• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج پوری قوم یوم آزادی صرف جوش وخروش اور جشن کے انداز میں قومی پرچم لہرا کر ہی نہیں منا رہی ہے بلکہ اس خوشی میں ایک کروڑ سے زیادہ ان کشمیریوں کا دکھ اور المیہ بھی شامل ہے جس نے پوری قوم کو غمزدہ کرنے کے ساتھ ساتھ اشتعال میں بھی مبتلا کر دیا ہے آج پاکستانی پرچموں کی آن بان اور شان وشوکت کے ساتھ ساتھ کشمیری جھنڈے بھی اس عزم واستقامت کے ساتھ ساتھ لہرا رہے ہیں کہ کشمیری عوام پاکستان کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور پاکستان کی حکومت اور لوگوں نے ان کے ساتھ یکجہتی کا جو عزم کیا تھا اس سے کسی صورت بھی صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت میں مودی حکومت نے آرٹیکل ۔370 کے ذریعے کشمیر کی ریاست کی خصوصی حیثیت کو تبدیل کرنے اور اسے دو حصوں میں تقسیم کرنے کے فیصلے سے جن گھناونے، ظالمانہ اور جابرانہ عزائم کی تکمیل کا آغاز کیا پاکستان نے بلاتاخیر ملکی اور بین الاقوامی سطح پر وہ اقدامات کرنے شروع کر دیئے جو بھارتی قیادت کے فیصلے پر فوری ردعمل کے متقاضی تھے۔ یہ تاثر خاصی حد تک درست ہے کہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو کشمیر کے حوالے سے مطلوبہ انداز میں واضح حمایت حاصل نہیں ہو رہی ہر چند کہ اہم ممالک نے ’’ علاقائی اور سفارتی انداز میں پاکستان کے موقف کی حمایت کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر اپنی تشویش اور فکرمندی کا اظہار بھی کیا ہے لیکن ظاہر ہے کہ صورتحال کی سنگینی کے پیش نظر ان ممالک سے پاکستان بہت زیادہ توقع رکھتا ہے۔ لیکن یہاں پر یہ پہلو بھی پیش نظر رہے کہ بھارتی اقدامات کو بھی دنیا میں کسی سطح پر پذیرائی حاصل نہیں ہو رہی۔ بھارتی میڈیا اپنی حکومت کے اس فیصلے پر جشن برپا کر رہا ہے اور آرٹیکل۔370 کے ختم کئے جانے کے فیصلے پر یہ تبصرے کئے جارہے ہیں کہ کشمیر اب آزاد ہوا ہے اور انڈیا کا صحیح معنوں میں اٹوٹ انگ بنا ہے۔ اخبارات بھی اسی انداز کے جملوں کی سرخیاں بنا رہے اور وادی کے کشمیریوں کو مستقبل کے سنہرے خواب دکھا کر وہاں تعمیر وترقی اور سہولتوں، مراعات کی ترغیبات دی جارہی ہیں۔ پورے انڈیا میں یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ جیسے انڈیا نے کوئی جنگ جیت لی ہے اور مسئلہ کشمیر ہمیشہ کیلئے ان کے حق میں حل ہوگیا ہے لیکن یقیناً ایسا نہیں ہے۔ یہ فیصلہ کشمیر کے اہم رہنمائوں محبوبہ مفتی، عمر عبداللہ، سجاد لون اور دیگر بے شمار رہنمائوں کو جیلوں اور عقوبت خانوں میں ڈال کر کیا ہے۔ جموں کشمیر میں دفعہ 144 لگا کر اور کرفیو کی صورتحال پیدا کرکے اس پر عملدرآمد کیا گیا ہے۔ سکول، دفاتر، مارکیٹیں اور آزادانہ نقل وحرکت کو محدود اور مواصلاتی نظام منجمد کر کے کیا گیا ہے۔ موبائل فون، انٹرنیٹ، لینڈ لائن اور کیبل ، ٹی وی نیٹ ورک سب منقطع ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ وادی کے لوگوں سے یہ پوچھنے والا کوئی نہیں ہے کہ وہ کن حالات میں جی رہے ہیں۔ کس خوف میں سانس لے رہے ہیں یہ سب کچھ جاننے والوں کی نہ تو ان تک رسائی ہے اور شاید وہ اس میں غیر معمولی دلچسپی بھی نہیں رکھتے لیکن ایک بات طے ہے کہ اب وادی سے آزادی کی جو لہر اٹھے گی بھارتی طاقت اس کا مقابلہ ہرگز نہیں کر پائے گی وادی کے ہر دوسرے گھر میں کسی شہید کی تصویر آویزاں ہے اور اس سے وابستہ خونی رشتوں نے اپنی زندگی اب کشمیر کی آزادی کی صورت میں بھارتی فوج سے بدلہ لینے کیلئے وقف کر رکھی ہے۔یہ ممکن ہے کہ بھارتی افواج کچھ عرصے کیلئے کشمیریوں کے غیض وغضب کو طاقت اور خوف وہراس پھیلا کر دبا لیں۔ لیکن یہ سب کچھ زیادہ عرصے تک ممکن نہیں ہے۔ بھارت اتنی بڑی تعداد میں اپنی فوج کب تک وہاں تعینات رکھ سکتا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ خود بھارت میں مودی حکومت کے اس اقدام پر وہاں کے دانشور، لکھاری اور متوازن سوچ رکھنے والے تجزیہ نگار یہ کہنے پر مجبور ہوچکے ہیں کہ ’’مودی حکومت کے اس فیصلے کے نتائج خمیازے کی شکل میں کشمیری عوام کو نہیں بلکہ بھارتی جنتا کو بھگتنی پڑے گی‘‘۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ بھارتی صدارتی فرمان نے آرٹیکل۔370 کی شکل ہی بگاڑ کر رکھ دی ہے۔ یہ بات اس حوالے سے بالکل درست ہے کہ مذکورہ آرٹیکل میں واضح ہے کہ اس میں کوئی بھی ترمیم ریاست کی آئین ساز اسمبلی ہی کرسکتی ہے جسے چھ سال سے بھی پہلے ہی تحلیل کر دیا گیا تھا اب اس کی بجائے صدر نے حکم دیا ہے کہ اس معاملے کو قانون ساز اسمبلی میں لے جایا جائے لیکن ریاست میں صدر راج ہونے کی وجہ سے قانون ساز اسمبلی بھی نہیں ہے۔ بھارتی دانشوروں کی بڑی تعداد اس بات پر متفق نظر آتی ہے کہ مودی حکومت نے اپنے حالیہ اقدام سے تمام بنیادی اور جمہوری اصولوں اور معیارات کو بھی پس پشت ڈال دیا ہے لیکن یہاں ایک بڑا سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ یہ غیر جمہوری، غیر آئینی اور غیر اخلاقی اقدام صرف جموں وکشمیر تک محدود رہے گا۔ نہیں ۔ ہرگز نہیں یہ کسی وقت بھی خود ہندوستان میں بھی استعمال ہوسکتا ہے۔ آج نہیں تو کل ۔ کل نہیں تو آنے والے دنوں میں…اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آج وادی کے لوگ حسرت ویاس کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ ڈل جھیل اداس ہے۔ کشمیری نغمے نوحے بن چکے ہیں لیکن وادی کے جوانوں کے ارادے کسی نئے منظر کی تشکیل کے لئے پرعزم ہیں جس تحریک کو سالہا سال سے طاقت کے ذریعے ختم نہیں کیا جا سکا یہ کیسے ممکن ہے کہ بعض فیصلوں سے کسی سرزمین کی جغرافیائی حیثیت میں ہی تبدیلی کردی جائے؟؟؟؟

تازہ ترین