• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم تو سمجھتے تھے کہ قومی سطح پر پانچ سالہ امانت اور دیانت کی قحط سالی کے بعد انتخابات کے ذریعے تازہ دم قیادت کے ہم رکاب ہونے والے ہیں  مگر چند ماہ کا سفر انتہائی دشوار ہوتا جا رہا ہے۔ جناب چودھری شجاعت حسین جو سیاست کے جوہر شناس ہیں  اُنہوں نے درست مشورہ دیا تھا اور ہم نے اِس کی تائید کی تھی کہ اسمبلیاں دسمبر کے آخری ہفتے میں تحلیل کر دی جائیں  تاکہ عام انتخابات مارچ کے آخر تک اور حکومتیں اپریل ختم ہونے سے پہلے قائم ہو جائیں اور آنے والی حکومتوں کو بجٹ سازی کے لیے مناسب وقت میسر آ جائے  لیکن ناگاہ شیخ الاسلام نے بڑے پُرجوش اور انقلابی انداز میں ”انتخابی اصلاحات“ کا نسخہ ٴ کیمیا پیش کر دیا اور اِس امر پر زور دیا کہ اُمیدواروں کے کاغذات کی چھان بین اور آئین کی دفعات 62اور 63پر عمل درآمد کے لیے انتخابات ساٹھ کے بجائے نوے دنوں میں کرائے جائیں، ایک نیا الیکشن کمیشن تشکیل دیا جائے اور ایک غیرجانب دار نگران حکومت کی تشکیل اُن کی مشاورت سے کی جائے۔ وہ انتہائی سخت سردی میں چالیس پچاس ہزار مردوں  عورتوں اور بچوں کے ساتھ اسلام آباد کی ”کربلا“ میں تین چار دن خیمہ زن رہے اور حکومت نے کسی بڑے سانحے سے بچنے کے لیے اُن کے بعض مطالبات تسلیم بھی کر لیے۔ جناب ”شیخ الاسلام“ نے عوامی طاقت کے بل بوتے پر نگران حکومت کی مشاورت میں اپنی انٹری حاصل کر لی ہے  مگر اُن کے اِس بیان سے قوم بے حد خوف زدہ نظر آتی ہے کہ دھرنا ختم ہونے میں اگر پانچ منٹ کی تاخیر ہو جاتی تو ملک میں یقینی طور پر مارشل لا لگ جاتا۔
لوگ سوچنے لگے کہ شاید لانگ مارچ کا مقصد انتخابات کی بساط لپیٹ دینا اور فوجی حکومت کا راستہ ہموار کرنا تھا  لیکن مخلوط حکومت  انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بالغ نظری اور عمدہ حکمت ِ عملی نے اُن کے ارادے ناکام بنا دیے۔ ایم کیو ایم اور تحریکِ انصاف نے اپنے آپ کو لانگ مارچ سے الگ تھلگ رکھا جبکہ امریکہ ااور برطانیہ کی طرف سے بھی یہی پیغام آیا کہ وہ جمہوریت کا تسلسل چاہتے ہیں۔ اِدھر جناب نواز شریف نے دس اپوزیشن جماعتوں کی حمایت سے یہ اعلان جاری کر دیا کہ ہم آئین سے ماورا ہر اقدام کی مزاحمت کریں گے اور انتخابات ملتوی نہیں ہونے دیں گے۔ اِن پے درپے اعلانات کے بعد جناب شیخ الاسلام نے باعزت واپسی ہی میں عافیت جانی  لیکن وہ اپنے جوشِ خطابت سے ایک ارتعاش پیدا کیے جا رہے ہیں۔ اُنہوں نے عوامی تحریک جو اُن کا سیاسی ونگ ہے  اُسے انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دے دی ہے اور وہ تحریکِ انصاف کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا اشارہ بھی دے رہے ہیں جو ایک اچھی خبر بھی ہے اور قدرے تشویش ناک بھی۔
دونوں جماعتیں بظاہر انتخابات کے انعقاد میں دلچسپی رکھتی ہیں  مگر اُن کی طرف سے الیکشن کمیشن کی تشکیلِ نو  اُن کی مشاورت سے نگران حکومت کا قیام اور تحریکِ انصاف کا یہ اصرار کہ انتخابات سے پہلے صدر زرداری مستعفی ہو جائیں  انتخابی عمل میں خلل ڈال سکتے ہیں  کیونکہ بیشتر سیاسی جماعتیں اُنہیں اِس بنیاد پر تسلیم نہیں کریں گی کہ وہ آئین کے منافی اور غیر حقیقت پسندانہ ہیں۔ الیکشن کمیشن سات آٹھ ماہ پہلے آئینی تقاضوں کے عین مطابق تشکیل پایا اور پوری قوم نے سُکھ کا سانس لیا کہ انتہائی مشکل مرحلہ حسن و خوبی سے طے پاگیا اور چیف الیکشن کمشنر کے طور پر ایک ایسی عظیم شخصیت پر اتفاقِ رائے ہو گیا جو تمام سیاسی جماعتوں کے لیے قابلِ احترام ہے۔ تشکیل کے بعد الیکشن کمیشن کی طرف سے شفاف انتخابات کے لیے قابلِ قدر اقدامات بھی کیے جا رہے ہیں جن کو میڈیا میں تحسین کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا ہے۔ اِس کے علاوہ حکومت اُسے پوری طرح آزاد اور بااختیار بنانے کے لیے وسائل بھی فراہم کر رہی ہے اور قانونی طاقت بھی  البتہ کراچی میں ایم کیو ایم اُس کے لیے مسائل پیدا کر رہی ہے جس کی قومی سطح پر مزاحمت جاری ہے۔ اِس آخری مرحلے میں الیکشن کمیشن کو متنازع بنا دینا جمہوریت کی گاڑی کو پٹری سے اُتار دینے اور اَن گنت بلاوٴں کو دعوت دینے کے مترادف ہو گا۔
اِسی طرح جناب صدر زرداری کے استعفے کا مطالبہ بھی سیاسی عاقبت نااندیشی پر مبنی معلوم ہوتا ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد اُن کے ایگزیکٹو اختیارات ختم ہو چکے ہیں اور وہ انتخابات پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ وہ اگر ایک جماعت کے مطالبے پر مستعفی ہو جاتے ہیں  تو پیپلز پارٹی اپنے اتحادیوں کی حمایت سے پانچ سال کے لیے اپنا ایک تازہ دم صدرِ مملکت منتخب کرانے میں کامیاب ہو جائے گی جو یقینی طور پر قومی نقطہٴ نگاہ سے ایک انتہائی غیر دانش مندانہ اقدام قرار پائے گا۔ دراصل انتخابات کے انتہائی قریب اِس نوعیت کی قیل و قال سے اِس وقت کمنڈ ٹوٹ سکتی ہے جب دو چار ہاتھ لبِ بام رہ گیا ہے۔
بلاشبہ پانچ سال تک جمہوریت کی مالا جپنے والے حکمران عوام کی زندگی بہتر بنانے میں ناکام رہے  لیکن عوامی شعور کی نشوونما اور اہل ِ وطن کو متحد رکھنے اور پُرامن انتقالِ اقتدار کا یہی سب سے محفوظ راستہ ہے۔ بدقسمتی سے اِس نازک مرحلے میں کامل یکسوئی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے ہمارے بعض اہل ِ دانش  اہلِ سیاست اور اہلِ صحافت مختلف انداز سے ذہنی انتشار پھیلا رہے اور دو تین سال کے لے ٹیکنو کریٹس کی حکومت کی تجویز دے رہے ہیں۔ وہ یہ حقیقت شاید فراموش کر بیٹھے ہیں کہ ایک بار دستور سے انحراف کی راہ اختیار کی گئی  تو واپسی بہت مشکل ہو جائے گی اور ہم جمہوری اور فلاحی ریاست کی منزل گم کر بیٹھیں گے۔ انتخابی اصلاحات کا ”خوش نما“ نعرہ ہو یا ٹیکنو کریٹس کی حکومت کا ”مژدہ جانفرا“ دونوں ہی سراب ہیں اور قوم طویل عرصے تک بھٹکتی رہے گی۔ سلامتی کا راستہ آئین کی پیروی اور وقتِ مقررہ پر انتخابات کے عمل سے قومی اعتماد کے ساتھ گزرنے میں ہے۔
یہ امر بہت خوش آئند ہے کہ اِس بار سندھ اور بلوچستان کی نیشنلسٹ جماعتیں بھی انتخابات میں حصہ لینے کے لیے بہت پُرجوش ہیں اور بیشتر قومی جماعتیں بروقت انتخابات کی فضا پیدا کرنے کے لیے سرگرم ہیں  لیکن وہ ”طاقتیں“ جو انتخابی عمل میں رخنہ ڈالنا چاہتی ہیں  بڑے جارحانہ انداز سے عوام کے ذہنوں میں وسوسے پیدا کر رہی ہیں۔
آج کے سخت مرحلے کا تقاضا یہ ہے کہ تمام سیاسی اور جمہوری جماعتیں یکجا ہو کر بروقت انتخابات کے حق میں ایک ملک گیر تحریک چلائیں اور چھوٹی چھوٹی دھرنیوں کے بجائے عظیم الشان عوامی طاقت کا پُرامن مظاہرہ کریں۔ قائدِ حزبِ اختلاف چودھری نثار علی خاں نے الیکشن کمیشن کی حمایت میں جس بے ڈھنگے پن کا ثبوت دیا ہے  اُس نے بلند پایہ مقصد کو نقصان پہنچایا ہے۔ اِسی طرح محترمہ عاصمہ جہانگیر کا نام نگران وزیر اعظم کی فہرست میں شامل کر کے عوام کے اندر بلاوجہ سخت اختلاف پیدا کیا ہے۔ حالات بڑی تیزی سے بدل رہے ہیں اور یہ امکان پیدا ہو چلا ہے کہ اپنے اپنے ایجنڈے کے تحت ایم کیو ایم  تحریکِ انصاف اور جناب شیخ الاسلام ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر مختلف زاویوں سے انتخابی نظام  الیکشن کمیشن اور نگران حکومتوں پر چاند ماری شروع کر دیں گے اور عوام کو دیانت دار قیادت کے سہانے خواب دکھا کر ایک ہیجانی کیفیت میں مبتلا رکھیں گے جس کے باعث”اچھی نیت“ کے باوجود اعتراضات کے اندر سے اعتراضات جنم لیں گے اور سیاسی اور دستوری بحران پیدا کرتے رہیں گے  چنانچہ انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانے کے لیے مسلم لیگ نون  جماعت اسلامی  جمعیت علمائے اسلام  اے این پی  مسلم لیگ فنکشنل اور سندھ اور بلوچستان کی تمام نیشنلسٹ پارٹیوں کو ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر پوری قوت سے میدانِ عمل میں اُترنا اور جمہوریت کو تحفظ فراہم کرنا ہو گا۔ اُن کی فتح یقینی ہے  کیونکہ تمام ریاستی ادارے اور پاکستان کی بہی خواہ قوتیں جمہوری عمل اور شفاف انتخابات پر یقین رکھتی ہیں اور وقت کی قلت کے باوجود اِس بار اچھے انتخابی قوانین بھی نافذ ہوں گے اور عوامی دباوٴ سے بہتر امیدوار بھی سامنے آئیں گے۔
تازہ ترین