• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں اپنی نوعیت کا پہلا منصوبہ” میٹروبس سروس“اپنی تکمیل کے آخری مراحل میں ہے یہ ایسے وقت مکمل کیا گیا جب سارا ملک دہشت گردی کی زد میں ہے۔ ”کرپشن“کی صدائیں ابھر رہی ہیں صنعت کا پہیہ جام ہوگیا ہے، ایسے کڑے وقت میں ایسے منصوبے کی سوچ ایک جنون ہی تو ہے اور یہ خادم پنجاب کا جنون ہی تھا جو اس بڑے منصوبے کو مکمل کرنے کے در پہ تھا۔ اگرچہ تمام متعلقہ محکمے، مسلم لیگ ن کے ارکان بھی دست و بازو تھے لیکن خادم پنجاب ہمہ وقت اس منصوبے میں اس طرح جت گئے کہ جیسے یہ ان کا عشق ہو ان کے مشن پر ہر طرف سے اعتراضات ہوئے، لاکھ زبانیں کھلیں۔ کہا گیا کہ 70ارب روپیہ لگایا جا رہا ہے، یہ آواز بھی آئی یہ منصوبہ ”وقت کی ضرورت“ نہیں ہے، بے وقت کی راگنی ہے لیکن شہباز میاں تھے کہ اپنی دھن میں آگے بڑھتے گئے کسی اعتراض، الزام پر توجہ نہیں دی ان کا مشن صرف یہ تھا کہ کسی طرح ان کا یہ ”لاڈلا منصوبہ‘ مکمل ہو جائے اور اب 10فروری کو اس کا افتتاح ہو رہا ہے۔ شہباز میاں کے مداحین کا کہنا ہے کہ ”یہ وقت کے شیر شاہ سوری ہیں“۔ اس عظیم حکمران نے پشاور سے کلکتہ تک شیر شاہ سوری روڈ تعمیر کی تھی انگریزوں نے اس کا نام تبدیل کرکے جی ٹی روڈ رکھ دیا لیکن عوام کے ذہنوں میں پرانا نام آج بھی محفوظ ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب سے سیاسی اختلاف اپنی جگہ لیکن یہ سو فیصد درست ہے کہ میٹروبس سروس سے لاہور ہی نہیں گردونواح کے اضلاع کے عوام کو بہتر اور سستی سفر کی جدید ترین سہولت مہیاہوگی اور اسے شہباز میاں کا عجوبہ بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس پراجیکٹ پر 30ارب روپے لاگت آئی ہے۔ جو لوگ شہباز شریف کو قریب سے جانتے ہیں انہیں علم ہے کہ وہ جس کام کا بیڑا اٹھا لیں اسے مکمل کرکے ہی دم لیتے ہیں۔ وہ ان تھک تو ہیں لیکن منصوبہ بندی کرکے آگے بڑھتے ہیں۔ عا م انتخابات میں ”گھر گھر انتخابی مہم“ کا منفرد طریقہ کار اختیار کیا۔ لاہور میں میاں نواز شریف اور خود اپنے حلقہ میں ایک ایک گھر کا دروازہ کھٹکھٹا کر ووٹ مانگا کرتے تھے، اس دوران ایسے مشاہدات بھی سامنے آئے کہ ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ ایک گھر میں داخل ہوئے جہاں چولہا سرد تھا۔ کھانے کو کچھ نہیں تھا، یہ دیکھ کر گھبرا گئے اور اس غریب خاندان کو آٹے، دال کے علاوہ فوراً روزگار بھی مہیا کیا۔ رات گئے تک ان کی یہ مہم جاری رہتی ، جو کارکن ”رت جگا“ میں چوک جاتے ان سے ناراض ہو جایا کرتے تھے اور ان کی یہ محنت رنگ لائی میاں نواز شریف بھاری اکثریت سے کامیاب ہوتے رہے۔ ان کے بارے میں ایک اعتراض یہ ہے کہ صوبہ کے تمام اہم محکمے ان کے پاس ہیں۔ وزیر بے اختیار ہیں ایسا کچھ بھی نہیں ایک متحرک وزیراعلیٰ کی حیثیت سے وہ ہر محکمہ کی نگرانی کرتے ہیں ، کارکردگی کے حوالے سے بریفنگ اجلاس منعقد کرتے ہیں جس سے یہ تاثر ابھرتا ہے ۔ ماضی میں شعیب بن عزیز جیسے میڈیا ماہرین ایسی باتوں کا جواب دے دیا کرتے تھے اب بھی وہی ”عظیم لوگ“ ان کے قریب ہیں۔ ایک بڑی بیماری سے گزرنے کے باوجود خادم پنجاب کی پھرتی میں کوئی کمی نہیں آئی۔ ان کے مداحین کہتے ہیں کہ شہباز میاں سے کہئے کہ ”کچھ آرام کرلیا کریں“ اور ایسا ضروری بھی ہے لیکن وہ دو باتوں سے باز آنے والے نہیں ایک آرام خود بھی نہیں کرتے اور نہ ہی کسی کو آرام کرنے دیتے ہیں۔ ماضی میں جو صبح اٹھ کر بڑے حسن کے ساتھ سیکرٹریوں کی حاضری لگایا کرتے تھے۔ ان کو خبر بھی نہیں ہوتی اور پتہ بھی چل جاتا تھا کہ کون کون وقت پر دفتر نہیں پہنچا۔ وزیروں کی تو خیر نہیں تھی اور دوسری بات یہ کہ وہ صدر آصف علی زرداری کے بارے میں ”ہتھ ہولا“ کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں جبکہ میاں نواز شریف اس پر اظہار ناپسندیدگی کر چکے ہیں۔ اس منصوبے کے حوالے سے بھی صدر زرداری کا ذکر آگیا کہ اگر زرداری یہ منصوبہ شروع کرتے تو سو ارب روپے میں بھی مکمل نہ کر پاتے“…!
اس منصوبے کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اس کے 27اسٹیشن بنائے گئے، پہلے سٹیشن کو لاہور کی تہذیب سے آراستہ کیا جائے گا۔ سندھ، خیبر پختونخوا، بلوچستان، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی تہذیب و ثقافت کی نمائندگی کے لئے ایک ایک سٹیشن مختص کیا گیا ہے۔ اسی طرح تحریک پاکستان، دانش سکول، جناح آبادی، آشیانہ سکیم، یلیو کیپ کے علاوہ ایک سٹیشن پر ترک تہذیب کی عکاسی کی جائے گی۔ پہلے مرحلہ میں 45ایئر کنڈیشنڈ بسیں چلائی جائیں گی اور چار ہفتہ لاہور ہی نہیں ملک بھر سے لوگ مفت سفر سے لطف اندوز ہوسکیں گے۔ یہ کہا جا رہا ہے اور درست بھی ہے کہ یہ پراجیکٹ لاہور کے حسن میں ایک یادگاراور خوبصورت اضافہ ہے۔ شہباز میاں نے اپنے جنون کو حقیقت کا روپ دے دیا ہے اور بلاشبہ شہباز میاں کی جانب سے یہ ایک عوامی تحفہ ہے۔ اب یہ آنے والے حکمرانوں پر ہے کہ وہ اسے کس طرح اور کس حد تک برقرار رکھ سکتے ہیں۔
تازہ ترین