• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’وہ اس بات کو سمجھتے ہیں کہ بین الاقوامی برادری کو ایک ترقی پسند اور لبرل پاکستان کی ضرورت ہے۔‘‘ یہ الفاظ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے وزیراعظم نواز شریف کے لبرل ایجنڈے کو قابلِ تعریف قرار دیتے ہوئے لکھے ہیں۔ ملک کو لبرل بنانے کا مقصد قراردادِ مقاصد کو ختم کرنا ہے۔ اگر وہ ایسا کرنا چاہتے ہیں تو پھر انہیں چاہئے کہ پہلے وہ یہ اسمبلیاں ختم کریں اور آئین ساز اسمبلی بنائیں کیونکہ موجودہ اسمبلی قانون ساز ہے آئین ساز نہیں ہے۔
’’قرارداد مقاصد‘‘ ہمارے متفقہ آئین کا دیباچہ ہے جسے کسی بھی صورت ختم نہیں کیا جاسکتا۔ اس میں واضح اور دو ٹوک الفاظ میں کہا گیا ہے کہ کوئی ایسا قانون اور بل پاس نہیں کیا جائے گا جو قرآن و سنت کے خلاف ہو۔آج کل جو لوگ پاکستان کے بیانیے کو تبدیل کرنے کی باتیں کرتے ہیں، وہ بانیان پاکستان پر اپنا غصہ اتارتے ہیں، انہیں تاریخ کے کٹہرے میں لا کر پہلے فرد جرم عائد کرتے ہیں پھر اپنی زبان کا پھندا ان کی روحوں کی گردن میں تنگ کرنے لگتے ہیں۔ ان کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ قراردادِ مقاصد کو تبدیل کیا جائے۔
ان سے سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کا قیام ایک لبرل اسٹیٹ کے لیے ہوا تھا؟ کیا لاکھوں لوگوں نے اپنی جانوں کے نذرانے اس لیے دئیے تھے؟ کتنے حیرت اور افسوس کی بات ہے کہ آج بعض دانشور بانیانِ پاکستان اور ان لوگوں پر اعتراض کرتے ہیں جنہوں نے پاکستان بنایا تھا اورجنہوں نے اس کے خاکے میں رنگ بھرا تھا۔
ہمارا آئین کہتا ہے کہ خلافِ شریعت کوئی بل پاس نہیں ہوگا، اور اس پر نگرانی کے لیے ’’اسلامی نظریاتی کونسل‘‘ بنائی گئی ہے۔ یہ ادارہ اس بات کا فیصلہ کرتا ہے کہ یہ قانون اور بل شریعت کے مطابق ہے یا نہیں۔ جب تک آئین میں یہ شق موجود ہے کہ ’’ملک میں کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بن سکتا،‘‘ اس وقت تک اسلامی نظریاتی کونسل کی ضرورت رہے گی،یہ ادارہ ختم نہیں ہو سکتا۔ بیسیوں ایسی چیزیں ہیں جن پر اسلامی نظریاتی کونسل اپنی سفارشات پیش کر چکی ہے، مگر حکومت عملدرآمد کروانے میں ناکام رہی ہے۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا۔ یہاں مسلمان رہتے ہیں۔ ظاہر ہے مسلمانوں کے لیے جب قانون سازی ہو گی تو صرف ان سیاسی لوگوں پر تو اعتماد نہیں کیا جا سکتا جنہیں سورۂ اخلاص بھی نہیں آتی۔ اس اعتبار سے ہم سمجھتے ہیںاسلامی نظریاتی کونسل ملک کا سب سے اہم ترین ادارہ ہے۔ اس کو مزید مضبوط بھی کیا جانا چاہئے اور اس کی سفارشات پر فوری طور پر عمل درآمد بھی کیا جانا چاہئے۔
وزیر اعظم صاحب یہ بتائیں کہ عاشقِ رسول کی پھانسی، تحفظ نسواں بل اور شرمین عبید چنائے کی پاکستان کا غلط تاثر اجاگر کرنے والی فلم کو دیکھنے اور سراہنے کا مقصد اگر بین الاقوامی برادری کے سامنے پاکستان کو لبرل اور لادین ملک کے طور پر پیش کرنا نہیں ہے تو اور کیا ہے؟ کیا مسلم لیگ ن نے پاکستان کولبرل اور لادین ملک بنانے کے نام پر ووٹ مانگے تھے؟ یا پھر اپنے منشور کے مطابق عوام سے ووٹ مانگے تھے؟ آپ نے تو یہ نعرہ لگایا تھا کہ مشرقی روایات و اقدار اور اسلامی تہذیب و ثقافت کو آگے بڑھائیں گے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان اور اس کے عوام کی خدمت کریں گے۔ میاں برادران نے عام انتخابات میں ایک مرتبہ بھی یہ نہیں کہا تھا کہ وہ پاکستان کو لبرل بنائیں گے اور ایسے بل منظور کروائیں گے جو آئین و قانون، قرآن و سنت اور مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت کے خلاف ہونگے۔
اگر حکمرانوں کو لبرل پاکستان بنانے کا اتناہی شوق ہے تو انہیںچاہئے کہ وہ اس موضوع پر ریفرنڈم کروائیں۔ نتیجہ سامنے آجائے گاکہ عوام اسلامی پاکستان چاہتے ہیں یا لبرل پاکستان؟ البتہ ممتاز قادری کی شہادت کے ردعمل سے بہت کچھ عیاں بھی ہوچکا ہے کہ عوام کیا چاہتے ہیں؟ ہم سمجھتے ہیں کہ جس طرح دھونس دھمکی کے ذریعے شریعت کا مطالبہ غلط ہے اسی طرح دھونس دھمکی کے ذریعے ملک کو لبرل بنانے کا ایجنڈا بھی غلط ہے۔ اگر پرویز مشرف اپنے دورِ حکومت میں لبرل انتہا پسندی کو بزور طاقت مسلط کرنے کی کوشش نہ کرتے تو انتہاپسندی بھی اتنی نہ بڑھتی جتنی گزشتہ 15 سالوں میں بڑھی ہے۔
حقوق نسواں بل کے خلاف لاہور میں 15 مارچ کو ملک کی جن 25 مذہبی و سیاسی جماعتوں نے اتحاد کیا ہے، یہ ان کی ملک میں ایک حیثیت، ایک عزت اور قوت ہے جو ہر مرتبہ پارلیمنٹ میں ان کی نمائندگی ہوتی ہے۔ مولانا فضل الرحمن صاحب عالمی سروے کے مطابق ایشیا اور دنیا کے مضبوط ترین سیاست دان شمار ہوتے ہیں۔ پاکستانی سیاست مذہبی سیاست کے بغیر نہ مکمل ہوتی ہے نہ ہوگی۔ یہ تمام مذہبی جماعتیں ملک کے آئین و قانون کی پاسداری کرتی ہیں۔ اگر ان کی بات کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو وہ انتہاپسند گروہ اور وہ خوف ناک جتھے اور لوگ سامنے آجائیں گے جو نہ ملک کے آئین کو مانتے ہیں اور نہ ہی شریعت کو۔
اب آجائیں ممتاز قادری کے مسئلے کی طرف! ممتاز قادری کو جس قانون کے تحت سزائے موت دی گئی ہے اسی قانون کے تحت آسیہ مسیح بھی مجرم قرار دی جاچکی ہے۔ ممتاز قادری کو پھانسی کے پھندے پر لٹکانا اور آسیہ کو معاف کرنے کے حیلے بہانے تلاش کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ حالانکہ ممتاز قادری کو تاثیر فیملی کی طرف سے معاف کیا جا چکا تھا۔ کیا اس حوالے سے کوئی قانونی تقاضا پورا کیا گیا؟ اسی طرح توہینِ رسالت قانون کے تحت جو لوگ ملزم قرار دئیے جاچکے ہیں، ان میں سے آج تک کسی ایک کو بھی سزائے موت کیوں نہیں دی گئی ہے؟
دوسری بات یہ ہے کہ دنیا کا کوئی قانون بھی کسی شخص کی ذات کی توہین کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ ہمارا لبرل طبقہ کتنا دریا دل ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ دونوں جہانوں کے سردار اور رحمۃ للعالمینﷺ کی ذات اقدس کے بارے میں اگر کوئی بکواس کرتا ہے تو کرتا رہے، یہ اس کا ذاتی فعل ہے، اس کو کچھ نہ کہا جائے۔ کیا یہ مسلمانوں کے نبی ﷺکو اتنی حیثیت دینے کے لیے بھی تیار نہیں جتنی کہ دنیا کے قوانین ہر شخص کو دیتے ہیں؟؟کیا یہ انتہا پسندی نہیں ہے؟؟ حقوق نسواں بل، ممتاز قادری، توہین رسالت قانون، لبرل پاکستان کی جانب بڑھتے قدموں کو روکنے والی مذہبی جماعتوں کے بارے میں ایک مخصوص طبقہ یہ تاثر دے رہا ہے کہ ان کو دینِ اسلام، مشرقی روایات اور قانون و آئین کی پامالی کا کوئی دُکھ نہیں ہے، بلکہ یہ سب اپنی سیاسی دکانیں چمکانے، اپنی اہمیت بڑھانے، اپنی گرتی ساکھ کو مضبوط کرنے اور خفیہ اشاروں کے مہروں کے طور پر متحرک ہورہے ہیں۔ ان پر تہمت لگانے سے پہلے وقت کا انتظار کیا جائے آج ہر آدمی باشعور ہے، عوام خود فیصلہ کریں گے کہ ہمیں ان کی اہمیت بڑھانی چاہئے، ان کی ساکھ مضبوط بنانی چاہئے یا نہیں؟یہ تمام مذہبی جماعتیں محب وطن و محب دین عوام کے دلوں کی ترجمانی کررہی ہیں۔ یہ معاشرے کو معتدل بنانے کی کوشش اور جدوجہد میں مصروف ہیں۔ ملک میں جاری آپریشن ضرب عضب میں تعاون کررہی ہیں۔ہمارا لبرل طبقہ یہ سوال اٹھا رہا ہے کہ جب ممتاز قادری کو قانون شکنی کی وجہ سے قانون کے مطابق سزا دی گئی ہے تو پھر یہ مذہبی جماعتیں سیخ پا کیوں ہو رہی ہیں جبکہ یہی طبقہ اس مشرف کے بارے میں مکمل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے جو قانون کو پاؤں تلے روندتے ہوئے بڑی رعونت کے ساتھ باہر چلا گیا۔ لبرل طبقے سے ہماری دست بستہ گزارش ہے کہ خدارا! محب وطن و دین عوام اور بانیانِ پاکستان کی روحوں پر رحم کریں۔ جو رُخ اور خطوط بانیانِ پاکستان نے متعین کردئیے تھے، ان کو نہ چھیڑیں، یہ ملک مذہب کے نام پر بنا تھا اور مذہب کے نام پر ہی باقی رہے گا۔ ملک و قوم کی نظریاتی سرحدوں کی محافظ مذہبی جماعتیں ہیں اور جغرافیائی سرحدوں کی محافظ پاک فوج ہے۔ جو لوگ ملا ملٹری الائنس کا طعنہ دیتے ہیں یہ وہ لبرل ہیں جنہوں نے ہمیشہ غیر ملکی طاقتوں کے اشاروں پر ملک و قوم کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کی بیخ کنی کرنے کی مذموم کوششیں کی ہیں۔
تازہ ترین