• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مسلم لیگ (ن) سمیت تیرہ جماعتوں کا مارچ اور دھرنا ڈاکٹر طاہر القادری کے نہلے پر دہلا تھا مگر بارش نے مزا کرکرا کر دیا بقول ظفر اقبال:
کاغذ کے پھول سر پر سجا کر چلی حیات
نکلی بیرون شہر تو بارش نے آلیا!
مہنگے کپڑے بھیگنے کا خدشہ اور نزلے زکام کا اندیشہ ہر خوش پوش نازک اندام سیاستدان کی قوت عمل مفلوج کر دیتا ہے صرف افتادگان خاک پروا نہیں کرتے، برادرم لیاقت بلوچ اور مشاہد اللہ خان نے یہ کر دکھایا۔
اپوزیشن کے مطالبات میں وزن ہے اور انہیں یہ کہہ کر رد نہیں کیا جاسکتا کہ بیسویں آئینی ترمیم کے موقع پر نئے گورنروں کے تقرر، اعلیٰ بیورو کریٹس کی تبدیلی اور ہر صوبے میں قائد حزب اختلاف کی موجودگی کا معاملہ مسلم لیگ (ن) اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کی نگاہوں سے اوجھل کیوں رہا؟ تمام سیاسی جماعتوں کو Lavel Playing Fieldملنی چاہئے مگر صرف یہی دو چار مطالبات ہیں جو تیرہ جماعتیں اپنے آپ کو حقیقی اپوزیشن ثابت کرنے کے لئے سامنے لائی ہیں بلکہ عمران خان کی طرف سے صدر زرداری کے استعفےٰ، ڈاکٹر طاہر القادری کی طرف سے الیکشن کمیشن کی تشکیل نو اور ترقیاتی فنڈز کے استعمال پر پابندی کا مطالبہ بھی قابل توجہ، منطقی اور فطری ہے۔
اپوزیشن جماعتیں جو منطقکراچی میں نئی حلقہ بندیوں، گورنروں کی تبدیلی اور اعلیٰ بیورو کریٹس کے نئے سرے سے تقرر کے حوالے سے پیش کر رہی ہیں اسی منطق کا سہارا عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری لے رہے ہیں تو کسی کو اس پرا عتراض نہیں ہونا چاہئے ان مطالبات میں کوئی جوہری فرق بھی نہیں اس ضمن میں الیکشن کمیشن اور اس کے قابل احترام چیف کا کردار اہم ترین ہے۔ صدر آصف علی زرداری کے استعفےٰ کے سواباقی مطالبات کی تائید اگر اس ادارے کی طرف سے بھی ہو جو شفاف اور منصفانہ انتخابات کرانے کی ذمہ داری قبول کر چکا ہے تو موجودہ یا کوئی نگران حکومت کے لئے قبول کرنے کے سوا چارہ نہیں ۔
مگر آئین کے آرٹیکل 213(2A)کے تقاضے پورے نہ کرنے والے الیکشن کمیشن کے ارکان اور نادرا آفس میں آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کو شکل، وردی، ستاروں، پروٹوکول اور حفاظتی انتظامات سے نہ پہچاننے والے چوراسی سالہ بزرگ چیف الیکشن کمشنر ابھی تک گو مگو اور تذبذب کا شکار ہیں ورنہ عدالتی احکامات کے باوجود کراچی میں ووٹروں کی جانچ پڑتال کا عمل نیم دلی سے شروع نہ کیا جاتا، چیف صاحب نئی حلقہ بندیوں سے انکار نہ کرتے اور مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں کے جائز، قانونی اور منطقی مطالبات کے حق میں آواز بلند کرنے سے گریز کا تاثر نہ ابھرتا۔
ووٹر لسٹوں سے یاد آیا پچھلے سال کے آواخر میں منعقدہونے والے ضمنی انتخابات کے دوران یہ عقدہ کھل چکا ہے کہ سابق فہرستوں کی طرح یہ بھی اغلاط کا مجموعہ ہیں۔ ایک ٹی وی پروگرام میں مسلم لیگ (ن) کے دوہری شہرت فیم سابق رکن اسمبلی اشرف چوہان نے اعتراف کیا کہ گوجرانوالہ کے ضمنی انتخاب میں لوگ سارا سارا دن اپنے پولنگ سٹیشن کی تلاش میں مارے مارے پھرتے رہے۔ رکن پنجاب اسمبلی آمنہ الفت مسلم ٹاؤن لاہور کی رہائشی ہیں مگر انتخابی فہرست میں ان کا ووٹ مراکہ، بچوں کا ہربنس پورہ اور ایک کارکن کا سرگودھا میں درج ہوا۔ بھاگ دوڑ کرکے انہوں نے تو سینکڑوں ووٹروں کو خواری سے بچا لیا مگر ہر حلقے میں سینکڑوں نہیں ہزاروں ووٹروں کے ساتھ یہ واردات ہوچکی ہے۔ جماعت اسلامی کے رہنما محمد حسین محنتی بھی کراچی میں الیکشن کمیشن کی اس غیر ذمہ داری، بے احتیاطی، دانستہ شرارت کا انکشاف کر چکے ہیں مگر جب عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری تشکیل نو کا مطالبہ کرتے ہیں تو ماہر لوگ ان پر چڑھ دوڑتے ہیں۔
آئین، قانون، جمہوری روایات اور سیاسی اخلاقیات کا تقاضا یہ ہے کہ حکومت ضد اور ہٹ دھرمی کا رویہ چھوڑ کر معقولیت کا مظاہرہ کرے۔ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری سمیت اپوزیشن کی تمام جماعتوں کو میز پر بٹھا کر ان کے تحفظات دور کرے اور الیکشن کے شفاف، منصفانہ انعقاد کو یقینی بنانے کے لئے اقدامات میں تاخیر نہ کرے۔ محترمہ عاصمہ جہانگیر کا نام بطور نگران وزیراعظم پیش کرکے مسلم لیگ (ن) نے اپوزیشن کی بیشتر جماعتوں کے علاوہ اعلیٰ عدلیہ اور پاک فوج کو غلط اور گمراہ کن پیغام دیا ہے اور خود ہی منصفانہ انتخابات کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کئے ہیں۔ چیف جسٹس کے خلاف جتھے بندی اور آرمی چیف پر الزام تراشی کرنے والی شخصیت کو کوئی احمق ہی غیر جانبدار اور غیر متنازع نگران وزیراعظم مان سکتا ہے۔
عدلیہ اور پاک فوج کو بیک فٹ پر لاکر امیدواروں کی مناسب جانچ پڑتال، پانچ سالہ لوٹ مار کے محاسبہ و مواخذے اور ہر جماعت کو مقابلے کے لئے مناسب مواقع فراہم کئے بغیر چالیس پینتالیس دنوں میں من مرضی کے انتخابات کا منصوبہ تو تقریباً ناکام ہوچکا، اگر عمران خان، ڈاکٹر طاہر القادری اور سید منور حسن کے درمیان مفاہمتی کوششیں کامیابی سے ہمکنار ہوئیں اور ملک میں حقیقی تبدیلی کی خواہش مند قوتوں کا جاندار اتحاد وجود میں آگیا تو وقت پر منصفانہ انتخابات، امیدواروں کی جانچ پڑتال کے ذریعے احتسابی عملی اور نسبتاً صاف ستھرے لوگوں کی پارلیمینٹ کے قیام کی ضمانت مل جائے گی اور ٹیکنو کریٹس حکومت کے قیام کا منصوبہ اپنی موت آپ مر جائے گا۔
تاہم اگر دو جماعتوں نے ضد اور ہٹ دھرمی کا موجودہ رویہ برقرار رکھا، امریکی منصوبے کے مطابق اسٹیٹس کو برقرار رکھنے پر اصرار کیا، الیکشن کمیشن کے ارکان اور سربراہ بدستور ڈھلمل یقین رہے، صدر زرداری، صوبائی گورنروں کے استعفےٰ کے علاوہ الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کا مطالبہ زور پکڑتا گیا، بلوچستان کی بدامنی، کراچی کی ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کی تازہ لہر رکنے میں نہ آئی، حکمران اتحاد سرائیکی صوبے کے ذریعے مسلم لیگ (ن) کو دیوار سے لگانے کی راہ پر گامزن رہا اور مطالبات کے منظور نہ ہونے پر عمران خان اور طاہر القادری اپنے اپنے انداز میں احتجاجی مظاہروں میں جت گئے تو پھر خدا جانے کیا ہو؟ حاجی غلام احمد بلور البتہ پریشان ہیں کہ طالبان شاید انہیں انتخابی مہم نہ چلانے دیں۔ صرف حاجی صاحب نہیں کئی دوسرے بھی یہ سو چ رہے ہیں؟
آئین کی دفعات 62,63،مختلف حلقوں میں گردش کرنے والی ”چند تصویربتاں، چند حسینوں کے خطوط“ ٹیکس چوری، قرضہ معافی کی دستاویزات بھی بہت سے ارکان پارلیمینٹ اور امیدواروں کے لئے ڈراؤنا خواب ہیں۔ بدنامی سے گھر بیٹھنا بہتر۔
تازہ ترین