• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم اور آپ تو برسوں سے ان تصوّرات میں گم رہتے تھے کہ ہماری زندگی میں ہی ایک دن ایسا آئے گا جب ہم ایک دوسرے کے دیش میں کسی پاسپورٹ، ویزا اور کسی خوف و خطر کے بغیر جب چاہیں گے گھر میں گئے اپنے پُرکھوں کی یادگاریں دیکھیں گے۔ بزرگوں کی قبروں پر فاتحہ پڑھیں گے۔ شعری نشستوں میں غزلیں سنائیں گے۔ داد وصول کریں گے۔ کہانیاں پڑھیں گے۔ تنقیدی مجلسوں میں خوب بحث مباحثہ ہوگا۔ آئندہ نسلوں کے لئے زندگی آسان کریں گے۔ محبت کی پروائی پچھمی چلے گی۔ کسی مذہب کی انتہا پسندی نہیں ہوگی۔ امن کے پھول کھلیں گے۔ پیار کی پھبن راج کرے گی۔

لیکن آپ کی اور ہماری تپسیا اکارت ہوگئی۔ آپ بڑے تھے۔ تعداد میں بھی اور لکھنے پڑھنے میں بھی۔ آپ سیکولرازم کے جھنڈے لہراتے تھے۔ آہنسا کو اپنا آدرش کہتے تھے اور فخر کرتے تھے کہ آپ کے ہاں اقتدار صرف ووٹ کی بنا پر منتقل ہوتا ہے۔ آپ کے آہنسا نے، سیکولرزم کے نشے نے جنم دیا نریندرا مودی کو۔ اور حیرت یہ کہ مودی کے انتہا پسندانہ نظریات، شدت پسندانہ اقدامات کو بھارت کے عادی جمہوریوں نے قبول بھی کر لیا اور دوسرے الیکشن میں پہلے سے بھی زیادہ بھاری مینڈیٹ دے دیا۔ گویا آپ کی اکثریت سیکولرازم سے باغی ہوگئی۔ ہندوتوا کی بانہوں میں مزے لینے لگی۔ آپ طعنے دیتے تھے کہ ہمارے ہاں جمہوریت میں تسلسل نہیں ہے، مارشل لا لگ جاتے ہیں، ہم زیادہ شدت پسند ہیں۔ لیکن ہم نے تو کبھی کسی شدت پسند مذہبی جماعت کو حکمرانی کے لئے منتخب نہیں کیا۔ یہ بھی تاریخ کے ریکارڈ میں ہے کہ بھارت سے جتنے مفاہمانہ معاہدے ہوئے وہ فوجی حکمرانوں کے دَور میں ہوئے۔ ایوب خان، ضیاء الحق، پرویز مشرف سب نے بھارت کے دورے کئے۔ مذاکرات کئے، آپ کے منتخب رہنمائوں میں سے دو تین ہی پاکستان کے دورے پر آئے۔ پاکستان پر جارحیت بھی منتخب وزرائے اعظم نے کی۔

تاریخ دیکھ رہی ہے کہ سہولتوں کے حوالے سے بھی بھارتی جنتا ابھی تاریک صدیوں میں رہ رہی ہے، جمہوریت کا پھل صرف چند ریاستوں کو ملتا ہے باقی اندھیرے میں جیون بِتا رہی ہیں۔ اور کشمیر جس پر 72سال سے غاصبانہ قبضہ جاری ہے، جہاں 7لاکھ بھارتی فوج متعین ہے وہاں تو جمہوریت کی ’’ج‘‘ بھی شروع نہیں ہوئی ہے۔

آپ کے تحریک آزادی کے رہنمائوں نے پارلیمنٹ کے ذریعے 370آرٹیکل اپنے آئین میں شامل کیا تھا۔ وہ انسانی احساسات کو جانتے تھے، انسانیت کے قدر دان تھے، کیا وہ سب بھارت دشمن تھے؟ اور صرف نریندر مودی پہلے بھارت دوست ہیں کہ انہوں نے آئین کو روند ڈالا، کشمیریوں کی خصوصی حیثیت ختم کر دی۔ پھر یہ اعلان بھی کر دیا کہ پچھلی سرکاروں کے ایسے سارے معاہدے ختم؟

آپ کا ضمیر کیا سویا ہوا ہے؟ آپ کا قلم آپ کے ذہن کا ساتھ نہیں دے رہا ۔ آپ اپنے مہاتما گاندھی کے عدم تشدد کے فلسفے کو دفن کر چکے ہیں۔ مولانا ابوالکلام آزاد کی تحریروں کو فراموش کر چکے ہیں۔ رابندر ناتھ ٹیگور کے شاہکاروں سے منہ موڑ چکے ہیں۔ پریم چند کی کہانیوں کی پامالی، نادار کردار زمین سے مٹا لئے ہیں۔ راجندر سنگھ بیدی کی میلی سی چادر کو تار تار کر چکے ہیں۔ امرتا پریتم کی ’اج آکھاں وارث شاہ نوں‘ کو ہندوتوا کی نذر کر چکے ہیں۔ کیفی اعظمی، ساحر لدھیانوی، کرشن چندر، بلراج کومل، علی سردار جعفری، ملک راج آنند، بلراج ساہنی، اب آپ کے کچھ نہیں لگتے۔ ملیالم، اوڑیہ، تلگو، بنگالی، گجراتی، پنجابی اور دوسری زبانوں میں لکھنے والے سارے بڑے بڑے ناول نگار، افسانہ نویس اب آپ کے نہیں رہے۔ ان کی عظیم تخلیقات جو کبھی آپ کے ماتھے کا جھومر ہوتی تھیں، اب سب ہندوتوا کی بھینٹ چڑھ گئیں۔

مودی کے آئیڈیل رام، کرشن نہیں ہیں۔ ہٹلر، نیتن یاہو ہیں۔ ہم سے کہیں زیادہ آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ مودی کی پالیسیاں آپ کے دیش بھارت کو کن کھائیوں اور گھاٹیوں کی طرف لے جا رہی ہیں۔ یہ کارروائی صرف مقبوضہ کشمیر ہی نہیں، پورے بھارت کا سکون غارت کردے گی۔ نفرت کی آندھیاں چلیں گی تو وہ یہ نہیں دیکھیں گی کہ کون ہندو ہے، کون سکھ اور کون مسلمان۔

مودی جی نے مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر اجاگر کر دیا ہے۔ بین الاقوامی اداروں میں چِنتا لگی ہوئی ہے کہ جنوبی ایشیا جہاں دنیا کے سب سے زیادہ انسان بستے ہیں، مودی اسے ایٹمی جنگ کے دہانے پر لے آئے ہیں۔ آپ سوچیں کہ کیا ہمارا اور آپ کا مقدر جنگی جنون ہی ہے، انتہا پسندی ہے؟ ہم اپنے ہزاروں سال کے ادبی شاہکاروں سے ناتا توڑ لیں؟ اکیسویں صدی کی آسائشیں، جدید ترین مواصلاتی ایجادیں کیا ہمارا حق نہیں ہیں؟ جدید علوم اور ماضی پر تحقیق سے کیا گوادر سے ممبئی تک زندگی آسان نہیں ہونی چاہئے؟ اپنے ضمیر کی آواز سنیں، وہ کچھ کہہ رہا ہے۔ ورنہ ہم یہ سمجھیں گے

ہند کے شاعر و صورت گرد افسانہ نویس

آہ بے چاروں کے اعصاب پہ ’مودی‘ ہے سوار

تازہ ترین