• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کی سیاسی اور عسکری تاریخ نشیب و فراز سے پُر ہے۔ ایسا ہی نشیب و فراز قوم نے کارگل کے محاذ پر بھی دیکھا جو اقتدار میں فوجی مداخلت پر منتج ہوا۔ آج کل ایک بار پھر اس پر شدومد کے ساتھ بحث و مباحثے کا آغاز ہوا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کا سبب یہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف کی کتاب کے جواب میں لیفٹننٹ جنرل (ر) شاہد عزیز نے بھی ایک کتاب لکھ ڈالی اور اپنے تئیں انہوں نے اس میں بہت سے انکشافات بھی کر ڈالے۔ یہ دونوں حضرات پاک فوج کے انتہائی اہم عہدوں پر فائز رہے اس لئے، اس کے بعد ان کا یہ غیر ذمہ دارانہ طرز عمل انتہائی افسوسناک لگتا ہے۔ کارگل کے واقعے کی حقیقت کیا ہے، اس سے قطع نظر آج اس پر بحث کرنے کا سبب سوائے سیاسی مفادات کے حصول کے اور کچھ نہیں ہوسکتا۔ اگر ہم اپنے سیاسی مفادات کیلئے ملک اور فوج کے وقار کو نقصان پہنچانے سے بھی دریغ نہ کریں تو اسے قومی المیہ ہی کہا جا سکتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ قوم کو ماضی کے واقعات کی سچائی سے آگاہ ہونا چاہئے لیکن سردست ملک جس صورتحال سے دوچار ہے اس میں ہم اس بات کے متحمل نہیں ہو سکتے کہ ایسے موضوعات کو چھیڑ کر ہم پاکستان کو عالمی سطح پر کمزور کریں۔
ملک کے دشمن تاک میں بیٹھے ہیں کہ انہیں ہماری کوئی کمزوری ہاتھ لگے تو پاکستان کو آڑے ہاتھوں لیاجائے۔ جنرل مشرف ذرائع ابلاغ پر یہ کہتے نظر آئے کہ کارگل میں چند سو فوجی جوانوں کے ساتھ ہم نے ٹیکنیکل کامیابی حاصل کرتے ہوئے اسٹرٹیجک نتائج حاصل کئے جبکہ عسکری ماہرین کا کہنا یہ ہے کہ کسی بھی ملٹری آپریشن کے مقاصد ٹیکنیکل کامیابی نہیں بلکہ اسٹرٹیجک کامیابی ہونے چاہئیں۔ دوسری جانب شاہد عزیز کہتے ہیں کہ اس محاذ پر ہزاروں جوان استعمال ہوئے اور کئی ہزار مارے گئے جبکہ جنرل مشرف کا دعویٰ ہے کہ اس آپریشن میں ایک یا دو بٹالینوں نے حصہ لیا جو چند سو نفوس پر مشتمل ہوتی ہیں۔ دوسرا قضیہ اس بحث میں یہ سامنے آیا کہ کارگل آپریشن کے بارے میں کور کمانڈروں، پرنسپل اسٹاف کو اعتماد میں لیا گیا تھا یا نہیں؟ اس کے ساتھ ساتھ یہ بحث بھی ہو رہی ہے کہ اس وقت کی سیاسی قیادت یعنی میاں نواز شریف نے اس کی اجازت دی تھی یا نہیں؟ اور آیا ان کے علم میں یہ آپریشن تھا یا نہیں؟ یہ ایسے سوالات ہیں جو بحث طلب ہیں لیکن ایک حقیقت سامنے ضرور رہے کہ پاکستانی فوج نے کارگل میں کسی آپریشن میں حصہ لیا تھا اور بین الاقوامی طاقتوں اور اداروں کے لئے پاکستان کے خلاف کوئی محاذ کھڑا کرنے کے لئے یہی ایک بہت بڑا الزام ہوسکتاہے۔
ایک ایسے وقت میں جب پاکستان داخلی طور پر انتقال اقتدار کے مرحلے سے گزرنے والا ہے، ملک کو دہشت گردی اور انتہا پسندی کا سامنا ہے۔ ملک کی معاشی صورتحال ناگفتہ بہ ہے اور ملک کا سب سے بڑا ساحلی شہر شورش کی زد میں ہے۔ اس پُرآشوب صورتحال میں یہ بحث ملکی مفاد کے منافی نظر آتی ہے اور یہ بحث کوئی غیر سنجیدہ لوگ نہیں بلکہ ایسے افراد کر رہے ہیں جن کے ہاتھوں میں نہ صرف افواج پاکستان کی کمان رہی ہے بلکہ وہ ملک کے اقتدارِ اعلیٰ پر بھی براجمان رہے ہیں۔ اس بات کا بھی تعین ہونا چاہئے کہ آیا اس قسم کی بحث کرکے یہ افراد اپنے حلف سے انحراف تو نہیں کر رہے؟ کیونکہ حلف میں یہ بات موجود ہوتی ہے کہ ملک کے قومی راز جو آپ کے علم میں لائے جائیں گے، انہیں کسی پر افشا نہیں کرسکتے اور اگر یہ افراد حلف اٹھانے کے بعد بھی اس عمل کے مرتکب ہو رہے ہیں تو پھر پاکستان کے دفاع اور سلامتی کا خدا ہی حافظ ہے۔ ملک کی سیاسی قیادت بالخصوص میاں نواز شریف پر اس وقت بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کسی موزوں موقف کے ذریعے اس بحث کو سمیٹ کر تاریخ کا بند باب قرار دیں۔ بصورتِ دیگر اس کے نتائج بین الاقوامی سطح پر انتہائی سنگین مرتب ہوسکتے ہیں۔ جنرل مشرف نے ٹیلیویژن ٹاک شو میں یہ الزام عائد کیا کہ یہ جنرل (ر) ضیاء الدین بٹ اور نواز شریف کی سازش ہے اور جنرل شاہد عزیز اس میں استعمال ہو رہے ہیں۔ یہ پوری صورتحال پاکستان کے داخلی اور خارجی خطرات کو مزید خراب کر سکتی ہے۔ ملک میں بہت سے ایسے ایشوز ہیں جن پر ہم بات کر سکتے ہیں۔ کیا یہی ضروری ہے کہ ہم ایسے حساس موضوعات کو اپنی گفتگو کا موضوع بنائیں جو بعد ازاں رشحات قلم کے ذریعے اخبارات اور پھر بین الاقوامی اخبارات تک پہنچیں اور یوں عالمی ادارے پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر انگلی اٹھائیں۔ فوج کا یہ وقار اور اس کے حوصلے کو برقرار رکھنے، ملک کے سیاسی استحکام کیلئے ضروری ہے کہ ذرائع ابلاغ ان جیسے موضوعات سے اجتناب برتے اور عوام کو ان مسائل اور ان کے حل سے آگاہ کریں جو انہیں درپیش ہیں۔ یہی قومی خدمت ہوگی۔ اس قسم کے سنسنی خیز پروگرام ترتیب دے کر اینکرز کی رینکنگ تو بڑھ سکتی ہے لیکن پاکستان کی خدمت نہیں ہو سکتی۔ امید ہے وقت کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے ذرائع ابلاغ سے تعلق رکھنے والے تمام دوست اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کریں گے اور وقتی مقبولیت کو رد کرتے ہوئے قومی مفاد کو پیش نظر رکھیں گے۔
تازہ ترین