• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آتش چنار اب آتش فشاں بن چکا ہے اور یہ ایسا آتش فشاں ہے جو کبھی سرد ہو گا نہ خاموش۔ بندوق کی گولی اور توپ کے گولے سے آزادی کی لہر کو دبایا جا سکتا ہے نہ لوگوں کے دلوں اور ذہنوں کو مسخر کیا جا سکتا ہے۔ کرفیو، قتل و غارت، جیلیں اور شہادتیں آزادی کے آتش فشاں کو مزید بھڑکاتی اور تحریک حریت کی رفتار تیز کرتی ہیں۔ عالمی تاریخ اس قسم کے سینکڑوں تجربات اور مہمات کی گواہ ہے اور ان کی ناکامی پر مہر تصدیق ثبت کر چکی ہے۔ اس کے باوجود جابر حکمران ان غلطیوں کو دہرانے سے باز نہیں آتے۔ ہندوستانی حکمران اور ان کے حمایتی عوامی حلقے خوش ہیں کہ انہوں نے پارلیمنٹ کے ذریعے آرٹیکل 370کو تبدیل کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی ہے۔ ظاہر ہے کہ کشمیری اس عظیم دھوکے کو کبھی قبول نہیں کریں گے۔ تحریک آزادی اب کشمیریوں کے خون میں اتر چکی ہے اور ان کا خون بھارت میں کئی قومی اور علاقائی آزادی کی تحریکوں کو تقویت عطا کرے گا۔ خالصتان کے حامیوں کا خون بھی گرم ہو گا اور وہ آزادی کی تحریکوں کو جلا بخشے گا۔

قائداعظمؒ کشمیر کا داغ دل پہ سجائے دنیا سے رخصت ہو گئے اور آج ان کی روح کشمیریوں پر ظلم و ستم کے ٹوٹتے پہاڑ دیکھ کر تڑپ رہی ہو گی۔ قائداعظم شدید علالت کے سبب زیارت میں زیر علاج تھے۔ ان کے معالج ڈاکٹر کرنل الٰہی بخش نے ایکسرے اور خون ٹیسٹوں (Tests)کے لئے لاہور کے قابل ڈاکٹروں پروفیسر ڈاکٹر محمد عالم، ڈاکٹر ریاض علی شاہ اور ڈاکٹر غلام محمد کو زیارت میں بلا رکھا تھا۔ میری ڈاکٹر عالم صاحب سے لاہور میں ایک تفصیلی ملاقات ہوئی جس میں ڈاکٹر عالم نے مجھے بتایا کہ میں زیارت میں قائداعظم کے بستر کے ساتھ کھڑا تھا۔ اتنے میں نیوز بلیٹن یعنی ریڈیو پر خبروں کا وقت ہوا تو ریڈیو کو آن کر دیا گیا۔ پہلی خبر ہی کشمیر بارے تھی کیونکہ ان دنوں ہندوستانی فوج کشمیر میں بہت زیادہ کارروائیاں کر رہی تھی۔ خبر سنتے ہی قائداعظم پر غشی کا دورہ پڑا۔ انہوں نے صرف اتنا کہا ’’آہ کشمیر‘‘ اور پھر وہ نیم بے ہوشی میں چلے گئے۔ بالآخر ستمبر 1948میں قائداعظم کشمیر کے رستے زخم کو دل پہ سجائے دنیا سے رخصت ہو گئے۔

جہاد کشمیر کے حوالے سے ہمارے لکھاری ایک واقعے یا سانحے کا اکثر ذکر کرتے ہیں لیکن پوری بات نہیں لکھتے۔ یہ درست ہے کہ جب اکتوبر 1947میں ہندوستانی افواج سری نگر اور دوسرے علاقوں پر قابض ہو کر قبائلی جہادیوں سے باقاعدہ جنگ لڑنے لگیں تو قائداعظم نے آرمی چیف جنرل گریسی کو کشمیر میں فوج بھجوانے کا حکم دیا تھا لیکن اس نے انکار کر دیا۔ یاد کیجئے اس وقت جنرل آکن لینڈ ہندوستان اور پاکستان کے سپریم کمانڈر تھے اور جنرل گریسی ان کے ماتحت تھا۔ جنرل آکن لینڈ کا کہنا تھا کہ ان حالات میں وہ جنگ کی اجازت نہیں دے سکتا لیکن اگر پھر بھی گورنر جنرل پاکستان کو فوج بھیجنے پر اصرار ہو تو پہلے تمام انگریز افسران بشمول نیوی، ایئر فورس چیف فوج سے مستعفی ہوں گے پھر پاکستانی فوج بھیجی جا سکتی ہے۔ قائداعظم اس صورتحال کے لئے تیار نہیں تھے۔ اسی دوران پاکستانی فوج کے کئی افسران چھٹی لے کر کشمیر میں جہاد کے لئے پہنچ گئے اور انہوں نے زبردست خدمات سرانجام دیں۔ ان کا ذکر شجاع نواز کی کتاب میں موجود ہے لیکن اس سانحے کا اہم موڑ یہ حقیقت ہے کہ جب ہندوستانی افواج نے پونچھ کے بارڈر اور پنجاب کی سرحد پر دبائو ڈالنا شروع کیا تو اسی جنرل گریسی نے مئی 1948میں دفاع کے لئے پاکستانی افواج کو فوری طور پر بھجوانے کا حکم جاری کیا۔ اب وہ آکن لینڈ کا ماتحت نہیں تھا۔ چنانچہ جنرل گریسی نے یہ اقدام حکومت پاکستان کے حکم کی تعمیل کے طور پر کیا۔ یہاں تک لکھ چکا ہوں تو مجھے قائداعظم کا ایک بیان یاد آ رہا ہے جو انہوں نے 11ستمبر 1945کو کشمیر کے حوالے سے جاری کیا تھا۔ ٹھیک تین برس بعد 11ستمبر 48کو ان کا انتقال ہو گیا۔ اس بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ قائداعظم کشمیر سے کس قدر لگائو رکھتے تھے اور کشمیر کے مسلمان ان کے دل کے کتنے قریب تھے۔ اس بیان کو پڑھیں تو لگتا ہے جیسے یہ بیان آج جاری کیا گیا ہے۔ ملاحظہ فرمایئے:

"Recent occurrences in Kashmir have resulted in bloodshed and ruthless measure of oppression and suppression that have been adopted by the Kashmir Govt. against the people and the press. From all accounts that I have received, there does not exist in Kashmir any freedom of thought or speech.” (11 sept 1945)

مسئلہ کشمیر کے تاریخی، قانونی اور علمی شعبوں پر نظر ڈالیں تو پتا چلتا ہے کہ ریڈکلف ایوارڈ سے لے کر 27اکتوبر 1947کے ہندوستان سے الحاق کے معاہدے (Instrument of Accession)تک کشمیریوں سے دھوکے روا رکھے گئے۔ محدود کالم تفصیلات کا متحمل نہیں ہو سکتا لیکن جو حضرات اس موضوع پر تحقیقی کتاب پڑھنا چاہیں انہیں الیسٹر لیمب کی کتاب Kashmir- A Disputed Legacyکا مطالعہ کرنا چاہئے۔ لیمب نے تحقیق سے ثابت کیا ہے کہ ہندوستان سے الحاق کرنے سے قبل ہی ہندوستانی افواج ’’پلشیا‘‘ کشمیر میں پہنچ چکی تھیں اور جب لارڈ مائونٹ بیٹن کی مساعی سے کشمیر کے مہاراجہ نے معاہدے پر دستخط کر دیئے تو ہندوستانی افواج کو جہازوں کے ذریعے سری نگر کے ہوائی اڈے پر اتارا گیا۔ الحاقی معاہدے کے لئے کوششیں جاری تھیں تو شیخ عبداللہ پنڈت نہرو کے گھر میں ٹھہرے ہوئے تھے اور مائونٹ بیٹن خود ہوائی اڈے پر جا کر افواج کی رخصتی کی نگرانی کر رہا تھا۔

کشمیریوں سے دھوکے، فراڈ اور ظلم و ستم کی کہانی طویل ہے لیکن تاریخ عالم گواہ ہے کہ قربانیاں ایک نہ ایک دن ضرور رنگ لاتی ہیں اور ظلم کے اندھیرے چھٹ جاتے ہیں۔ موجودہ دنیا معاشی اور فوجی طاقتوروں کی دنیا ہے اور اسی قوت سے فائدہ اٹھا کر مودی نے اتنا بڑا اقدام کیا ہے۔ سید علی گیلانی کی اپیل ایک مسلمان مجاہد کا انتباہ ہے لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ مسلمان ملت کا تصور محض ایک خواب ہے اور مسلمان ممالک اپنے اپنے مفادات کے اسیر ہیں۔ ان سے ہندوستان کے خلاف کسی اجتماعی اقدام کی توقع محض فریب نظر ہے۔ اقوام متحدہ دیگر عالمی ادارے اور عالمی رائے عامہ نہ اسرائیل کا راستہ روک سکی ہے نہ مودی کا راستہ روک سکیں گی۔ پاکستان نے ڈٹ کر بہادرانہ موقف اپنایا ہے لیکن بالآخر کشمیریوں کی اپنی جدوجہد، قربانیوں اور خون ہی سے صبح آزادی طلوع ہو گی۔ سفر طویل ہے لیکن انجام بخیر۔ ان شاء اللہ۔

تازہ ترین