• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تاریخی غلطی کرنیوالے وسیم اکرم سرفراز سے سوال کررہے ہیں

کراچی پریس کلب میں 1999 کی ایک گرم دوپہر پاکستان کرکٹ بورڈ کے اس وقت کے چیئرمین خالد محمود میٹ دی پریس میں کہہ کر ایئرکنڈیشنڈ ہال کے ماحول کو مزیدگرم کررہے تھے ان کا کہنا تھا کہ لارڈز میں ورلڈ کپ فائنل ہارنے پر جتنا شور ہور ہا ہے اتنا شور تو  1971 میں اس وقت بھی نہیں ہوا تھا جب ملک دو لخت ہوا تھا۔ اگلے دن اخبارات نے خالد محمود کے بیان کو شہ سرخیوں سے شائع کیا اور اس کے چند گھنٹے بعد حکومت نے خالد محمود کو برطرف کرکے مجیب الرحمن کو پی سی بی کا چیئرمین بنادیا۔

20جون 1999 کو لارڈز میں آسٹریلیا کے خلاف فائنل میں پاکستان نے ماہرین کی رائے کو نظر انداز کیا وسیم اکرم نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کی اور پاکستانی ٹیم پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے132رنز پر آوٹ ہوگئی اور پاکستان آسٹریلیا سے فائنل8وکٹ سے ہار گیا۔

اس سے قبل ورلڈ کپ کے گروپ میچ میں پاکستان نے آسٹریلیا کو ہرایا تھا لیکن حیران کن طور پر نارتھپٹن میں پاکستان کوبنگلہ دیش نے 62رنز سے ہرا کر ورلڈ کپ میں تہلکہ مچا دیا تھا۔ بیس سال بعد بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے بہہ گیا۔

پاکستان کرکٹ نے کئی روایتی تحقیقات کا سامنا کیا پھر 1999 میں وسیم اکرم نے جو تاریخی غلطی کی2019 میں وہی وسیم اکرم عدالت لگا کر سرفراز احمد سے جواب طلب کررہے تھے اس کو کہتے ہیں کبھی کے دن بڑے اور کبھی کی راتیں!

لاہور میں کرکٹ کمیٹی کے اجلاس میں کپتان سرفراز احمد سے ان کی کپتانی اور انفرادی کارکردگی کے حوالے سے زیادہ سوالات ہوئے۔ اولڈ ٹریفورڈ مانچسٹر میں بارش سے متاثرہ پچ پر ٹاس جیت کر پہلے فیلڈنگ کرنے کا فیصلہ مشترکہ طور پر کپتان کوچ اور سنیئر کھلاڑیوں نے کیا تھا۔ لیکن کرکٹ کمیٹی میں وسیم اکرم نے سرفراز سے فیصلے کی وجہ جاننے کی کوشش کی لیکن وہ اپنا ماضی بھول گئے۔

عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ کرکٹ کمیٹی نے تین سال کے دوران پاکستان ٹیم کی کارکردگی کے بجائے سوال جواب کے دوران توجہ ورلڈ کپ پر مرکوز رکھی۔ ایسا تاثر دیا گیا کہ پی سی بی ہیڈ کوارٹر میں ٹیم انتظامیہ کے خلاف عدالت لگی ہوئی ہے لاہور میں جمعے کو ہونے والے اجلاس میں کئی ایسی باتیں سامنے آئیں جس نے کمیٹی کی اہلیت اور ساکھ کے حوالے سے سوال اُٹھایا۔

پی سی بی کرکٹ کمیٹی کے رکن اور سابق کپتان وسیم اکرم نے کپتان سرفراز احمد سے سوال پوچھا کہ آپ نے بھارت کے خلاف ٹاس جیت کر پہلے فیلڈنگ کیوں کی۔ اگر فیصلہ سمجھ نہیں آرہا تھا تو آپ مجھ سے فون کرکے پوچھ سکتے تھے۔پہلے فیلڈنگ کرنے کا فیصلہ درست نہیں تھا۔

وسیم اکرم سابق کپتان ہیں۔ پاکستان کی جانب سے49 ٹیسٹ، 114 ون ڈے انٹر نیشنل اور 55ٹی ٹوئینٹی انٹر نیشنل کھیلنے والے سرفراز احمد وسیم اکرم کی بات سننے کے بعد کچھ دیر کے لئے خوشگوار حیرت میں مبتلا ہوگئے۔ وسیم اکرم، سرفراز احمد سے سوال پوچھتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان کے موقف کی بھی حمایت کررہے تھے وسیم اکرم، وزیر اعظم عمران خان کے دیرینہ دوست ہیں۔ اجلاس میں وزیر اعظم عمران خان کے قریبی دوست مدثر نذر اور ذاکر خان بھی کمیٹی کے رکن کی حیثیت سے موجود تھے۔

وسیم اکرم نے بھی جان بوجھ کر غلط فیصلہ نہیں کیا تھا نہ سرفراز احمد نے دانستہ یہ حرکت کی۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کئی بار انسان ایسی غلطیاں کردیتا ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ تاریخ کا حصہ بن جاتی ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان نے بھی بھارت کے خلاف میچ سے قبل سرفراز احمد اور مکی آرتھر کو پہلے بیٹنگ کرنے کا مشورہ دے رہے تھے۔ لیکن ان کی رائے کو بھی اہمیت نہیں دی گئی۔ ہیڈ کوچ اور کپتان کو اسی حوالے سے زیادہ سوالات کا سامنا رہا ۔وسیم اکرم سرفراز احمد سے یہ پوچھتے ہوئے یہ بھول گئے کہ 1999کے ورلڈ کپ کےفائنل میں انہوں نے آسٹریلیا کے خلاف ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کی تھی۔

بیس سال بعد وسیم اکرم سرفراز احمد سے دوسری حیثیت میں پوچھتے ہوئے اپنے دور کے اہم فیصلے کو بھول گئے جسے آج بھی شائقین کرکٹ مختلف زاویے سے دیکھتے ہیں۔ پی سی بی کرکٹ کمیٹی میں وسیم اکرم نے سرفراز احمد کی غلطی پر جس طرح بات کی اس وقت وہ اپنے ماضی کے فیصلے کو بھو ل گئے تھے۔

لاہور میں کمیٹی پہلے مرحلے میں کوچنگ اسٹاف کے حوالے سے تجاویز تیار کر رہی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پی سی بی کرکٹ کمیٹی نے میٹنگ کے دوران یہ تاثر بھی دیا کہ پاکستان ٹیم کے سنیئر کھلاڑی محمد حفیظ اور شعیب ملک ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ اس سے ایسے لگ رہا تھا کہ شعیب ملک کا مستقبل زیادہ روشن نہیں ہے۔ ورلڈ کپ میں ان کی خراب کارکردگی نے ان کا کیس کمزور کردیا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ کرکٹ کمیٹی نے زیادہ تر فوکس کوچز پر رکھا ان کے بارے میں سوالات کئے گئے۔ ورلڈ کپ میں قومی کرکٹ ٹیم کی ناقص کارکردگی کے سوال پر ٹیم کے ہیڈ کوچ مکی آرتھر پاکستان کرکٹ بورڈ کو مطمئن نہ کرسکے، انہوں نے شاداب خان کا نام مستقبل کے ٹی ٹوئینٹی کپتان کیلئے تجویز کردیا۔کپتان اور کوچ نے ورلڈکپ میں ٹیم کی کارکردگی کو تسلی بخش قراردیا۔

انضمام الحق نےکہا کہ بطور چیف سلیکٹر میں نے اور پوری سلیکشن کمیٹی نے نیک نیتی کے ساتھ کام کیا۔ مکی آرتھر نے ٹیم کی ورلڈ کپ میں خراب کارکردگی کی وجہ فیلڈنگ اور کیچ ڈراپ ہونے کو قرار دیا۔ اجلاس میں مکی آرتھر نے محدود اوورز کیلئے شاداب خان کا نام مستقبل کے کپتان کیلئے تجویز کرکے نیا پنڈورا باکس کھول دیا۔

مکی نے کہا کہ ورلڈ کپ میں کارکردگی سے مطمئن ہوں یہ مزید بہتر ہوسکتی تھی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ پی سی بی کرکٹ کمیٹی کے اجلاس میں فوکس کوچنگ اسٹاف اور ٹیم کی کارکردگی رہی۔ سرفراز سے میٹنگ میں پوچھا گیا کہ تینوں فارمیٹ میں کپتانی کے دوران آپ سے غلطیاں ہوئیں کمیٹی اراکین نے اعتراض کیا کہ تینوں فارمیٹ کا کپتان ہونے کی وجہ سے آپ دباؤ کا شکار دکھائی دیئے۔ ورلڈ کپ میں لیڈنگ فرام دی فرنٹ کی کمی محسوس ہو رہی تھی۔کمیٹی سرفراز احمد کی فارم اور فٹنس سے غیر مطمین تھی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ سرفراز احمد اپنی اور ٹیم کی کارکردگی کا دفاع کرتے رہے اور کہا کہ تینوں شعبوں میں بھرپور محنت جاری رکھی۔ بعض اوقات قسمت نے ساتھ نہ دیا اور نتائج حق میں نہ آئے۔ نوجوان کھلاڑی کم تجربہ کار ہیں لیکن اچھا پرفارم کرنے کے لئے کوشش کررہے ہیں۔

پاکستان کرکٹ بورڈ ،کرکٹ کمیٹی پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ٹیم کو اُوپر لے جانے کے لئے درست فیصلے کرے لیکن لاہور میں میٹنگ کے بعد جس طرح باتیں میڈیا میں آئیں اس نے پی سی بی کے نئے ایم ڈی وسیم خان کی ساکھ بھی خراب کی کیوں کہ وہ جس ملک سے آئے ہیں وہاں ہر چیز میڈیا میں نہیں آتی۔پھر مکی آرتھر کا کردار بھی اہم ہے۔

سرفراز احمد کے ساتھ دو سال سیاہ اور سفید کے مالک رہنے والے مکی آرتھر اب کپتان کے لئے بابر اعظم اور شادب خان کے نام تجویز کررہے ہیں۔ مکی آرتھر بھی پاکستان کرکٹ کی سیاست کو خوب سمجھ رہے ہیں۔ ہوا کا رخ دیکھتے ہوئے وہ اسی جانب چل پڑتے ہیں جب کپتان کی تبدیلی ناگزیر ہے تو پھر تین سال ہیڈ کوچ رہنے والے مکی آرتھر کو بھی گھر جانے کا موقع دینا ہوگا۔

پاکستان کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ مکی آرتھر کا نام ان چند لوگوں میں شامل ہے جنہیں انگلینڈ کے کوچ کا عہدہ مل سکتا ہے۔ جنوبی افریقا سے تعلق رکھنے والے مکی آرتھر سے بھی، جو اس سے پہلے اپنے ملک اور آسٹریلیا کے کوچ رہ چکے ہیں، انگلینڈ کی کوچنگ کے لیے بات ہو رہی ہے۔

مکی آرتھر مئی سنہ 2016 سے پاکستان کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ ہیں، اور ان کے کنٹریکٹ کی مدت15 اگست سنہ 2019 تک ہے۔ ان کی کوچنگ میں پاکستان رواں سال ورلڈ کپ میں سیمی فائنل تک رسائی حاصل نہیں کر سکا تھا۔ دیکھیں کرکٹ کمیٹی کی سفارشات پر کون ان اور کون آوٹ ہوتا ہے۔

تازہ ترین