• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارت نے 5؍اگست 2019کے دن پھر عالمی برادری سے ایک بار اِسی طرح کا فراڈ کیا ہے جیسا 27؍اکتوبر 1947کی صبح کیا تھا۔ اُس وقت جموں اور کشمیر کے عوام مہاراجہ کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے تھے جس نے سری نگر سے فرار ہو کر جموں میں پناہ لے لی تھی۔ بھارتی نیتاؤں نے یہ مشہور کر دیا تھا کہ راجہ ہری سنگھ کی دعوت پر وی پی کرشنا مینن 26؍اکتوبر کو دہلی سے جموں گئے جہاں مہاراجہ نے بھارت سے الحاق کی دستاویز پر دستخط کرتے ہوئے بھارت سے حالات پر قابو پانے کے لئے امداد کی درخواست کی تھی۔ اِس نام نہاد درخواست پر بھارت نے برطانوی طیاروں کے ذریعے سری نگر میں فوج اُتار دی تھی اور طاقت کے ذریعے وادیٔ کشمیر پر قبضہ جما لیا تھا۔ بھارت کی چالبازی اور دروغ گوئی کا معروف برطانوی مؤرخ الیسٹر لیمب نے اپنی کتاب Incomplete Partition میں پول کھول دیا تھا اور تاریخی شواہد سے یہ ثابت کیا کہ 26؍اکتوبر کو وی پی مینن جموں جا ہی نہیں سکے تھے اور اس روز الحاق کی کسی دستاویز پر مہاراجہ نے دستخط نہیں کیے تھے۔ فاضل مصنف کا دعویٰ ہے کہ دستخط شدہ دستاویزِ الحاق کہیں بھی موجود نہیں۔ یہی کچھ 5؍اگست کو ظہور پذیر ہوا۔ بھارتی آئین میں آرٹیکل 370کے ذریعے جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت دی گئی تھی اور شق 35-Aمیں یہ ضمانت رکھی گئی تھی کہ کشمیر میں کوئی غیر کشمیری جائیداد خرید سکے گا، ملازمت کر سکے گا نہ وہاں کی شہریت حاصل کر سکے گا۔

دنیا کو دھوکہ دینے کے لئے بھارتی حکومت نے پہلے 2018کے وسط میں مقبوضہ کشمیر میں محبوبہ مفتی کی حکومت ختم کی اور گورنر راج نافذ کر دیا۔ پھر گورنر نے آرٹیکل 370اور شق 35-Aکی تنسیخ کا مشورہ دیا اور بھارتی صدر سے حکم نامہ جاری کروایا۔ 5؍اگست کی صبح مرکزی وزیرِداخلہ امیت شاہ راجیہ سبھا گئے اور بڑی رعونت سے بل پیش کیے۔ اپوزیشن نے سخت مخالفت کی۔ غلام نبی آزاد جن کی ایک عمر کشمیر کے مسئلے پر بھارتی حکومت کا ساتھ دیتے ہوئے گزری تھی، ان کی مخالفت پر ڈٹ گئے، مگر یہ بل کثرتِ رائے سے پاس ہو گیا۔ دوسرے روز لوک سبھا نے بھی اِس کی منظوری دے دی جس کی رُو سے کشمیر کے دو حصے بخرے کر دیے گئے ہیں۔ لداخ بھارت میں ضم کر دیا گیا ہے اور وادیٔ کشمیر بھی بھارت کا حصہ ہو گی اور اِس میں غیرکشمیری بھی آباد ہو سکیں گے۔ اِس کھلے فراڈ پر مقبوضہ کشمیر کے سابق وزرائے اعلیٰ محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ چیخ اُٹھے ہیں جنہوں نے عوام کی خواہشات کے خلاف بھارتی سامراج کا ساتھ دیا تھا۔ اب اُن کی آنکھیں کھلی ہیں اور فریب کا پردہ چاک ہوا ہے۔ محبوبہ مفتی نے کہا کہ 5؍اگست بھارت میں جمہوریت کا سیاہ ترین دن تھا اور یہ راز کھلا کہ ہم نے دو قومی نظریے کے بجائے جو بھارتی سیکولرازم کا ساتھ دیا، وہ بہت بڑی غلطی تھی۔ عمر عبداللہ نے کہا کہ ایک طویل جنگ شروع ہو گئی ہے اور ہم خون کے آخری قطرے تک جبر کا مقابلہ کریں گے اور اسے ختم کر کے دم لیں گے۔

پاکستان میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس نے بھارت کے اِس غیر آئینی اور جارحانہ اقدام کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔ وزیرِاعظم عمران خان نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ہم کشمیریوں کو تنہا نہیں چھوڑیں گے اور سفارت کاری کے ذریعے سیکورٹی کونسل کے علاوہ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس پر بھی دستک دیں گے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کور کمانڈر کانفرنس کے بعد اِس عزم کا اظہار کیا ہے کہ کشمیریوں کی جدوجہدِ آزادی کے لئے آخری حد تک جائیں گے۔ آزادکشمیر کی اسمبلی نے بھارت کے یکطرفہ اقدامات مسترد کر دیے ہیں۔ چار دنوں میں کابینہ کی سیکورٹی کمیٹی کا دو بار اِجلاس ہوا۔ طے پایا کہ بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات محدود کیے جائیں گے، دو طرفہ تعلقات کا ازسرِ نو جائزہ لیا جائے گا، تجارتی روابط فوری طور پر معطل کر دیے جائیں گے۔ سیکورٹی کونسل کا اجلاس بلانے کا بھی فیصلہ ہوا ہے اور وزیرِاعظم نے ہر نوع کی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لئے فوج کو تیار رہنے کا حکم دیا ہے۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اتفاقِ رائے سے قرارداد منظور ہوئی جس میں عالمی برادری سے اپیل کی گئی کہ بھارت کو مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کے قتلِ عام اور کلسٹر بم کے استعمال سے روکے اور اُنہیں حقِ خودارادیت دلائے۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ مودی حکومت مقبوضہ کشمیر میں وہی کچھ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جو اسرائیل سالہا سال سے فلسطین کی سرزمین میں اندھی طاقت کے ذریعے کرتا آیا ہے۔

گجرات میں 2,200مسلمانوں کے قاتل نریندرمودی سے کسی خیر کی توقع نہیں۔ وہ مقبوضہ کشمیر ہڑپ کرنے کے بعد مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی ظالمانہ کوشش کرے گا جیسا کہ 1948میں جموں میں دو لاکھ مسلمان شہید کر دیے گئے اور لاکھوں پاکستان میں دھکیل دیے گئے تھے۔ کشمیری مسلمانوں کی نسل کشی کی جائے گی اور لاکھوں آزاد کشمیر کی طرف دھکیل دیے جائیں گے۔ اِس طرح ایک بہت بڑا اِنسانی المیہ وجود میں آ سکتا ہے جس سے پاکستان کے خلاف جارحیت کا امکان بڑھ جائے گا جو عالمی امن کے لئے بہت سنگین خطرہ ثابت ہو گا، چنانچہ پاکستان کو ہوش مندی اور پوری استقامت سے اپنے دفاع کے ساتھ ساتھ اپنی شہ رگ کی بھی حفاظت کرنا اور انسانیت کو بھی تباہ کُن حادثے سے محفوظ رکھنا ہو گا۔ یہ عظیم اور صبرآزما کام اِس امر کا تقاضا کرتا ہے کہ قوم کے اندر اتفاق ہو اور پارلیمنٹ کی اجتماعی دانش سے پورا پورا فائدہ اُٹھایا اور پارلیمانی ڈپلومیسی بروئے کار لائی جائے۔ یہ کسی ایک شخص، ایک جماعت، ایک ادارے یا ایک قیادت کا کام نہیں۔ اِس کے لئے وزیرِاعظم، وزیرِ خارجہ کے علاوہ پارلیمانی وفود کو بہت زیادہ فعال اور متحرک ہونا ہو گا۔ ہمیں فوری طور پر او آئی سی کا ہنگامی سربراہ اجلاس اسلام آباد میں بلانے کا جائزہ بھی لینا چاہئے۔ نریندر مودی نے جنونی حالت میں جو کچھ کیا ہے، اس نے بھارت کی تقسیم کی بنیاد رکھ دی ہے اور مقبوضہ کشمیر میں تحریکِ مزاحمت میں روح پھونک دی ہے۔ 14؍اگست کو یومِ کشمیر کے طور پر منانے کا فیصلہ بہت انقلاب آفریں ثابت ہو گا اور عالمی برادری ایٹمی جنگ کی تباہ کاریوں سے بچنے کے لئے کشمیر کے حوالے سے فعال کردار اَدا کرنے پر مجبور ہو گی۔ ہمیں سنجیدگی اور رواداری کے کلچر کو فروغ دینا ہو گا۔

تازہ ترین