنچا اور نہ لانگ مارچ کے مطالبات من و عن منظور ہوئے البتہ حکومت کی گرتی ہوئی ساکھ بحال ہوگئی۔ حکومت کے وفد نے مذاکرات کی آڑ میں خون خرابے کے بغیر آسانی سے اسلام آباد خالی کرا لیا۔ دو بڑی سیاسی پارٹیوں میں جو تناؤ تھا وہ ختم ہو گیا بلکہ تقریباً تمام سیاسی پارٹیوں نے حکومت کا ساتھ دیا اور مارچ کے مطالبات کو مسترد کر دیا۔ حکومت کی میعاد 26مارچ تک پکی ہوگئی اس درمیان میں کوئی لانگ یا شارٹ مارچ نہیں ہوگا۔ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو جو معزولی کی سند دی گئی تھی وہ اعلان اسلام آباد سے خود بخود ختم ہوگئی۔ الیکشن کمیشن کی تحلیل کا معاملہ ختم ہوگیا، نگراں حکومت کے قیام میں بھی لانگ مارچ والوں کا کوئی عمل دخل نہیں بلکہ حکومت نے حزب مخالف کے ڈپٹی لیڈر کو اس سلسلے میں مشاورت کا فریضہ سپرد کر دیا۔ دراصل لانگ مارچ میں مرکزی حکومت کا کردار بھی قابل غور ہے صدر مملکت نے ہدایت کی کہ جلسے اور جلوس میں کسی قسم کی مداخلت نہ کی جائے۔ وزیر پیٹرولیم نے حکم دیا کہ لانگ مارچ کے دوران پیٹرول پمپ بند نہ کئے جائیں چنانچہ اسلام آباد میں ایک علاقہ مخصوص کر دیا گیا اور وہاں مختلف قسم کی سہولتیں بھی فراہم کی گئیں۔
لانگ مارچ کے دوران چند دلچسپ واقعات بھی پیش آئے۔ عدالت عالیہ نے رینٹل پاور کیس میں وزیراعظم کو معزولی کی سزا سنائی، مارچ والوں نے اس کو اپنی کامیابی قرار دے کر وزیراعظم کے خلاف خوب نعرے بازی کی۔ اسلام آباد میں نامناسب زبان بھی استعمال کی گئی اور بیجا فخر کے اظہار میں کہا گیا ”ساری کائنات کے خزانے اور سرمایہ جمع کر کے میرا جوتا بھی نہیں خریدا جا سکتا“ (جنگ 13/جنوری) جلوس کے رہنما کو علامہ یا مولانا کہنے سے چِڑ ہے، وہ چاہتے ہیں کہ ان کو ڈاکٹر کہا جائے۔ ڈاکٹر کے معتقدین تو مریض کہلاتے ہیں جبکہ یہ ڈاکٹر عجیب ہیں جن کے مقلدین اور معتقدین اور متوسلین ان کا حکم بھی مانتے ہیں، چندہ بھی دیتے ہیں اور خواتین اپنے زیورات ڈاکٹر کی نذر کرتی ہیں۔
اس ڈرامے میں 40لاکھ تو کجا ایک لاکھ بھی جمع نہ ہو سکے اور ڈی چوک کو تحریر اسکوائر بنانے کا خواب پورا نہ ہو سکا۔ تاہم جن 25، 30ہزار افراد بشمول خواتین نے اس میں شرکت کی وہ لائق صد تحسین ہیں کہ مری کی برفیلی ہواؤں اور 4درجہ کے ٹمپریچر میں بیٹھنے اور شیر خوار بچوں سمیت چار دن اور تین راتیں کھلے آسمان تلے گزاریں، نہ کوئی ہنگامہ آرائی کی اور نہ اپنی جگہ سے ہلے، زندہ باد عوام۔ یہ کلی طور پر ثابت ہوگیا کہ طاقت عوام میں مضمر ہے وہ جس کا ساتھ دیں ہما اسی کے سر پر بیٹھتا ہے۔
تازہ ترین