• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سچی بات یہ ہے کہ میں روحانی موضوعات پر لکھنے کا اہل نہیں لیکن کبھی کبھار مہربانوں کا اصرار خامہ فرسائی پر مجبور کردیتا ہے۔ مرشد ایک ایسا لفظ ہے جو ہمارے معاشرے میں اس قدر معروف ہے کہ اس کی وضاحت کی ضرورت نہیں۔ مرشد صرف روحانی راہنما ہی نہیں ہوتا بلکہ روحانی تربیت بھی کرتا ہے اس لئے مرشد میں ان دونوں صلاحیتوں کا ہونا ضروری ہوتا ہے کہ وہ راہنمائی بھی کرے اور ساتھ ساتھ تربیت بھی۔ گویا مرشد ایک طرح کا وسیلہ ہوتا ہے ورنہ تو ہر شے منجانب اللہ ہے اور وہ جیسے چاہتا ہے دیتا ہے۔ شیخ ذوالفقار احمد نے اپنی کتاب تصوف و سلوک میں اس کی یوں وضاحت کی ہے”مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں جہاد کرے“۔”مرشد عالم حضرت خواجہ غلام حبیب  اپنے بیانات میں اس آیت کے تحت فرماتے تھے آسمان سے بارش کون برساتا ہے؟ اللہ مگر بادل وسیلہ بن جاتا ہے، اولاد کون دیتا ہے؟ اللہ ،مگر ماں باپ وسیلہ بن جاتے ہیں۔ دل میں ا نوارات کون ڈالتا ہے؟ اللہ مگر پیرومرشد اس کا وسیلہ بن جاتا ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا”اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو“ صفحہ (36)۔
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ مرشد کا سچا اور کامل مرشد ہونا ضروری ہے اور اس کی پہچان کرنے میں زیادہ محنت نہیں لگتی اگر انسان کے دل میں لگن سچی ہو، بدقسمتی سے ہمارے ملک میں روحانیت کے نام پر اور پیری مریدی کے حوالے سے لوگوں نے دکانیں کھول رکھی ہیں اسی طرح جس طرح زندگی کے باقی شعبوں میں شعبدہ بازی، دھوکہ بازی اور ملاوٹ کا سلسلہ جاری ہے۔ اس لئے اس راہ میں احتیاط پہلا قدم ہے اور یہ ایسی راہ ہے جہاں قدم قدم پر قلب انسان کی راہنمائی کرتا ہے اگر وہ صحیح معنوں میں اپنے رب سے راہنمائی مانگے۔ پیری مریدی کی تجارت کرنے والوں اور گنڈے تعویز کا کاروبار کرنے والوں نے روحانیت کے آب زم زم کو گدلا اور مکدر کردیا ہے اور ان میں اکثر اس قدر تجربہ کار واقع ہوئے ہیں کہ انسان دھوکہ کھا جاتا ہے اس لئے احتیاط اور پہچان لازم ہے۔ پہچان کے حوالے سے حضرت سید علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش کی کتاب ”کشف المحجوب“ بہترین راہنما ہے۔ حضرت سید علی ہجویری نے ایک اصول واضح طور پر بیان کیا ہے کہ پہچان کے حوالے سے سب سے بڑا اصول شریعت کی پابندی ہے کیونکہ کوئی مسلمان بھی شریعت سے بالاتر نہیں چنانچہ سب سے پہلے یہ دیکھنا اور غور سے دیکھنا لازم ہے کہ کیا وہ شخص سختی سے شریعت کا پابند ہے اور روحانیت کے آداب کا خیال رکھتا ہے۔ ذرا غور کریں تو تصنع اور اصل کا فرق واضح ہوجاتا ہے اور بناوٹی پیر کا راز فاش ہوجاتا ہے۔ ہمارے ایک بزرگ کہا کرتے تھے کہ اگر کسی کی محفل میں بیٹھ کر آپ کا دل نیکی کی طرف راغب ہو، ذکر اذکار کی جانب میلان بڑھنے تو سمجھ لیجئے کہ وہ شخص ولی اللہ ہے لیکن اگر اس قسم کی واردات قلبی کا تجربہ نہ ہو تو اس کی دو وجوہ ہوتی ہیں۔ اول شیخ، شیخ کامل نہیں یا محض دکھاوے کا کھیل ہے، دوم ا گر وہ صحیح معنوں میں ولی اللہ ہے تو پھر آپ پر توجہ نہیں۔ توجہ حاصل کرنے کے لئے محنت کرنی پڑتی ہے اور صاحب نظر جب تک آپ کے خلوص، پاکیزگی اور سچی لگن کا قائل نہیں ہوتا اس کی توجہ حاصل کرنا ممکن نہیں ہوتا۔اب آپ پوچھیں گے کہ خلوص اور لگن کا کیسے پتا چلتا ہے تو یقین رکھیئے کہ شیخ کی نگاہ قلب پر ہوتی ہے اور اسے نہ ہی صرف آپ کی قلبی کیفیت کا علم ہوتا ہے بلکہ آپ کے ذہن سے گزرنے والے خیالات سے بھی آگاہ ہوتا ہے۔
مشکل یہ ہے کہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے رزق افراط سے دیا ہو اسے بھوک کا اندازہ کیسے ہو جب تک وہ روزہ نہ رکھے جس شخص نے کبھی سمندر دیکھا ہی نہیں وہ سمندر کی وسعت کا اندازہ کیسے کرے گا۔ اسی لئے یہ عرض کرتا ہوں کہ اس میدان میں تجربہ اور مشاہدہ کے بغیر ان احوال کی سمجھ نہیں ا ٓتی جب تک کوئی واردات آپ پر بیتی نہ ہو آپ اس واردات کو سمجھ ہی نہیں سکتے۔ اس لئے جب روشن خیال روحانی معاملات کا تمسخر اڑاتے ہیں اور بعض اوقات دینی پس منظر کے باوجود اس کی نفی کرتے ہیں تو مجھے ان کے ساتھ ہمدردی پیدا ہوتی ہے کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جو اس راہ کے مسافر ہی نہیں، وہ نہ کبھی اس کے متلاشی ہوئے، نہ کبھی ان میں روحانیت کے سچی لگن پیدا ہوئی اور نہ ہی کبھی ولی کامل سے پالا پڑا، اس لئے ان سے انکار ان کا حق ہے۔ انہوں نے کبھی روزہ رکھا ہی نہیں، وہ بھوک کا اندازہ کیسے کریں، انہوں نے کبھی سمندر دیکھا ہی نہیں وہ پانی کی وسعت اور بیکراں وسعت کا تصور کیسے کریں؟ اس لئے ان کے بے خبری اور تمسخر سے رنجیدہ خاطر ہونے کی ضرورت نہیں۔
بات ہورہی تھی توجہ کی، یہ مسئلہ بڑا نازک اور وضاحت طلب ہے کہ لوگ ولی کامل کی مجلس میں رہنے کے باوجود محروم کیوں رہتے ہیں؟ میں نے خود دیکھا ہے کہ ایک ہی ولی کے قدموں میں بیٹھنے والے کچھ حضرات نامراد رہتے ہیں اور کچھ حضرت بامراد ہوجاتے ہیں، جن کو شیخ کی توجہ ملی ان کے باطن کا گند صاف ہوگیا اور جن کے قلوب پر شیخ کی نگاہ نہیں پڑی وہ بدستور تاریک یا نیم تاریک رہے۔ ویسے تو یہ اپنے اپنے نصیب کی بات ہے لیکن اس نصیب کو بنانے یا سنوارنے میں انسان کا اپنا خلوص ،قلبی لگن اور محنت خاصا اہم کردار سرانجام دیتی ہے۔ میں نے ایک ایسا نیم مجذوب بھی دیکھا جس کے پاس آنے والے کچھ عقیدت مند اسے ولی کامل سمجھتے تھے۔ ان کی مرادیں پوری ہوتیں اور انہیں راہنمائی اور توجہ بھی ملتی تھی اور کچھ حضرات اس کی حالت ظاہری دیکھ کر شاکی ہوجاتے تھے۔ جس دل میں شک پیدا ہوجائے وہ بہرحال نگاہ اور توجہ کا اہل نہیں رہتا۔ دوسری طرف شیخ کی نگاہ انسان کے قلب پر ہوتی ہے اور وہ اس کی تمام کیفیات سے آگاہ ہوتا ہے۔ اسی لئے عرض کرتا ہوں کہ راہ سلوک کے راہیوں اور مسافروں میں خلوص اور لگن بنیادی شرائط ہیں۔ شکر الحمد للہ مجھے ایسی ہستیوں کے قدموں میں بیٹھنے کا موقع ملا جہاں آپ کے ذہن میں اٹھنے والے سوال کا جواب اسی لمحے اور فوراً مل جاتا تھا اور بعض اوقات انسان حیرت زدہ رہ جاتا تھا کہ انہیں فوراً اس بات کا پتہ کیسے چلا جو آپ کے نہاں خانہ دل میں تھی۔ ان کی تفصیلات میں جانا مناسب نہیں سمجھتا اور نہ ہی میں اس کا اہل ہوں لیکن اگر شیخ آپ کی قلبی کیفیت کو سمجھ جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ شیخ کامل ہے اور آپ کو اس کی توجہ بھی حاصل ہے۔ یاد رکھیئے کہ روحانی ہستیوں کا مقصد صرف اور صرف شریعت پر اپنی اصل روح کے ساتھ عمل کروانا ہوتا ہے۔ وہ نمود و نمائش سے دور بھاگتے ہیں اور وہ ہر قسم کے طمع سے پاک ہوتے ہیں۔
مرشد اور مرید کے درمیان عشق اور محبت اور عقیدت کا رشتہ اتنا مضبوط اور گہرا ہوتا ہے کہ اس کے سامنے دنیاوی رشتے ہیچ ہوتے ہیں۔ حضرت سلطان باہو جیسے ولی کامل مرشد کے دیدار کو لاکھ حجوں سے تشبیہ دیتے ہیں۔ مرشددا دیدار ہے باہو، لکھ کروڑاں حجاں ہو اور میاں محمد بخش جیسے ولی اللہ کہتے ہیں کہ میں تو گلیوں کا کوڑا کرکٹ تھا مجھے سائیں نے محل میں بٹھا دیا۔ مطلب یہ کہ میں تو گلی کی خاک تھا لیکن مرشد کی نظر نے مجھے خاک سے اٹھا کر عرش پر بٹھا دیا۔ حق یہ ہے کہ مرشد کا ملنا امر ربی ہے ،خوش قسمتی ہے اور مرشد قلبی خلوص لگن اور محنت کے بغیر نہیں ملتا، جب سچا مرشد مل جائے تو پھر وہ مرید کے احوال پر نظر رکھتا ہے اور دراصل مرشد کامل وہی ہوتا ہے جو مرید کے احوال پر نگاہ رکھے، جہاں اس سے لغزش ہو اسے طریقے سے تنبیہ کرے اور راہ راست پر لائے۔ یہی وہ تربیت ہے جو گلی کے کوڑے کو محل میں بٹھا دیتی ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ ناپاک زمین کے پاک ہونے کی دو صورتیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ اتنی بارش برسے کہ گندگی کو بہا لے جائے۔ دوسرا اتنا سورج چمکے کہ نجاست کو جلادے اور اس کا نام و نشان مٹادے۔ اسی طرح قلب کی زمین کے لئے دو چیزیں ہیں۔ ایک ذکر الٰہی جس کی مثال بارش کی سی ہے۔ دوسرا شیخ کامل جس کی مثال سورج کی سی ہے۔ ذکر سے دل صاف ہوتا ہے اور شیخ کامل کی توجہات سے بھی۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنہیں کامل مرشد ملتے ہیں اور خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کے دلوں میں مرشد کو پانے کی امنگ، آرزو اور تڑپ پیدا ہوتی ہے!!
تازہ ترین