ایم ضیاء الدین صحافت میں میرے سینئر ہیں۔ وہ نہ صرف دی نیوز میں میرے ایڈیٹر رہے بلکہ ڈان اخبار میں وہ میرے بیورو چیف تھے۔چار پانچ سال ایک ساتھ کام کرنے کی وجہ سے ہم دونوں ایک دوسرے کو بہت اچھا جانتے ہیں۔ دی نیوز کے گروپ ایڈیٹر شاہین صہبائی کے ساتھ تو ضیاء صاحب نے ایک لمبا عرصہ کام کیا اس لیے اگر یہ کہا جائے کہ دونوں ایک دوسرے کی رگ رگ سے واقف ہیں تو بے جا نہ ہو گا۔گزشتہ ہفتہ ایک ٹی وی پروگرام میں ضیاء صاحب نے عاصمہ جہانگیر سے متعلق میرے اور شاہین صہبائی صاحب کے حالیہ کالموں کے حوالے سے کہا چوں کہ وہ دی نیوز میں کام کر چکے ہیں اس لیے وہ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ شاہین صہبائی یا انصار عباسی اس قسم کے کالم جنگ گروپ کے ایڈیٹر انچیف کی مرضی کے بغیر لکھتے ہیں۔ انتہائی احترام کے ساتھ میں ضیاء صاحب سے عرض کروں گا کہ اُن کا یہ الزام لغو،بے بنیاد اور خود ساختہہے جس میں سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ انہوں نے میری اور شاہین صاحب کی دیانت اور صحافتی اصولوں پر شبہ کا اظہار کیاہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اُن سے یا کسی دوسرے سے اس طرح ماضی یا حال میں میڈیا مالکان اپنی مرضی کے کالم لکھواتے رہے مگر ایسا الزام لگانے سے پہلے کم از کم وہ اتنا تو غور کر فرما لیتے کہ وہ کس کے بارے میں یہ بات کر رہے ہیں ۔ کیا ضیاء صاحب میرے ایڈیٹر اور بیورو چیف ہونے کے باوجودمجھ سے کبھی اپنی یا کسی دوسرے کی مرضی کی کوئی خبر لکھوا سکے۔ بلکہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کے دوران جب حکمران میری خبروں سے نالاں تھے تو ایک دفعہ ضیاء صاحب نے دی نیوز کے ایڈیٹر کی حیثیت سے مجھے ایک انتہائی سخت نوٹس جاری کیا اور مجھے حکمرانوں کے ایک چہیتے افسر کی ممکنہ ترقی کے بارے میں لکھنے سے منع کیا مگر اس کے باوجود میں حکومت کی بدعنوانی اور اقربا پروری کے متعلق لکھتا رہا۔ بعدازاں ضیاء صاحب نے یہ تسلیم کیا کہ انہوں نے حکومت کے دباؤ کی وجہ سے مجھے وہ نوٹس دیا تھا۔ نواز شریف کی دوسرے حکومت کے دورمیں، میں نے ڈان اخبار میں ضیاء صاحب کے ساتھ کام کیا۔ ضیاء صاحب ڈان کے بیورو چیف تھے اور ایسے کئی واقعات کے گواہ ہوں گے جب میں اپنی خبروں کے سلسلے میں اپنے ایڈیٹرز سے لڑتا رہا۔ میری خبروں سے نالاں ہو کر نواز شریف حکومت ایک مرتبہ آئی بی کے ایک ڈائریکٹر کو ضیاء صاحب کے پاس بھی بیجھا تھا، جس واقعہ کا میرا نام لیے بغیر ضیاء صاحب نے اپنے ایک کالم میں ذکر کیا جس کے نتیجہ میں پورے ملک میں ایک شور برپا ہو گیا اورضیاء صاحب کے حق میں ہر کونے سے آواز اٹھائی جانے لگی۔ اس سب کے باوجود ضیاء صاحب نے بڑی آسانی سے آج یہ الزام لگا دیا کہ میں نے اور شاہین صاحب نے عاصمہ جہانگیر کے متعلق اپنے گروپ کے ایڈیٹر انچیف کے کہنے پر لکھا کیونکہ ضیاء صاحب کے مطابق وہ جانتے ہیں کہ اس اخباری گروپ میں کیسے کام ہوتا ہے۔ ضیاء صاحب کے تجربات اپنی جگہ مگر میں جو لکھتا ہوں وہ میرے ضمیر کی آواز ہوتی ہے۔ شاہین صاحب کی رائے سے اختلاف اپنی جگہ مگر اُن کے متعلق ایسی بات کرنا انتہائی افسوس ناک ہے۔ میں نے توجنگ گروپ اور جیو کی پالیسیوں کے خلاف بار ہا لکھا اور جنگ اور دی نیوز میں لکھا۔ میرے لکھے پر جیو کو پیمرا کی طرف سے نوٹس تک موصول ہوتے رہے۔ میں نے حکومت کو لکھ کر یہ شکایت کی کہ میرے ایک کالم کو جنگ میں اس لیے نہ شائع نہیں کیا گیاکیوں کہ پاکستان براڈکاسٹرز ایسوسی ایشن اور کیبل آپریٹر ایسوسی ایشن نے مشترکہ طور پر فحاشی و عریانیت اور غیر قانونی انڈین چینلز کے متعلق مجھ پر لکھنے اور بات کرنے کی پابندی لگائی اور یہ بھی فیصلہ کیا کہ کوئی دوسرا صحافی بھی ان مسائل پر بات نہیں کر سکتا۔ اُس کالم کو میں نے انٹرنیٹ blogs کو دیا جس پر پی بی اے ، کیبل آپریٹرز ایسوسی ایشن اور جنگ گروپ کے خلاف ہر دوسرے شخص نے بات کی۔ مجھے بہت سے لوگ جنگ گروپ چھوڑنے کا مشورہ بھی دیتے ہیں مگر مجھے یہ معلوم ہے کہ جو آزادی رائے مجھے یہاں حاصل ہے وہ کسی دوسرے ادارے میں ممکن نہیں۔جنگ گروپ سے اتنے طویل عرصے کی رفاقت کے بعد بھی کبھی میرے علم میں یہ بات نہیں آئی کہ مالکان یا ایڈیٹر انچیف میں سے کوئی کبھی کسی کے بارے میں لکھواتا ہے۔ضیاء صاحب کی مہربانی ہے کہ انہوں نے کہا کہ انصار عباسی بہت ہی اچھے رپورٹر ہیں مگر اُن کو اعتراض میرے رائے پر ہے۔ اُنہوں نے اپنے حالیہ انٹرویو میں یہ بھی کہا کہ جب سے انصار عباسی نے اسلام کابیڑا اٹھایا ہے وہ ہر ایک کو پتھر مارنے کے لئے تیار رہتے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ جیسے انہوں نے اپنی زندگی میں کوئی خرابی نہیں کی۔ میں نہ تو فرشتہ ہوں اور نہ ہی میں نے کبھی نیک اور پارسا ہونے کا دعوٰی کیا ہے مگر میں محترم ضیاء صاحب سے ضرور کہوں گا کہ اگر میں نے کبھی صحافتی بددیانتی کرتے ہوئے رشوت لی، پلاٹ لیا،کسی سیاسی جماعت یا حکمران سے گٹھ جوڑ کر لیا اور پیسے کھائے تو مجھے دنیا کے سامنے بے نقاب کر دیں۔ ضیاء صاحب تو بڑے ہونے کی حیثیت سے یہ بھی اختیار رکھتے ہیں کہ وہ میری اس بات پر بھی سرزنش کریں اگر میں نے اپنی ذاتی زندگی میں کبھی شراب پی ہو یا جوا کھیلا ہو۔ اگر میرا لگاؤ میرے دین سے ہے اور اگر میری سوچ اسلامی ہے تو کیا میں صحافت نہیں کر سکتا؟ کیا صحافی کے لیے سیکولر ہونا ضروری ہے؟ کیا مجھے اپنی رائے رکھنے کا کوئی حق نہیں؟ کیامیں فحاشی کے خلاف بول یا لکھ نہیں سکتا؟ کیا میں اس لیے کچھ بڑے صحافیوں کے لیے قابل قبول نہیں رہا کیوں کہ میری رائے اُن سے مختلف ہے ؟ کیا میں نے یہ سوال اُٹھا کر جرم کیا کہ آیا عاصمہ جہانگیر وزیر اعظم بننے کے قابل ہیں اور کیا وہ آئین کی اُن شرائط کو پورا کرتی ہیں جو ایک ممبر پالیمنٹ کے لیے ضروری ہیں؟ ضیاء صاحب سے احترام کے ساتھ میرے لیے اسلام کے حوالے سے بہتر کوئی حوالہ نہیں۔ ویسے بحث کے نقطہ نظر سے بھی آئین پاکستان قرآن اور سنّت رسولﷺ کے علاوہ کسی دوسرے حوالے کو کوئی حیثیت نہیں دیتا۔ اس لیے جو بات میں کر رہا ہوں وہ نہ صرف دین کی بات ہے بلکہ آئین بھی وہی بات کرتا ہے۔ اسلام کے نفاذ کا وعدہ تو آئین پاکستان بھی کرتا ہے۔ ختم نبوّت کے منکروں کو تو آئین پاکستان بھی مسلمان نہیں مانتا۔ شراب، زنااور دوسرے گناہ کبیرہ کرنے والوں کو تو آئین پاکستان پارلیمنٹ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتا۔ قرآن اور سنّت کے مطابق پاکستانی معاشرہ کو ماحول فراہم کرنے کا وعدہ تو ہمارا آئین بھی کرتا ہے۔ عربی پڑھانے کا وعدہ تو 1973کا آئین کرتا ہے۔ اسلام کے نام پر بننے والے پاکستان کے نظریہ کا تحفظ تو آئین پاکستان کرتا ہے۔ اس لحاظ سے جو بات میں کر رہا ہوں وہ عین اسلامی، آئینی اور قانونی ہے۔ ایسے حضرات جو پاکستان کو ایک لادینی ریاست بنانے کی جدوجہد میں مصروف ہیں، وہ اپنے بارے میں فیصلہ کر لیں کہ کیا اُن کا یہ عمل اسلامی اصولوں اور آئین پاکستان کی روح کے مطابق ہے یا نہیں؟۔