• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شہر زاد میری بوڑھی آنکھیں 1948کی طرف دیکھ رہی ہیں۔ نظام حیدر آباد نے اعلان کیا کہ ریاست حیدرآباد دکن، پاکستان کے ساتھ جائیگی۔ ادھر اعلان ہوا، ادھر فوجی قبضہ ہو گیا۔ منافقین ساتھ مل گئے اور نظام کا خاندان کوچ کر گیا۔

وہی زمانہ 1948کا ریاست جوناگڑھ نے پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کا اعلان کیا۔ وہاں بھی قبضہ کر کے جو مالکان حکمران تھے، ان کو علاقہ بدر کیا گیا۔

7؍اگست 1947میں لے چلوں۔ لارڈ کلف کے ذمے ہندوستان کی تقسیم کا نقشہ دیا گیا تھا۔ ان کو ہندوستان آنے کے بعد ڈائریا ہو گیا۔ طبیعت بہت خراب ہوئی۔ ان کے تیار کردہ نقشے کے مطابق گورداسپور پاکستان میں آرہا تھا۔ پنڈت نہرو کی اس زمانے میں لارڈ مائونٹ بیٹن کی بیگم سے دوستی تھی۔ ان کے ذریعے لارڈ کلف کو پیغام بھیجا گیا کہ کشمیر جانے کیلئے چونکہ وہی راستہ ہے۔ اس لئے گورداسپور کو ہندوستان میں شامل کر دو۔ قائداعظم بہت جھنجھلائے مگر لارڈ کلف نقشے میں لائن کھینچ کے واپس ہو گیا۔ قائداعظم نے تبھی غصے میں کہا تھا کہ مجھے کٹا پھٹا پاکستان دیدیا گیا ہے۔

ہندوستان کو کشمیر کا راستہ کیا ملا۔ راجہ کشمیر نے اپنی قومیت کی فکر کی۔ ہندوستان سے معاہدہ کر لیا۔ شور مچا تو اقوام متحدہ تک بھارت خود قرارداد لئے پہنچ گیا اور جب بھی کشمیر کا موضوع زیر بحث آتا۔ ہم زور سے کہتے ’’استصواب کرائو، کشمیر کشمیریوں کا ہے‘‘۔ خود اقوام متحدہ ہندوستان کی بڑی طاقت دیکھ کر بھیگی بلی بن جاتی اور پاکستان کے آنسو پونچھتے ہوئے اور کشمیریوں کے غصے کو کم کرنے کے لئے ’’ہاں ہاں بہت جلدی کشمیر کا تصفیہ ہو جائے گا‘‘، تسلی کرادی جاتی۔ کہانیاں لکھنے والے خالد حسین کی طرح کہانیاں لکھتے رہے۔ شبنم عشائی کی طرح مظلوم کشمیریوں کے حالات کو شاعری میں بیان کرتے رہے۔ ہنسی آتی ہے اور رونا آتا ہے یہ لکھتے ہوئے کہ بقول ہماری دوست نسیم زہرہ، مشرف صاحب نے بنا سوچے سمجھے کارگل کے ذریعہ کشمیر حاصل کرنے کی حماقت کی۔ ویسے اس منصوبہ بندی میں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کو شامل نہیں صرف آگاہ کیا گیا تھا۔ انہوں نے اپنی غیر سیاسی ذہینت کا مظاہرہ کرتےہوئے کہا… تو کیا ہم سری نگر پر پاکستان کا پرچم لہرا سکیں گے۔ پر شہرزاد آگے کی کہانی بھی تو سنو، ہندوستان کی فوجوں نے جوابی کارروائی کی تو ہمارے اتنے جوان مارے گئے، جتنے مشرقی پاکستان کے حملے میں نہیں مرے تھے۔ اور بتائوں شہرزاد! پھر کیا ہوا۔ بہت تکلیف دہ قصہ ہے… ہمارے وزیراعظم نے امریکی مدد ایسے وہاں جاکر مانگی کہ بیان نہیں ہو سکتا۔ اس کے بعد کی کہانی کہ مشرف نے کیسے پاکستان پہ حکومت کی اور کیسے شریف خاندان کو سعودی محل میں دس سال کے لئے بھجوا دیا۔

ارے شہرزاد! یہ کہانی بھی ختم ہوئی۔ مشرف کو بھی نکالا گیا اور پھر کسی مصلحت یا پھر ان کے اپنےکنبے کی مدد سے وہ دبئی چلے گئے۔ اچھا پھر شہرزاد ! آگے کیا ہوا۔ ارے جو پاکستان میں ہوتا آیا تھا۔ بے نظیر کو شہید کر دیا گیا۔ پھر دونوں پارٹیوں نے باری باری حکومت کی اور مغلوں اور انگریزوں کی طرح سرمایہ منتقل کیا اور اس کے بعد شہرزاد ! اس کے بعد ہمارے وزیراعظم نے سعودی شہزادے کی سفارش پر، امریکہ کا دورہ کیا اور بے عقل ٹرمپ کو کشمیریوں کی مظلومیت کی داستان ایسے سنائی کہ وہ یکدم کہہ اٹھا ’’میں ثالثی کرائوںگا‘‘۔ ہم نے شادیانے بجا دئیے۔ مٹھائیاں تقسیم کیں۔ اسمبلی کے ہر سیشن میں مبارک باد دی گئی۔ پھر کیا ہوا شہرزاد ’کیا بتائوں‘ میرے منہ میں خاک، کشمیر کو صدارتی حکم کے ذریعہ ہندوستان میں ضم کر دیا گیا۔ سب کشمیریوں کو پابند سلاسل اور ہر پانچ قدم کے فاصلے پہ بندوق بردار کھڑے کر دیئے گئے۔ اب واقعہ کربلا کی طرح یا فلسطینیوں کی بربادی کی طرح، کشمیریوں کے لئے نوحہ گری۔ وہ بھی کب تک، کیوں کر۔

ارے شہر زاد! تم تو خود پاکستان، انڈیا، امن فوج کی صدر ہو۔ تم اب کیا کرو گی۔ کچھ دن تک دکھی دکھی نظمیں لکھو گی۔ پھر جب ڈاکٹر مبشر یا آئی اے رحمان کہیں گے کہ بھئی ہندوستان ہمسایہ ہے، دوستی تو رکھنا پڑے گی۔ پھر چارو ناچار قافلہ لےکر واہگہ بارڈر تک جائو گی۔ وہاں تین بوس انتظار کر رہے ہونگے۔ ’’پرانی باتیں بھول جائو‘‘ کے نعرے لگیں گے۔ ہر شام آئی آئی سی میں کچھ نوحے، کچھ لطیفے اور کچھ غم غلط کرنے کے طریقے اختیار کر کے کھانا کھا کر سو جائیں گے۔ صبح اٹھیں گے تو کوئی پوچھے تو کہہ دیں گے ’’رات گئی ، بات گئی‘‘ طعنہ زن کہیں گے ’’ہم نہ کہتے تھے‘‘۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین