• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں محمد نوازشریف سے میں نے ایک گزارش کرنا ہے اور کچھ باتیں عمران خاں سے بھی، مگر میں یہ کالم کے آخر میں کروں گا۔ دراصل میں نے پیر و مرشد علامہ طاہر القادری کے حوالے سے کچھ گزارشات پیش کرنی ہیں اور یہ سوئے ادب ہو گا، اگر ان سے پہلے میں کسی اور کی بات کروں!
سو معاملہ کچھ یوں ہے کہ پیر و مرشد سے میری ارادت دن بہ دن کمزور سے کمزور تر ہوتی چلی جا رہی ہے جس کی مجھے سخت تشویش ہے۔ میں ان کی خطابت کا عاشق ہوں۔ وہ جب تقریر کرتے ہیں تو سمندر کی مچھلیاں ان کی تقریر سننے کے لئے سطح آب پر آ جاتی ہیں۔ یقین نہ آئے تو منہاج القرآن ناروے کے دوستوں سے پوچھ لیں۔ وہ آپ کو بتائیں گے کہ اوسلو میں لب ساحل علامہ صاحب کی تقریر کے دوران مچھلیاں کس طرح بے تاب ہو کر سطح آب پر آ گئیں بلکہ بعض مچھلیاں تو جذبات میں آ کر پانی سے باہر بھی آنا چاہتی تھیں لیکن علامہ صاحب نے انہیں بمشکل اس نادانی سے باز رکھا۔ خود میں نے جب اسلام آباد کے دھرنے کے دوران علامہ صاحب کا خطاب سنا تو میں جذبات پر قابو نہ پا سکا، اور میرا جی چاہا کہ پیشتر اس کے کہ اس شہر میں پڑنے والی بلا کی سردی میں میرے جذبات بھی سرد ہو جائیں، میں کنٹینر میں داخل ہو کر انہیں ان کے خطاب کی داد دوں، لیکن اس بلٹ پروف کنٹینر کے محافظوں نے مجھے اندر داخل نہیں ہونے دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ صرف علامہ صاحب اور ان کے اہل خانہ ہی کے لئے ہے۔ دوسرے ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ تم دراصل سردی سے بچنے کے لئے یہ سب ڈرامہ کر رہے ہو، لاحول ولا، سچی بات یہ ہے کہ اس روز پہلی دفعہ علامہ صاحب کی طرف سے میرا دل کھٹا ہوا۔ کشتی نوح میں حضرت نوح کے اہل ایمان عزیز و اقرباء کے علاوہ دیگر اہل ایمان کو بھی طوفان سے بچنے کے لئے پناہ دی گئی تھی لیکن اسلام آباد میں سب ”اہل ایمان اپنے بیوی بچوں سمیت سرد موسم کے تھپیڑے کھاتے رہے اور اگر کسی کو کشتی میں پناہ ملی تو وہ صرف علامہ صاحب کی اپنی فیملی ہی تھی“۔
علامہ صاحب کی ارادت میں کمی کی دوسری وجہ وہ وسوسہ ہے جو میرے ایک دوست نے میرے دل میں ڈالا ہے دوست کا کہنا ہے کہ علامہ صاحب کے بقول ان کے والد گرامی بہت بڑے شاعر تھے اور ان کے بیسیوں شعری مجموعے شائع ہوئے۔ بیسیوں سے مراد اگر صرف دو بیس بھی لے لیں تو یہ چالیس مجموعے بنتے ہیں۔ علامہ صاحب اگر غلط بیانی سے کام نہیں لے رہے تو چالیس چھوڑیں، اپنے والد کا صرف ایک شعری مجموعہ ہی دکھا دیں۔ میرے دوست کا کہنا ہے کہ علامہ صاحب نے اپنے والد کے بارے میں یہ بھی لکھا ہے کہ وہ بہت بڑے طبیب تھے۔ انہوں نے سعودی عرب کے بادشاہ کا علاج کیا جس پر بادشاہ نے انہیں سند فضیلت عطا کی۔ دوست کا مطالبہ ہے کہ علامہ صاحب وہ سند فضیلت دکھا دیں یا اس کا کوئی ایک گواہ پیش کر دیں۔ تیسری بات میرا دوست یہ کہتا ہے کہ علامہ صاحب نے اپنے والد گرامی کو ایک بہت بڑا ولی اللہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کا مرتبہ حضرت معین الدین چشتی اور حضرت داتا گنج بخش کے برابر تھا۔ میرا دوست اس دعوے پر خصوصاً بہت تلملاتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر علامہ صاحب یہاں بھی غلط بیانی سے کام نہیں لے رہے تو آخر اس وسیع و عریض دنیا میں پھیلی ہوئی خلق خدا میں سے کسی ایک کو بھی ان سے فیض رسائی توکجا، ان کی اولیائی کی جھلک تک کیوں نہ دکھائی دی؟ میرا دوست ان باتوں سے نتیجہ یہ نکالتا ہے کہ علامہ صاحب صادق اور امین نہیں ہیں اور مجھے مشورہ دیتا ہے کہ ان کے پیچھے چل کر اپنی عاقبت خراب نہ کرو!
میرے اس دوست نے ایک اور وہم بھی میرے دل میں ڈالا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ علامہ صاحب جب کسی فوٹو سیشن میں نظر آئیں تو ان کی تصویر کو جامد کرکے دیکھو اور ان کے چہرے کا بغور مطالعہ کرو۔ تمہیں ان کے روشن چہرے کے پیچھے ان کا اندرون نظر آئے گا چنانچہ جب علامہ صاحب اپنے سیاسی ساتھیوں مخدوم جاوید ہاشمی اور مخدوم شاہ محمود قریشی کے ساتھ ملائمت بھری گفتگو کر رہے تھے یا جب یزیدوں کو اپنے کنٹینر میں جھپیاں ڈال رہے تھے تو میں نے اپنے دوست کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے ان کے چہرے کے پیچھے چھپے چہرے کو دیکھنے کی کوشش کی اور میں لرز کر رہ گیا، تاہم ان باتوں سے فی الحال میرا ”ایمان“ متزلزل ہوا ہے۔ میں ”منکر“ نہیں ہوا کیونکہ انسان اگر کسی گڑھے میں بھی گرا ہو تو اسے اس میں سے باہر نکلنے میں کچھ دیر لگتی ہے، یہاں تو معاملہ عقیدت کا ہے!
علامہ صاحب کے اس ذکر خیر کے بعد بلکہ اس کی برکت سے میرے لئے عمران خان سے بات کرنا آسان ہو گیا ہے پہلے میں انہیں مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے علامہ صاحب جیسے صاحب کردار شخص کے ساتھ مل کر معاشرے سے جھوٹ اور لوٹ کھسوٹ ختم کرنے کا راستہ اختیار کیا ہے اس کا سب سے بڑا فائدہ انہیں یہ ہو گا کہ ان پر پارٹی میں وڈیروں اور لٹیروں کو لینے کے حوالے سے جو تنقید ہو رہی تھی، اس میں علامہ صاحب کی رفاقت کی بدولت کمی واقع ہو جائے گی کیونکہ اگر ”حُسینی قافلہ“ یزیدوں سے ہاتھ ملا سکتا ہے تو عمران خان تو ویسے ہی ایک گنہگار مسلمان ہیں، ان پر متذکرہ اعتراض کی اب کہاں گنجائش رہے گی؟ میں کوئی سیاسی نجومی نہیں ہوں، تاہم میرا ایک اندازہ یہ بھی ہے کہ عمران خان، علامہ صاحب کی ”یک رکنی“ سیاسی جماعت کے علاوہ ابھی ان دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ بھی واضح یا ڈھکے چھپے انداز میں شیر و شکر ہوں گے، جنہیں انتخابات میں سو فیصد ہار یقینی لگ رہی ہے، اور اس حوالے سے یہ ضروری تھا کہ الیکشن کمیشن کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ منفی پراپیگنڈہ کیا جائے تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے، عمران خاں اور ان کے کئی پڑھے لکھے رفقاء اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں کہ الیکشن کمیشن آئین کی رو سے نہ تو تحلیل کیا جا سکتا ہے اور نہ الیکشن شیڈول کے اعلان سے قبل یہ کمیشن وہ ذمہ داریاں پوری کر سکتا ہے جو اسے تفویض کی گئی ہیں، مگر اس کے باوجود علامہ صاحب قاف لیگ، پرویز مشرف اور دیگر اسٹیک ہولڈرز، کے ساتھ مل کر جتنا رولا لپا ڈالا جائے گا ہارنے کی صورت میں اتنا ہی مفید ہو گا۔ سو میری تمام تر نیک تمنائیں عمران خاں اور ان کے صادق و امین ساتھیوں کے ساتھ ہیں!
اور اب آخر میں مجھے ایک مشورہ مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف کو دینا ہے اور وہ یہ کہ وہ عوام کو سختی سے منع کریں کہ اگر کوئی ادارہ سیاسی جماعتوں کی مقبولیت کے حوالے سے سروے کے لئے ان کی رائے لینے ان کے پاس آئے تو وہ مسلم لیگ (ن) کے بارے میں مثبت کی بجائے منفی رائے کا اظہار کریں۔ اسی طرح میاں صاحب کو چاہئے کہ وہ اکانومسٹ لندن کے نام ایک احتجاجی خط لکھیں جس کے سابقہ شمارے میں اس توقع کا اظہار کیا گیا ہے کہ انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت کی سربراہی مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف کریں گے اور یہ کہ پاکستان میں ایک سنہری دور شروع ہونے والا ہے، میرے اس مشورے پر عمل انتہائی ضروری ہے، ورنہ اسٹیبلشمنٹ کئی طاہر القادری مزید سامنے لائے گی تاکہ آپ کے گرد گھیرا تنگ سے تنگ تر کیا جا سکے، آپ اسٹیبلشمنٹ کو اس خوش گمانی میں مبتلا کر دیں کہ آپ یہ الیکشن جیتنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، ورنہ نت نئی چمگادڑیں آپ کے گرد چکر کاٹتی رہیں گی، امید ہے کہ آپ میرے اس تھوڑے لکھے کو ”بوتا“ سمجھیں گے اور پاکستانی عوام کے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے میرے مشورے پر عمل کریں گے۔ وما علینا الالبلاغ۔
تازہ ترین