• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انتخابات سے چند ماہ قبل پاکستان کے سیاسی منظر نامے پرنگران حکومتوں کی صورت میں ایک نیا کردار جلوہ گر ہوگا، اس نگران حکومت کے قومی اور صوبائی سطح پر تشکیل دیئے جانے کا مسئلہ ویسے تو پارلیمنٹ کی جانب سے پاس کئے جانے والے طریقہ کار کے بعد بہت اچھی طرح سے واضح ہو گیا تھا اور مجھ جیسے جمہوریت پسند شخص کے لئے بھی یہ ایک خوشی کی خبر تھی۔ اپنی ساری زندگی میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے انتخابات کے دوران ہونے والی سرکاری مشینری کے استعمال کا دکھڑا سنتا رہا تھا، اسی لئے حکومت اور اپوزیشن کے اتفاق سے قائم ہونے والی نگران حکومت میرے لئے اس امر کا اعلان تھی کہ اب مستقبل میں ہونے والے انتخابات کافی حد تک کھلے اور شفاف ہو جائیں گے لیکن میں نہ جانے یہ کیوں بھول جاتا ہوں کہ یہ پاکستان ہے، جہاں ہم قدم آگے اٹھانے کے بعد چار قدم پیچھے چل پڑتے ہیں۔ اب لگتا ہے کہ شایدہی نگران حکومت پر اتفاق کی بیل منڈھے چڑھ پائے۔حکومت اور اپوزیشن کی مشاورت کوبہت سے طاقتور حلقے اور پارلیمنٹ سے باہر بیٹھی سیاسی جماعتیں مک مکا کہہ رہی ہیں۔ کچھ لوگ تو اس نگران حکومت والے مسئلے میں افواج پاکستان اور عدلیہ کا بھی کردار دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کے خیال میں عدلیہ اور فوج کو سٹیک ہولڈر بنا کر نگران حکومتوں کے حوالے سے فیصلے کئے جائیں تب ہی نگران حکومت کے قیام کا مقصد حل ہو سکتا ہے ۔ ان سیاسی جماعتوں کے جمہوری رویوں پر کیا تبصرہ کیا جائے جو خود فوج اور عدلیہ کو مداخلت کی دعوت کی دے رہی ہیں۔ مگر آخر کار یہ نگران حکومت ہے کیا بلا کہ ایک حلقہ نگرانوں کی بھی نگرانی کا حق استعمال کرنا چاہتا ہے ؟
نگران حکومتوں کا تصور شاید ہمارے جیسے معاشروں کے لئے ہی بنایا گیا ہے کیونکہ مغربی طرز جمہوریت میں اس کی مثال شاذونادر ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ امریکہ یا برطانیہ کے جمہوری نظام میں انتخابات سے قبل کسی نگران حکومت کا کوئی تصور موجود نہیں ہے۔ اسی طرح یورپ کے بیشتر ممالک میں بھی ایسی کوئی مثال موجود نہیں ہے۔ الیکشن سے پہلے قائم کی جانے والی نگران حکومتوں کے قیام کی وجہ ہی شاید مغربی ممالک میں اس کی غیر موجودگی کی سب سے بڑی وجہ ہے ۔کسی بھی سیاسی حکومت کے خاتمے اور انتخابات کے نتائج کے بعد وجودمیں آنے والی اسمبلی سے پہلے امورِسرکار کی ادائیگی کے لئے قائم کی جانے والی حکومت نگران حکومت کہلاتی ہے۔ اس دورانیے میں بنائی جانے والی حکومت میں شریک افراد آنے والے انتخابات میں حصہ لینے کے اہل نہیں ہوتے اور عموماََ غیر سیاسی افراد ہوتے ہیں جو الیکشن کے بعد سیاست سے کنارا کش ہو جاتے ہیں۔ ان افراد کو حکومت سونپنے کے مقاصدمختلف ہوتے ہیں۔ ایک مقصد یہ ہوتا ہے کہ ملک کو چلانے کے لئے ہر وقت ایک وزیر اعظم اور اس کی کابینہ موجود ہو تاکہ روزبروز کے امور ِسرکار کو نبٹایا جاسکے۔ آپ اس کو ایک کمپنی کی صورت میں بھی دیکھ سکتے ہیں جسے امور چلانے کے لئے ہر وقت سی ای او اور مینجمنٹ بورڈ کی ضرورت رہتی ہے۔ نگران حکومتوں کے ذمہ ایک اور اہم کام الیکشن کا بروقت اور شفاف انعقاد ممکن بنانا بھی ہوتا ہے۔ پاکستان میں نگران حکومت کے لئے یہ مدت ساٹھ دن ہے۔ نگران حکومتوں کی ضرورت پاکستان جیسے ملک میں اس لئے پیش آتی ہے کہ ہمارے ہاں حکومتی جماعت کے ہوتے ہوئے انتخابات میں کسی اور کی کامیابی بہت مشکل تصور ہوتی ہے۔عام انتخابات کے بعد ہونے والے بہت سے ضمنی انتخابات کے نتائج اسی جماعت کے حق میں آتے ہیں جو اس وقت اقتدار میں موجود ہو ، اسی وجہ سے حکومت کے خاتمے کے بعد انتخابات کے انعقاد کے لئے نگران وزیر اعظم اور وزیراعلیٰ کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے سیاسی نظام نے ابھی اتنی ترقی نہیں کی حکومتوں کی موجودگی میں شفاف انتخابات کروائے جا سکیں۔ پاکستان میں آج کل جو مطالبات کئے جا رہے ہیں شایدوہ پھر سے اسی بنگلہ دیش ماڈل کا کوئی سبق ہے جس کے بارے میں ہم کئی سالوں سے سن رہے ہیں۔ بنگلہ دیش میں نگران حکومتیں عدلیہ اور افواج کی مدد سے نہ صرف انتخابات کے انعقاد کا اہتمام کرتی ہیں بلکہ سیاسی نظام کو کرپشن سے پاک کرنے کا نیک کارنامہ بھی سرانجام دیتی ہیں۔ یہی نہیں ،انتخابی اصلاحات کا بیڑا بھی بنگلہ دیش میں نگران حکومتوں نے اٹھا لیا تھا۔گو بنگلہ دیش میں کیئرٹیکر ماڈل پہلی بار 1990 میں استعمال کیا گیا تھا جب سیاسی جماعتوں نے مل کر جنرل ارشاد کے استعفیٰ کے بعد چیف جسٹس شہاب الدین احمد کوکیئرٹیکر (بنگلہ دیش میں اسے کیئرٹیکر پرائم منسٹر کی بجائے چیف ایڈوائزر کہا جاتا ہے جو صدر کو جوابدہ ہوتا ہے) بنایا گیا ۔ اس کے بعد 1996، 2001، 2006 اور 2008 میں بھی بنگلہ دیش میں کیئرٹیکر حکومتیں بنائی گئیں۔ ان میں سے آخری بار 2006میں بننے والی حکومت تقریباََدو سال کے عرصہ تک مختلف طرح سے بنگلہ دیش میں انتخابی اصلاحات کے ذریعے ”کرپٹ سیاستدانوں“ کا راستے روکنے کی کوشش کرتی رہی۔ لیکن آخر کار جب 2008میں الیکشن ہوئے تو بنگلہ دیش کے عوام نے پھر سے نہ صرف پرانی پارٹیوں بلکہ انہی پرانے افراد کو ووٹ دے کر منتخب کر لیا۔ بنگلہ دیش میں بننے والے نگران حکومتیں عمومی نگران حکومتوں سے اس لئے بھی مختلف ہوتی ہیں کہ وہاں یہ نگران افراد کا گروہ پالیسی لیول پر بھی فیصلے کرتا ہے جو کہ ایک نہایت غیر جمہوری طریقہ ہے۔ دو اور تین سال کی نگران حکومتوں کو پاکستان میں متعارف کروانے کے شوقین حضرات نا جانے اس ماڈل کی ناکامی سے سبق سیکھنے کو کیوں تیار نہیں۔
جب جمہوریت کا عمل مضبوط ہو تو پھرانتخابات میں حکومتی اثرورسوخ کا استعمال نا ممکن ہو جاتا ہے۔ امریکہ کے صدراتی انتخابات کی مثال کو ہی لیجئے،امریکہ کے صدر کو دنیا کا طاقتور ترین صدر تصور کیا جاتا ہے ۔یہی صدر صدراتی انتخابات کے دوران صدر ہوتے ہوئے اپنے مدمخالف سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ اگر یہ پاکستان میں ہوتا تو شاید مدمقابل کو گھر سے نکلنے کی اجازت ہی نہ ملتی۔ لیکن امریکہ میں ایسا نہیں ہوتا۔ وہاں کا صدر انتخابات کے وقت اپنی صدارتی طاقت استعمال نہیں کرتا اور نہ ہی کر سکتا ہے۔ اسی لئے امریکہ میں نگران حکومت کا کوئی تصور نہیں ہے۔ امریکہ میں ہر وقت ایک جمہوری صدر موجود رہتا ہے کیونکہ جمہوریت کا مطلب ہی عوام کی حکمرانی ہے،نہ کہ کسی ٹائی سوٹ میں ملبوس ، انگریزی بولتے ٹیکنوکریٹ کی… جو چند سال اقتدار کے مزے لوٹ کر بریف کیس اٹھا کر” پُھر“ہوجائے گا۔ان غیرجمہوری رویے کے حامل سیاسی راہنماؤں اور دانشوروں سے میرا سوال ہے کہ کیااس سے قبل پاکستان میں ایسے نگران جن کو فوج کی پشت پناہی بھی حاصل تھی اور اس وقت کی عدلیہ کی حمایت بھی کیا ساٹھ دنوں میں ایسی سیاسی قیادت کو لانے میں کامیاب ہو گئے تھے جو باسٹھ تریسٹھ پر پوری اترتی؟ ان نگرانوں کے نام تو کسی بھی لالچی ،کرپٹ ، بدعنوان اور مک مکا کرنے والے سیاسی راہنماؤں نے تجویز نہیں کئے تھے۔ کیا ماضی میں چار مرتبہ بد امنی کے ذمہ دار ، لوٹ کھسوٹ ،چوری چکاری، اداروں کو تباہ کرنے ، ملک کو بد ترین معاشی حالات کی نظر کرنے والوں، فرنٹ مین رکھ کر لین دین کرنے، زمینوں پر قابض اور سرکاری سودوں سے اربوں روپے کمانے والوں سے نجات کے لئے جس طرح پاکستان کے نظام میں مداخلت کی گئی، کیا ہم اس کے نتائج سے بخوبی آگاہ نہیں؟ ہم یہ حقیقت تسلیم کرنے سے کیوں بھاگتے ہیں کہ پاکستان کے تمام مسائل کا حل صرف اور صرف عوام کی پرچی اور بیلٹ میں ہے اور کسی قسم کی انتظامی برچھی یا بلٹ مسائل کو مزید بگاڑ تو سکتی ہے مگر ہماری تاریخ گواہ ہے … حل نہیں کر سکتی ۔
تازہ ترین