• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عدالت عظمیٰ کے ایک فاضل جج نے گزشتہ دنوں ایک کیس کی سماعت کے دوران پلی بارگین کے حوالہ سے درج ذیل ریمارکس دیے:
’’پلی بارگین ایکٹ کے تحت ایک ایسا فردجس پر 10کروڑ روپے کرپشن کا الزام ہوایک کروڑ روپے ادا کرکے رہاکردیاجاتا ہے۔ پھر وہی فرد اپنے عہدے پر دوبارہ تعینات کردیا جاتا ہے اورپھر 20کروڑکی کرپشن میں ملوث ہوجاتاہے۔ یہ کس طرح کا عمل ہے؟ اگر NAB ایسے ہی کام کرتا ہے توا س کو بندکردیناچاہیے۔‘‘
اس وقت یہ ریمارکس میرے سامنے ہیں اور میرا احساس یہ ہے کہ فاضل جج صاحب کے یہ ریمارکس NAB کے قانون اور اس کی کارکردگی پر محض قانونی نقطۂ نظر سے ہی اہم نہیں ہیں بلکہ یہ عوامی رائے اور جذبات کی بھی عکاسی کرتے ہیں۔ زیرنظر تحریر میں ، میں نے اسی حوالہ سے NAB کے اس ڈیٹا کاجائزہ لیا ہے جو 2008 سے 2015ء کے عرصہ میں پلی بارگین کے حوالہ سے پیش کیا گیا ہے۔ لیکن اس ڈیٹا پرنگاہ ڈالنے سے قبل بہترہوگا کہ پلی بارگین کے ضمن میں NAB قانون کی دفعات کو سمجھ لیاجائے۔
بدعنوانی کے ذریعے لوٹے گئے قومی سرمائے کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے قومی احتساب آرڈیننس 1999 ، رضاکارانہ واپسی اور پلی بارگین کو باقاعدہ قانونی جواز فراہم کرتا ہے۔ اس قانون کی دفعہ 25اے کے تحت رضاکارانہ واپسی کا اصول بیان کیاگیا ہے۔ اس اصول کے مطابق کوئی فرد جو سرکاری عہدے پر تعینات رہا ہو یا کوئی اور شخص اپنے خلاف تحقیقات کی اجازت ملنے سے پہلے قومی ادارہ احتساب (نیب) کے سامنے پیش ہوکر یہ عندیہ دیتا ہے کہ وہ اس سرمائے یا محصولات کو واپس کرے گا جو کہ اسے کسی ایسے ذریعے سے حاصل ہوئے ہوں جو اس قانون کے تحت ایک جرم کی تشکیل کرتے ہوں، تو اس صورت میں چیئرمین نیب اس کی ایسی پیشکش کو قبول کر سکتا ہے۔ قبولیت کا مطلب یہ ہے کہ اس شخص پر لاگو ہونی والی رقم کے تعین اور اس کے نیب کے پاس جمع ہونے کے بعد اس کو اس معاملے کے حوالے سے بری الذمہ قرار دے سکتا ہے۔ قانون میں یہ استثنیٰ بھی ہے کہ یہ ممکنہ حل اس صورت میں ہی ہوسکتا ہے جب یہ معاملہ کسی عدالت میں زیرالتوا نہ ہو۔
اسی قانون کی دفعہ 25 بی ’پلی بارگین‘ کے طریقہ کار کو بیان کرتی ہے۔ اس کے مطابق، اگر ملزم اپنے خلاف تحقیقات کی اجازت ملنے کے بعد اس کیس کے کسی بھی مرحلہ پر، نیب کو وہ سرمایہ یا اس کے فوائد واپس کرنے کی پیشکش کرتا ہے جو اس نے اس قانون کے تحت ایک جرم کے ذریعے یا نتیجے میں حاصل کیے ہوں تو چیئرمین نیب ا س کیس کے حالات وواقعات کو پیش نظر رکھ کر اپنی صوابدید پر اس پیشکش کو مناسب شرائط پر قبول کرسکتا ہے۔ اس صورت میں اگر ملزم چیئرمین نیب کی مقرر کردہ رقم کو واپس کرنے پررضامند ہو جائے تو چیئرمین نیب اس کیس کو عدالت کی طرف سے منظوری اور ملزم کی رہائی کے لیے بھیج دے گا۔
نیب نے جنوری 2008ء سے 30جون 2015ء تک کا 37صفحات پرمبنی جو ڈیٹا اپنی ویب سائٹ پر فراہم کیا ہے اسکے مطابق اس عرصہ میں 418مقدمات میں Plea Bargain کی گئی ہے۔ اس سے قطع نظر کہ پلی بارگین کوئی موزوں طریقہ کار ہے یانہیں، یہ بات قابل ذکر ہے کہ ساڑھے سات سال کے عرصہ پرمشتمل ان اعدادوشمار کے مطابق یہ اوسط ایک ہفتہ میں ایک مقدمہ سے کچھ ہی زائد ہے ۔ ملک میں کرپشن کے حوالہ سے موجود ابتر صورتحال میں ایک ایسے ادارے سے جس کے قیام کا مقصد ہی کرپشن اور دھوکہ دہی کے ملزمان کو گرفت میں لانا ہے ا س سے کہیں زیادہ بہتر کارکردگی کی توقع کی جاتی ہے۔
اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ان 418مقدمات میں سے 40فیصد سے زائد یعنی179 وہ ہیں جن میں دس لاکھ روپے سے بھی کم رقم کی وصولی طے ہوئی ہے یعنی بالعموم یہ بہت چھوٹے چھوٹے معاملات تھے جو نیب نے اٹھائے ہیںاور یا پلی بارگین کے ذریعہ ایک بڑی رقم کی کرپشن کے مقابلہ بہت معمولی رقم طلب کی گئی ہے ۔اس بات کی تصدیق اس سے بھی ہوتی ہے کہ ان 179 میں سے 50وہ مقدمات ہیں جن میںصرف 5000روپے سے ایک لاکھ روپے کی رقم کی وصولی طے کی گئی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کرپشن تو خواہ ایک پیسے کی بھی ہو، اس کا حساب اور احتساب ہونا چاہیے لیکن نیب کا قیام بہرحال ان چھوٹی چھوٹی مچھلیوں کو پکڑنے کے لیے عمل میں نہیں آیاتھا۔
بقیہ مقدمات میں بھی 84وہ ہیں جن میں پلی بارگین کی رقم دس لاکھ روپے سے 25 لاکھ روپے تک ہی متعین ہوئی ہے۔ یوں اگر پلی بارگین کے نتیجہ میں 25لاکھ روپے سے کم وصولی والے مقدمات کی تعداد دیکھی جائے تو یہ کل مقدمات کا کم وبیش دوتہائی سے کچھ ہی کم یعنی 63فیصد ہے۔
2008 سے 2015ء کے اس ڈیٹا میں دیے گئے مقدمات کو خردبردکی گئی رقم کی واپسی کے لیے agreed رقم کی بنیاد پردرج ذیل کیٹیگریزمیں دیکھا جاسکتا ہے:
پلی بارگین میں طے کی گئی رقم
تعداد مقدمات
فی صد
ایک لاکھ روپے سے کم
50
12
ایک لاکھ سے دس لاکھ
129
31
دس لاکھ سے 25لاکھ
84
20
25لاکھ سے 50 لاکھ
50
12
50 لاکھ سے ایک کروڑ
37
9
ایک سے دس کروڑ
52
12
دس کروڑ سے ایک ارب
9
2
ایک ارب سے زائد
6
1
ان مقدمات میں سے جو مقدمات ایک ارب سے زائد تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہی وہ مقدمات ہیں جن میں ملزمان کو پلی بارگین کاسب سے زیادہ فائدہ حاصل ہوا ہے۔ مثلاً ایک مقدمے میں اصل رقم 2 ارب تھی لیکن 88 کروڑ میں تصفیہ ہوگیا ۔ دوسرے مقدمے میں 8 ارب تھی لیکن تصفیہ 14کروڑ میں ہوا ۔
پلی بارگین کے نتیجہ میں خردبرد کی گئی اصل رقم کے مقابلہ میں بہت کم رقم کا تعین کرنے کے باوجودیہ بات ناقابل فہم ہے کہ 6میں سے 5مقدمات میں ملزمان پر جو رقم 30جون 2015ء تک واجب الادا تھی، اس میں سے بہت ہی کم رقم جمع ہوسکی۔ ان میں سے ایک کے علاوہ بقیہ تمام 2008 اور 2009 اور 2012سے متعلق ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ’پلی بارگین‘ کے انتظام کااخلاقی جواز کیا ہے؟ کیا اس سے کرپشن کی حوصلہ افزائی اس انداز میں نہیں ہوئی کہ ’’لوٹو اور پھر اس رقم کا ایک حصہ واپس کرکے اپنے لیے محفوظ راستہ حاصل کرلو‘‘۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس قانون میں فوری تبدیلی کی ضرورت ہے۔
نیب کی سابقہ کارکردگی کے جائزے سے یہ بات واضح ہورہی ہے کہ نیب اصل اور بڑی کرپشن پر آنکھیں بند کر کے بیٹھا ہواہے ۔ پاکستان میں امیر اور غریب ، حکمرانوں اور عوام کے لیے قانون کا نفاذ یکساں نہیں ہے ۔ نیب سیاسی اشرافیہ کے لیے ذرا سی کارروائی شروع کر تاہے تو اس کے پر کاٹنے کی دھائی شروع ہو جاتی ہے ۔
نیب کو تاریخ وار اپنے مقدمات پر تفتیش مکمل کرنی چاہیے کچھ مقدمات پر نیب جلد بازی کرتاہے اور کچھ مقدمات کی فائلوں کو کھولنے سے بھی ڈرتاہے ۔ اسی طرح پلی بارگیننگ میں کچھ کیساتھ دریا دلی کا مظاہرہ کرتاہے اور کچھ کیساتھ انتقام کی بو آرہی ہوتی ہے ۔ نیب کی یہ من پسند کی روش کو قانون کا پابند کرنے کی ضرورت ہے ۔
تازہ ترین