• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مودی سرکار کی جانب سے بھارتی مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے سراسر ناجائز فیصلے کے خلاف گزشتہ روز پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس اور کور کمانڈرز کانفرنس کی کارروائی سے یہ حقیقت پوری طرح عیاں ہوگئی ہے کہ کشمیری عوام کی جدوجہد میں ان کا آخری حد تک ساتھ دینے پر پوری پاکستانی قوم متفق ہے۔ پیش کی گئی تحریک پر پالیسی بیان دیتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ آج یہاں سے دنیا کو یہ پیغام جانا چاہئے کہ پوری قوم اس معاملے پر اکٹھی ہے اور یہ امر خوش آئند ہے کہ وزیراعظم، اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف اور پاکستان پیپلز پارٹی کے قائد بلاول بھٹو سب نے اس عزم کا اظہار کیا کہ کشمیری مسلمانوں کو تنہا نہیں چھوڑا جائے گا اور بھارت کے غاصبانہ تسلط سے آزادی کیلئے ان کی جدوجہد میں آخری حد تک ساتھ دیا جائے گا۔ وزیراعظم نے ایوان کو بتایا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے علاوہ عالمی عدالت انصاف میں جانے پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔ وزیراعظم نے واضح کیا کہ بھارت نے حملہ کیا تو پاکستان بہادر شاہ ظفر کا نہیں ٹیپو سلطان کا راستہ اختیار کرے گا۔ عمران خان نے عالمی برادری کو متنبہ کیا کہ جنوبی ایشیا کی ایٹمی طاقتوں کے درمیان جنگ ہوئی تو فتح کسی کی نہیں ہوگی بلکہ سب تباہ ہو جائیں گے لہٰذا دنیا کو بھارت کو خطے میں آگ لگانے سے روکنا ہوگا۔ قائدِ حزب اختلاف میاں شہباز شریف نے اپنے خطاب میں اس حقیقت کو اجاگر کیا کہ پاکستان تنازع کشمیر کا مسلمہ فریق ہے اس موقف سے پیچھے ہٹیں گے نہ کسی کو ہٹنے دیں گے۔ انہوں نے افغانستان میں امن کی کوششوں میں امریکہ کے ساتھ تعاون کو‘ بھارت کو من مانیوں سے باز رکھنے سے مشروط کرنے کی ضرورت کا اظہار کیا جس پر پارلیمنٹ اور حکومت کو غور کرنا چاہئے۔ ملک کی عسکری قیادت نے بھی گزشتہ روز کور کمانڈرز کانفرنس میں کشمیر سے متعلق بھارتی اقدام کو مسترد کرنے کے حکومتی فیصلے کی مکمل حمایت کرتے ہوئے کشمیری عوام کی جدوجہد میں آخری حد تک ساتھ دینے کے اعلان کیا اور واضح کیا کہ افواج پاکستان کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کیلئے ہمہ وقت پوری طرح تیار ہیں۔ ایک اور اہم پیش رفت گزشتہ روز چین کے ردعمل کی شکل میں سامنے آئی۔ چینی وزارت خارجہ کی ترجمان نے بھارتی اقدام کو اپنے ملک کی خودمختاری کیلئے خطرہ قرار دیتے ہوئے اس امر واقعی کی صراحت کی کہ کشمیر کو بھارت کا حصہ قرار دے دینے سے حقیقی صورتحال میں کوئی فرق نہیں پڑے گا اور عملاً یہ متنازع علاقہ ہی رہے گا۔ بلاشبہ یہ حقیقت کی بالکل درست ترجمانی ہے کیونکہ یہ کشمیری عوام کا نہیں بھارت کی غاصب حکومت کا فیصلہ ہے۔ او آئی سی رابطہ گروپ برائے کشمیر کا ہنگامی اجلاس اور پاکستانی وزیر خارجہ کا اس کے شرکا کو حقائق سے آگاہ کرنا اگر ستاون مسلم ملکوں کی اس تنظیم کو کسی مؤثر اقدام پر ابھارنے کا باعث بن سکے تو یہ یقیناً ایک بڑی کامیابی ہوگی۔ بھارتی عزائم کو ناکام بنانے کیلئے پاکستان کے اندر قومی اتحاد و یکجہتی کی فضا کو پروان چڑھانا بہرصورت ناگزیر ہے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ احتساب کے عمل کو مکمل طور پر متعلقہ اداروں اور عدلیہ پر چھوڑ دیا جائے اور حکومتی مداخلت کا کوئی دھبہ اس پر نہ لگنے دیا جائے تاکہ حکومت اور پارلیمنٹ اپنی اصل ذمہ داریوں پر توجہ دے سکیں۔ ملک کی مجموعی فضا اور پارلیمنٹ کے اجلاس اسی صورت میں الزام تراشیوں اور احتجاج کے ہنگاموں سے پاک ہو سکتے اور پالیسی سازی کا اصل کام انجام دے سکتے ہیں۔ پارلیمنٹ کے موجودہ اجلاس کو بھارتی اقدام کے بعد رونما ہونے والی صورتحال کا مقابلہ کرنے کی حکمت عملی وضع کرنا ہے، اس بنا پر ضروری ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں وقت کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے افہام و تفہیم سے کام لیں اور دیکھیں کہ کشمیری عوام کی جدوجہد کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کیلئے کون سے راستے اور کیا طریقے اپنائے جا سکتے ہیں اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب حکومت اور اپوزیشن دونوں اس قومی کاز کیلئے حقیقی معنوں میں پوری نیک نیتی کے ساتھ مشترکہ کوششوں کا آغاز کریں۔

تازہ ترین