• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی واضح قرار دادوں اور باہمی سمجھوتوں کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارت نے اپنے آئین کی دفعات 370اور 35اے کو منسوخ کر کے مقبوضہ کشمیر کی نیم خود مختار خصوصی حیثیت کو ختم کرنے اور ریاست کی 82فیصد مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کیلئے بھارت سے ہندوئوں کو لاکر بسانے کا جو یک طرفہ اعلان کیا ہے، پاکستان نے اس کے تباہ کن اثرات سے عالمی برادری کو خبردار کرنے کیلئے اقدامات شروع کر دیئے ہیں۔ ترکی اور ملائشیا کے وزرائے اعظم سے وزیراعظم عمران خان کے ٹیلیفونک رابطے، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے نام وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا خط، قومی اسمبلی اور سینیٹ کے مشترکہ اجلاس میں مقبوضہ کشمیر میں کی جانے والی جارحانہ کارروائیوں پر غور، آرمی چیف کی زیر صدارت کور کمانڈرز کانفرنس میں ممکنہ بھارتی جارحیت سے نمٹنے کیلئے حکمت عملی پر سوچ بچار، پارلیمانی کشمیر کمیٹی کے چیئرمین سید فخر امام کی قیادت میں قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ارکان پر مشتمل وفود بیرون ملک بھیجنے کا فیصلہ، اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی سے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر فوری رابطہ اور جدہ میں تنظیم کی جموں و کشمیر رابطہ کمیٹی کا ہنگامی اجلاس، اسلام آباد میں امریکہ، روس، چین، برطانیہ اور فرانس کے سفیروں کو مقبوضہ کشمیر اور کنٹرول لائن کی تازہ ترین صورتحال سے آگاہ کیا جانا اور مختلف ممالک کی جانب سے کشمیریوں کے انسانی حقوق کی پامالی پر تشویش کا اظہار اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ بھارت کی اپوزیشن سیاسی پارٹیاں بھی مودی سرکار کے اس عاقبت نااندیشانہ فیصلے کی شدید مخالفت کر رہی ہیں کانگریس کا کہنا ہےکہ کشمیر میں مسلمانوں کو اقلیت میں تبدیل کرنا تاریخ کی سب سے بڑی غلطی ہو گی جبکہ بھارتی وکلا نے اس اقدام کو عدالت میں چیلنج کر دیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے وہ بھارت نواز لیڈر جن کے بڑوں نے بھارت سے نام نہاد الحاق کی حمایت کی تھی آج ان کی حماقت پر پچھتا رہے ہیں۔ سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہاکہ بھارت سے نام نہاد الحاق اور دو قومی نظریے کی مخالفت کا فیصلہ غلط ثابت ہو گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں اس وقت کوئی حکومت نہیں، محبوبہ مفتی کی مخلوط حکومت کو ایک سال قبل برطرف کر کے صدر راج نافذ کر دیا گیا تھا۔ اس طرح بھارتی صدر نے جو حکمنامہ جاری کیا اسے کشمیر اسمبلی کی تائید حاصل نہیں جو آئینی تقاضا ہے، امریکہ نے کہا ہے کہ ہم جموں و کشمیر کی حیثیت بدلنے کا جائزہ لے رہے ہیں اور ہمیں وہاں شہری حقوق کی خلاف ورزیوں اور گرفتاریوں پر تشویش ہے۔ امریکی نائب معاون وزیر خارجہ اسلام آباد پہنچی ہیں جن سے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر خصوصی تبادلہ خیال ہوگا، وزیر خارجہ کے خط پر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان اور بھارت کو تحمل سے کام لینے کا مشورہ دیا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے خبردار کیا ہے کہ بھارت کی غیر قانونی حرکت خطے کا امن برباد کر دے گی۔ بھارت دہائی دیتا رہا ہے کہ کشمیر، پاکستان اور بھارت کا باہمی مسئلہ ہے مبصرین پوچھتے ہیں کہ اگر ایسا ہے تو وہ پاکستان سے پوچھے بغیر یکطرفہ طور پر مقبوضہ کشمیر کے حصے بخرے کرکے اسے کیسے ہڑپ کر سکتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ برصغیر کی موجودہ صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔ ایسی صورتحال میں پاکستانی قوم کو پوری طرح چوکس اور متحد رہنا چاہئے۔ دشمن کسی قوم پر اس وقت وار کرتا ہے جب اسے کمزور سمجھتا ہے۔ ہمیں مودی کے عزائم کو سمجھنا چاہئے اور جس طرح دہشت گردی کے خلاف سب نے مل کر جنگ لڑی، بھارت کے مذموم عزائم کا بھی اسی اتحاد اور اتفاق سے مقابلہ کرنا ہوگا۔ حکومت نے سفارتی محاذ پر جو پیش قدمی کی ہے، اسے سفارتی ایمرجنسی میں تبدیل کر کے دنیا کو بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم اور جنگی جنون سے آگاہ کرنا چاہئے اور تاریخ کے صحیح تناظر میں مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنا چاہئے۔ جموں و کشمیر کو قائد اعظم نے پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا، جس کی حفاظت حکومت، مسلح افواج اور عوام کو مل کر پوری جرأت اور ہوشمندی سے کرنا ہو گی۔

تازہ ترین