• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن


پینٹاگون کے قریب ایک فائیو اسٹار ہوٹل کی بالائی منزل سے یہ خاکسار مخاطب ہے۔ کل سے میری واشنگٹن ڈی سی میں تین روزہ مصروفیات شروع ہو جائیں گی، ایک کے بعد دوسری اور پھر تیسری میٹنگ، اس لئے سوچا کہ میراتھن میٹنگز سے پہلے کچھ خیالات آپ کی خدمت میں پیش کروں۔ آج شام واشنگٹن میں مجھ سے سب سے اہم سوال یہ کیا گیا کہ آپ نے سال کے آغاز میں لکھا کہ یہ سال کشمیر کی آزادی کا ہے، اب آپ اس پر کیوں نہیں کچھ لکھ رہے؟ میری ان سے پہلی گزارش یہ تھی کہ ہاں اس سال کشمیر آزاد ہو جائے گا مگر فی الحال پاکستانی میڈیا اور سوشل میڈیا کا مزاج دیکھ رہا ہوں۔ جس کا جو جی چاہتا ہے، لکھ رہا ہے، تبصرے کر رہا ہے مگر میں آپ کو امریکہ کے صدارتی الیکشن کی مثال دیتا ہوں، اس خاکسار نے الیکشن سے چھ آٹھ مہینے پہلے لکھا تھا کہ ٹرمپ الیکشن جیت جائے گا پھر پورا امریکی، برطانوی اور پاکستانی میڈیا بتانے لگا کہ ہیلری جیت جائے گی مگر الیکشن کے روز میں نے پھر لکھا کہ آج امریکی الیکشن میں ٹرمپ جیت جائے گا، ہیلری ہار جائے گی، میری بات کو مذاق سمجھا گیا، پھر ایسا ہوا کہ ٹرمپ امریکی صدر بن گیا۔بالکل امریکی الیکشن کی طرح میں نے وقت سے پہلے لکھ دیا ہے کہ یہ سال کشمیر کی آزادی کا سال ہے۔ حالیہ کشیدگی میں کشمیری قیادت کے موقف کے علاوہ پاکستان اور بھارت کی حکومتوں کے خیالات کو جانچنا بڑا ضروری ہے۔ عمران خان نے بہت اچھی تقریر کی ہے، بھارت میں مختلف آراء سامنے آ رہی ہیں، اقوام متحدہ میں ڈاکٹر ملیحہ لودھی اپنی صلاحیتوں کا جادو جگا رہی ہیں۔ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان نے سفارتی محاذ پر محض ایک سال میں بھارت کو دھول چٹوا دی ہے۔ ہندوستان تنہائی کا شکار ہے جب کسی کو کچھ نظر نہ آئے تو وہ خودکشی کرتا ہے۔ بھارت نے اپنے آئین میں سے آرٹیکل 370اور 35اے ختم کر کے خودکشی کی ہے۔ پیپلز پارٹی آزاد کشمیر کے صدر چوہدری لطیف اکبر کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ ’’مودی حکومت نے یہ اقدام کر کے اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی ہے۔ یہی وہ آرٹیکل تھے جن کی وجہ سے جموں و کشمیر کے ساتھ بھارت کا مشروط تعلق تھا، اب انڈیا کا مشروط تعلق بھی ختم ہو گیا ہے‘‘۔ بھارت میں سپریم کورٹ کی وکیل مانی تھیلے وجے کمار کا کہنا ہے کہ آرٹیکل 370کو صدارتی حکم سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ ایک کانگریسی ممبر کا کہنا ہے کہ یہ کھیل انڈیا کو توڑ رہا ہے۔ بھارتی سیاستدان ششی تھرور کا کہنا بجا ہے کہ بھارت کے بنیادی آئین کو مسترد کیا جا رہا ہے۔ جموں ہائی کورٹ کا فیصلہ ہے کہ کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے۔ اس وقت مقبوضہ کشمیر میں ظلم ہو رہا ہے، کٹھ پتلی سیاستدان بھی تڑپ اٹھے ہیں۔ جواہر لعل نہرو نے دو جنوری 1952کو کلکتہ کے امریتا بازار میں کہا تھا کہ ’’کشمیر انڈیا یا پاکستان کسی کی پراپرٹی نہیں، ہم اس ایشو کو اقوام متحدہ لے کر گئے تاکہ اس کا کوئی پُرامن حل ہو اور یہ حل کشمیریوں کی مرضی کے مطابق ہو، ہم کشمیریوں کے فیصلے کا ایک مہذب قوم کے طور پر احترام کریں گے‘‘، ایک اہم موقف بزرگ حریت رہنما سید علی گیلانی کا سامنے آیا ہے، انہوں نے کہا ہے کہ ’’اگر آپ سب یونہی خاموش رہے اور ہم سب مار دیئے گئے تو اللہ کے حضور آپ سب کو جوابدہ ہونا پڑے گا کیونکہ بھارت انسانی تاریخ کی سب سے بڑی نسل کشی شروع کرنے جا رہا ہے، اللہ ہمیں اپنی پناہ میں رکھے‘‘۔ گزارش ہے کہ اگر امت محمدیہ اپنی زندگیوں میں، اپنے فیصلوں میں درس محمدﷺ کی پیروی کرتی تو اس طرح رسوا نہ ہوتی۔ اگر مسلمانوں کو اپنے بہن بھائی عزیز ہوتے تو عرب ملکوں میں لاکھوں ہندو کام نہ کرتے، اگر کشمیریوں سے محبت ہوتی تو عرب میں مندر نہ بنوائے جاتے، انہیں روز حشر کی فکر ہوتی تو ایسے ہوتا؟

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہو گا کیا؟ جب بھارت نے خصوصی حیثیت کو ختم کر کے فوج میں اضافہ کر دیا ہے، ظلم کو مزید بڑھا دیا ہے، بس اب بھارت خود ہی پلوامہ کی طرز پر ایک واقعہ کروائے گا، اسے بنیاد بنا کر ظلم میں اضافے کے ساتھ کنٹرول لائن سے حملہ کرے گا، پاکستانی فوج اس کا بھرپور جواب دے گی، خون خرابہ ہو گا۔ بھارت کا نقصان بہت ہو گا، طالبان کشمیریوں کی مدد کیلئے پہنچیں گے، بھارتی فوج پہلے بہت ظلم کرے گی پھر جنگ ہوگی اور کشمیر آزاد ہوگا، کوئی کشمیر کا سودا نہیں کر سکتا، اس دھرتی پر شہیدوں کا لہو ہے۔ امریکہ صرف افغانستان کا حل چاہتا ہے، اسے کشمیر سے کوئی دلچسپی نہیں، پاک بھارت جنگ میں امریکی ہمدردیاں بھارت کے ساتھ ہوں گے، یہ جنگ نومبر کے اختتام سے پہلے ہو جائے گی، عرب ملک ہماری مدد نہیں کریں گے۔ ایک عرب ملک میں تو اسرائیلی اڈے بھی ہیں اگر عربوں کو اتنی فکر ہوتی تو فلسطینی اس حال میں ہوتے؟ ان کے مفادات بھارت سے ہیں کشمیریوں سے نہیں، چین پاکستان کی تھوڑی بہت مدد کرے گا کیونکہ وہ نہیں چاہتا کہ ہماچل پردیش کے ساتھ کشمیر میں مستقل مشکلات ہوں، اس کھیل میں امریکہ نے اسرائیل کو آگے کر رکھا ہے۔ اس وقت بھی سری نگر اور پٹھان کوٹ کے ہوائی اڈوں پر اسرائیلی جنگی جہاز کھڑے ہیں مگر پاکستانی پائلٹوں کی صلاحیتوں سے خائف ہیں، ترکی ہماری مدد کر سکتا ہے۔ اس جنگ کے نتیجے میں بھارت کے بعض حصے الگ بھی ہو سکتے ہیں۔ کشمیر اور مشرقی پنجاب کی سول آبادی بھارتی فوج کا ساتھ نہیں دے گی بلکہ بھارتی فوج میں شامل سکھوں کو بھی شک کی نگاہوں کا سامنا ہے۔ حوصلہ رکھیے، اللہ ہماری مدد کرے گا، ہم ساری بھارتی فوج کو ابھی نندن بنا دیں گے۔ بس ایک جنگ ہو گی اور کشمیر آزاد ہو جائے گا۔ بقول اقبالؒ ؎

جس خاک کے خمیر میں ہے آتش چنار

ممکن نہیں کہ سرد ہو وہ خاکِ ارجمند

تازہ ترین