• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اُس نے نیم بے ہوشی کے عالم میں آنکھیں کھولیں، ہاتھ کسی چیز، کسی انسان کو ٹٹول رہے تھے۔ کپکپاتے لَبوں پر کچھ نام تھے، جو وہ نقّاہت کے سبب لے نہیں پا رہا تھا، مگر افسوس کہ اس کی بات سُننے یا اُسے سہارا دینے کے لیے کوئی پاس موجود نہیں تھا، پوش علاقے میں قائم عالی شان بنگلے کے ایک کمرے میں کون سی ایسی سہولت تھی، جو اُس بیمار کو میّسر نہیں تھی، مگر پچھلے تین روز سے وہ بسترپر اسی حالت میں پڑا تھا،تکلیف اور نقاہت کی وجہ سے اٹھنے کے قابل بھی نہیں رہا تھا۔ تاہم، اُس کی تیمارداری کرنے ، خیال رکھنے یا تسلّی کے دو بول بولنے کے لیے کوئی اپنا اُس کے پاس نہیں تھا۔

وہ ایک لکھاری تھا،اُس کابچپن اپنے دادا کی گود میں کہانیاں سُنتے گزرا تھا۔اُس کےدادا ایک عالم ِ دین تھے،لیکن اُن روایتی علماء سے بالکل مختلف ، جن کاعلم ان کے ظاہر ہی سے جھلکتا ہے۔اس کے دادا کے سر پر نہ ہر وقت ٹوپی رہتی تھی، نہ ہر وقت درس و تبلیغ کرتے ۔ اُن کاعلم تو ان کے عمل سے جھلکتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ان کے شاگردوں کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل تھی، ان کا ظاہر و باطن ایک تھا۔ اس کے والد یونی وَرسٹی میں فزکس کے پروفیسر تھے۔ والد کو یونی وَرسٹی کے علاوہ ہمیشہ گھر کی لائبریری میں موجود کتابوں کے جھرمٹ ہی میں گھِرے دیکھا۔یہ گھر کے ماحول ہی کا اثر تھا کہ وہ بھی لائبریری میں رکھی کتابوں سے زیادہ عرصہ دور نہ رہ سکا اور ایک ایک کرکے ساری کتابیں پڑھ ڈالیں۔ وقت گزرتا گیا اور کتابوں سے دوستی گہری ہوتی چلی گئی، اتنی گہری کہ پھر اُسے کسی دوست کی ضرورت ہی نہ رہی ۔ اُس کے دن کا بیش تر حصّہ کتب خانوں میں گزرتا،شہر کا شاید ہی ایسا کوئی کتب خانہ ہو، جس کی خاک اُس نے نہ چھانی ہو۔ مطالعے کے ساتھ اُس میں لکھنے کا شوق بھی پروان چڑھتا گیا اور تحریر میں پختگی آگئی۔ویسے بھی لکھنے کے ساتھ فنِ تقریر اُسے وَرثے میں ملا تھا۔ اسی شوق نے کم عُمری ہی میں اس کی تحریر پختہ اور تقریر میں خاص کشش پیدا کر دی تھی۔اس کی تحریروں میں ایک کاٹ تھی ،جو سب ہی کو اپنی جانب متوجّہ کرتی ۔ ویسے یونی وَرسٹی سے فرسٹ کلاس، فرسٹ پوزیشن میں فارغ التّحصیل ہونے کے بعد اس کے پاس ملازمت کے کئی مواقع تھے ، لیکن اُس نے اپنے قلم کو ہتھیار بنا کر معاشرے کے سُدھارکا بیڑا اُٹھایا۔ گھر کے علمی ماحول نے شوق کو مزید مہمیز دی۔ اللہ تعالیٰ نے قلم میں اتنا زور اور بات میں اتنی تاثیر عطا کی کہ معاشرتی ناہم واریوں،ظلم و جبر کے خلاف اُ س کا ہر ہر لفظ اثر کرنے لگا۔قلم کا جادو ہر اِک پر چل جاتا، تحریروں کو مقبولیت ملنے لگی ،اس کی گفتگو سے بکھرے موتی اور قلم سے لکھے الفاظ، پڑھنے والوں کو ایک سحر میں مبتلا کر دیتے ۔ معاشرتی برائیوں، غریبوں پر ظلم و ستم اور زیادتیوں کو تحریروں میں اُجاگر کرنے اور ان کے خلاف آواز اٹھانے کا اس کا انداز سب سے الگ تھا۔اُس کا شمار ان لوگوں میں ہوتا تھا، جو اپنے وطن کے مستقبل سے نا اُمّید نہیں تھے،وہ دن رات انقلاب کے خواب دیکھتا اور اسے یقین تھا کہ ایک روز لوگ ضرور اس انقلاب اور تبدیلی کی آواز سنیں گے، جس کے خواب اُس نے دیکھے تھے۔

جب اس کے معاصرین اپنے قلم کو چند پیسوں کے عوض صرف اپنی معاشی ضروریات پوری کرنے کے لیے بیچ رہے تھے، تب بھی وہ ڈٹا رہا، اپنے قلم ، اپنے پیشے سے انصاف کرتا رہا۔ وہ نظام کے خلاف آواز اٹھاتا اور لوگوں کو تبدیلی کی جانب متوجّہ کرتا،وہ لوگوں میں شعور و آگہی بیدار کرنے میں مصروف رہتاکہ اپنے حق کے لیے آواز اُٹھاؤ، کرپشن ، ناانصافیوںکے خلاف متحد ہوجاؤ۔ مگر کبھی کبھی وہ محسوس کرتا کہ وہ اکیلے قوم کو بیدار کر سکتا ہے، نہ معاشرے میں سُدھار لا سکتا ہے، کیوں کہ اس کی آواز سے آواز ملانے والا کوئی نہیں تھا۔وقت گزرتا جا رہا تھا…پھر ایک روز اس نے ایک آواز سُنی،دور سے آتی وہ آواز جیسے صحرا میں بادِ صبا ۔وہ آواز اس کے رگ و پے میں سرایت کر گئی اور کیوں نہ کرتی، یہ آواز وہی باتیں دُہرا رہی تھی ، جو اس لکھاری کی سوچ تھی، جو اُس کا خواب تھا، وہ خواب جو اُس نے اپنی قوم کے لیے دیکھے تھے۔یہ انقلاب کی آواز تھی ،وہ آواز جو صبح وشام اس کے اندر گونجتی تھی،وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے اُس آواز کے پیچھے چل دیا۔ انقلاب کی بات کرنے والا اُسی کے مُلک کا ایک باسی تھا،اس کی طرح اونچے خواب دیکھنے والا،تبدیلی کی بات کرنے والا، بس فرق اتنا تھا کہ اُس شخص کے گرویدہ، اُس کی بات سُننے والے بہت لوگ تھے۔ لکھاری نے اپنی تمام ترجیحات ایک طرف رکھ کر اپنی ساری صلاحیتیں اُس ایک شخص کے لیے وقف کر دیں۔ اس کی نظر میں وہ شخص قوم کے لیے ایک ’’نجات دہندہ‘‘ تھا ۔سو ،اس نے اپنا علم ،قابلیت ،لیاقت ،ذہانت سب کچھ اس ایک شخص کےلیے وقف کر دئیے۔ دن رات ،گرمی سردی اس نے کسی چیز کی پروا نہیں کی، ہر وقت اس کے ساتھ رہتا، مظاہرے ہوںیا احتجاج ۔وقت گزرتا رہا اور بالآخر انقلاب لانے کی خواہش کرنے والوں کی محنت رنگ لے آئی۔ انقلاب کا نعرہ لگانے والا شخص مسندِ اقتدار پر براجمان ہوگیا۔

اُس روزلکھاری کی خوشی کا کوئی ٹھکانانہیں تھا۔اُسے لگا کہ اس کے دادا اور والد کی محنت رنگ لے آئی ہے ۔مگراب اس کا اندازِ تحریر بدل گیا تھا۔ اُس میںتنقید کی بہ جائے صرف تعریفیں نظر آتیں، حکومت کی عوام دشمن پالیسیز ، جھوٹ، مکر و فریب کو اُس کا قلم ’’اچھا‘‘ ہی لکھتا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اُس نےشہر کے پوش علاقے میں اپنا گھر خرید لیا، بچّوں کا داخلہ شہر کے منہگے اسکول، کالج میں کروادیا،تحریروں کو سرکار کی سرپرستی حاصل ہوگئی، اخبارات و رسائل میں نمایاں جگہ ملنے لگی،اس کی کتابیں مارکیٹ میں آنے سے قبل ہی بُک ہو جاتیں۔اہم اجلاسوں، کانفرنسزاور سیمینارز میں بلایا جانے لگا،ٹی وی پروگرام اس کے بغیر مکمل نہ ہوتےاوروہ ان سب مراعات کو’’ انقلاب ‘‘کا انعام سمجھ کر قبول کرتا گیا۔وقت کے ساتھ اسے یہ معلوم ہی نہ ہوسکا کہ کب اس کاقلم مسندِاقتدار پر بیٹھے شخص کی برائیوں کو بھی ملمّع کاری کر کے اچھائیوں میں گرداننے لگا تھا۔وہ اپنے اصول،روایات ، تہذیب اور سب سے بڑھ کر اپنی تربیت کو گروی رکھ کر اس نام نہاد انقلاب کا ساتھ دیتا رہا۔اس کے مُلک میں لاشیں گرتی رہیں،غربت و افلاس کے گھٹا ٹوپ اندھیرے چھائے رہے،مظلوم آہ بکا کرتے رہے ،منہگائی کی ناگن پھن پھلائے لوگوں کو ڈستی رہی، لیکن اسے اب یہ آوازیں سنائی نہ دیتی تھیں۔ وہ توشاہ کی شان میں قصیدے لکھنے میں مصروف تھا، اس کی آنکھیں یہ دیکھ ہی نہ پائیں کہ جس انقلاب کے طلوع ہونے کی نوید اس نے دی تھی، اس انقلاب کا سورج تو طلوع ہونے سے قبل ہی کب کا غروب ہو چکا تھا ۔اس کا قلم اب اس نام نہاد انقلاب اور تبدیلی کے قصیدے لکھنے کا عادی ہو چکا تھا۔ شہر میںاب اس کی چار کوٹھیاں تھیں، بچّے بیرونِ مُلک اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے تھے، بیوی ایک بڑی این جی او کی روحِ رواں تھی اور سرکار کے فنڈسے ایک خاص حصّہ اس این جی او کے لیے مختص تھا۔

وقت گزرتا رہا ،مگر وہ اپنے دیس میں جس انقلاب کا خواہاں تھا، وہ نہ آیا۔ البتہ، انقلاب کا نام لینے والوں کی زندگیاں ضرور بدل گئیں۔پر …یہ شُہرت، چکا چوند، بلندیاں، نام تاحیات نہیں رہتا۔ انسان کو اپنا بویا تو کاٹنا ہی پڑتاہے۔بسترِ مرگ پر اکیلے پڑے پڑے، جب اُس کے ہاتھ اپنے بیوی بچّوں کو تلاشنے اور سوکھے لب انہیں پُکارنے کی کوشش کر رہے تھے، تو اُن میں سے کوئی بھی وہاں موجود نہیں تھا۔ رزقِ حلال میں جب حرام شامل ہوجائے، تو اس سے پروان چڑھنے والی اولاد کبھی ثمر آور ثابت نہیں ہو سکتی۔ جس اولاد کے لیے اُس نے سب کچھ کیا، وہی اُسے بھول بھال کر اپنے کاموں میں مگن تھی۔ اُسے یاد آیاکہ اس کے دادا کہا کرتے تھے’’جسم کو دیمک لگ جائے ، تو پھر بھی دوا دارو کا آسرا ہوتا ہے، لیکن اگر روح کو دیمک لگ جائے تو پھر وہ انسان کوچاٹ جاتی ہے۔‘‘ ’’لکھاری‘‘ کی روح کو لگنے والی دیمک کا ذمّے دار کوئی اور نہیں ،وہ خود تھا۔اُس نےایک بار پھر اپنی آنکھیں کھولیں،کسی آہٹ کو نہ پا کر ایک گہرا سانس لیااور پھر آنکھیں موند لیں۔

تازہ ترین