• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
  • مرنا تو ہے، پھر زندہ رہنے کی کوشش کرتے کیوں نہ مَرا جائے
  • کیا موت کی سزا مقرر ہونے کے بعد بھی توبہ کے دروازے کھلے رہتے ہیں؟
  • اِک دَربدر، خاک بسر… اور عشقِ مجازی سے عشقِ حقیقی تک کا سفرِ مسلسل

اُس کا نام والدین نے بہت پیار سے ظہیر رکھا تھا، تین بیٹیوں کے بعد اکلوتا بیٹا، بہنوں کا بھائی بن کر دنیا میں آیا تو گھر میں خوشی کے شادیانے بجنے لگے۔ ماں باپ، بہنیں اُسے چوم چوم نہ تھکتے۔ وہ تھا ہی ایسا پیارا، معصوم، بڑی بڑی آنکھوں والا، جس کے کشادہ ماتھے ہی سے ذہانت جھلکتی دکھائی دیتی۔ اسکول، کالج اور یونی ورسٹی میں ہر مضمون میں اوّل، کھیل ہو یا تقریری مقابلہ، ڈراما ہو یا مشاعرہ، ظہیر ہر محفل کی جان ہوتا۔ انجینئرنگ مکمل کی اور پھر یونی ورسٹی کے وظیفے پر فزکس میں ماسٹرز بھی کرلیا۔ طبیعات اور مابعد الطبیعات اس کے پسندیدہ مضامین تھے اور اسے گولڈ میڈل بھی اسی مضمون میں ملا۔ لیکن وہ نہیں جانتا تھا کہ ایک دن گھر کا کرایہ چُکانے کے لیے اُسے وہی سونے کا تمغہ جوہری بازار لے جا کر بیچنا پڑے گا۔ یونی ورسٹی ختم ہونے کے بعد باہر کی دنیا اور مُلک کافرسودہ نظام نہایت بے رحم ثابت ہوا، نوکری کے لیےدربدر دھکّے کھاتے اس کے جوتے گِھسنے لگے، لیکن ہر اسامی پر کسی وزیر یا بڑے ا فسر کا سفارشی چُن لیاجاتا اور جو جگہ بچتی، وہاں منہ پھاڑ کر رشوت مانگی جاتی۔ ظہیر کی لیاقت، ڈگریاں کسی کام نہ آسکیں۔ گھر میں تین جوان بہنوں کی سوال کرتی نگاہیں اُسے چُبھنے لگیں۔ تبھی اُن کی گلی میں ایک روز تنظیم والے چندہ مانگنے آئے۔ ظہیر تو پہلے ہی بَھرا بیٹھا تھا۔ تُو تکار ہوگئی اور شکایت تنظیم کے بڑوں تک چلی گئی۔ ظہیر کو سرزنش کےلیےطلب کیا گیا، مگر ایک بڑےکوظہیرکےاندرجلتےالائو کی روشنی دکھائی دے گئی۔ ظہیر کو تنظیم میں شامل کر لیا گیا اور پھر جلد ہی وہ اپنی صلاحیتوں کی بدولت گلی سے محلے، اور اپنی سڑک سے ٹائون کے عہدے تک جا پہنچا۔ اُس کے بعد ضلعی سطح پر اس کا چنائو ہو گیا۔ گھر میں پیسا آنے لگا، جن نوکریوں کے لیےپہلے ظہیر دھکّے کھاتا پھرتا تھا اب وہی اسامیاں اُس کی ایک پرچی پراس کےمحلّے کےنوجوانوں اوررشتے داروں میں بٹنےلگیں۔ ظہیر کی شعلہ بیانی نے پہلی ہڑتال میں 13بسوں کو آگ دکھا دی، پھر تو اس کی ایک آواز پر شہر بند ہونے لگا۔ اب ظہیر ایک بڑا لیڈر بن چکا تھا،اس کی تنظیم میں مقبولیت عروج پر تھی۔ سب کو یقین تھا کہ اگلے الیکشن میں ظہیر صوبائی اسمبلی تک تو پہنچ ہی جائے گا، مگر ’’بڑوں‘‘ کو اب ظہیر کی یہ مقبولیت کھٹکنے لگی تھی، کیوں کہ اُن کے حساب سے ظہیر خود سر ہوتا جا رہا تھا، لہٰذا ظہیر کا شکنجہ کسنے کی تیاری شروع کردی گئی۔ اُس کے ذریعے شہر میں دوسری پارٹی کے خلاف ہڑتال کی کال دلوائی گئی اور اُسی رات شہر میں گیارہ بندوں کو مختلف علاقوں میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ بلوے اور فساد کا سارامدعاظہیر کے سرآیا۔ ایف آئی آر اُسی کے نام کاٹی گئی۔ پولیس حرکت میں آئی تو ظہیر نے تنظیم کے’’بڑے‘‘سے رابطے کی کوشش کی، مگر اس نےپھر ظہیر کی کال اٹینڈ ہی نہیں کی۔ ظہیر کو روپوش ہوناپڑا۔ یکے بعد دیگرے ایسے کئی اندھے خون اور قتل ظہیر کےکھاتے میں درج ہوتے گئے۔ تنظیم نے سرِعام ظہیر سے لاتعلقی کا نہ صرف اظہار کیا بلکہ درپردہ ظہیر کو ایک جگہ بلوا کر پولیس کے چھاپے کاانتظام بھی کروادیا۔ ظہیر گرفتار ہو گیا اور چھے ماہ کی سماعت کے بعد اُسے سزائے موت سنا دی گئی۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ اس کےساتھ کتنابڑادھوکا ہواہے، مگراپنے گھر والوں کی زندگی کی خاطر اسے چُپ سادھنا پڑی۔

دو سال قبل ظہیر کو اس موت کی قید والے احاطے میں لایا گیا۔ تب یہاں تقریباً 16قیدی تھے۔ ظہیر نے پہلے ہی دن طے کر لیا تھا کہ وہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر موت کا انتظار کرنے کے بجائے یہاں سے نکلنے کی کوئی ترکیب کرے گا، باہر اب بھی اس کے کچھ جگری دوست تنظیم میں موجود تھے، جو آج بھی اُس کے احسان مند تھے اور جان لٹانے پر ہمہ وقت تیار بھی۔ ظہیرکایہ ماننا تھاکہ دنیا کی کوئی جیل ایسی نہیں بنی، جسے توڑا نہ جاسکے۔ بس مناسب موقعے،باہر سے ٹھیک وقت پر مدد اور اندر ایک بہترین ٹیم بنانے کی ضرورت ہوتی ہے اور اُس نے اندر آتے ہی اپنے کام کے بندے تلاش کرنا شروع کر دیئے تھے۔ اُس کی عقابی نگاہوں نے پہلے دو ہفتوں ہی میں بھانپ لیا تھا کہ سزائے موت کے احاطے میں زیادہ تر قیدی موت کی سزا سُننے سے پہلے ہی مر چُکے ہوتے ہیں اور اب صرف اُن کے سانس لیتے لاشے ان کی کال کوٹھریوں میں بند تھے۔ زندہ صرف وہی رہتے ہیں، جن کے اندر ولولے، جوش کی کوئی رمق باقی رہ جاتی ہے۔ دھیرے دھیرے ظہیر نے باقی قیدیوں کا اعتماد حاصل کر لیا۔ پہلے تین ماہ کے دوران وہ بگھے، کندن مسیح،سنتوش،بخت خان اور کرم داد کے نام اپنی فہرست میں سب سے اوپر درج کر چُکا تھا۔ ان سب قیدیوں کے رویّےمیں غصّہ، جھنجھلاہٹ اور معاشرے سے شدید نفرت صاف دکھائی دیتی تھی۔ یوں بھی نفرت کا الائو اندر سُلگ رہا ہو تو انسان بے چینی کی ایک عجیب طاقت کے زیر ِاثر جلتا بُجھتا رہتا ہے۔ ظہیر نے اُسی نفرت کی طاقت کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ باقی زیادہ تر قیدی اندر سے بجھے ہوئے اور مایوس تھے اور جب انسان اندر سے بجھ جائے تو باہر جلتا کوئی بھی الائو اُسے زندہ رہنے کی تحریک نہیں دے سکتا۔ ظہیر نے ان پانچوں کے اندر سلگتی اِسی چنگاری کو ہوا دی اور اُنہیں یہ سمجھایا کہ کسی جج کے کاغذ پر فیصلہ لکھ کر قلم توڑ دینے کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ وہ کسی گھریلو چوپائے کی طرح خود چلتے ہوئےجاکر پھانسی کا پھندہ اپنے گلے میں ڈال کر سولی چڑھ جائیں۔ اُنہیں اس موت سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرنا ہوگی۔ پھر چاہے اس کوشش کے دوران ان کی جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔ مرنا تو بہرحال طےہے، تو پھر زندہ رہنے کی کوشش کرتے ہوئے کیوں نہ مرا جائے؟ اور پھران سبھی کےپاس زندہ رہنے کا ایک مقصد تھا، کیوں کہ وہ چھےکےچھے اپنے پیچھے کوئی نہ کوئی ادھوری کہانی چھوڑ آئے تھے۔ ظہیر کو یہاں سے نکل کر تنظیم کے اُس’’بڑے‘‘سے اپناحساب برابر کرنا تھا۔ اِسی طرح کندن مسیح کی ایک نامکمل کہانی تھی اور بگھے سنگھ اور سنتوش کی بھی۔ بخت خان کی آنکھوں میں بھی بہت سے نامکمل خواب ابھی باقی تھے اور کرما بھی تو پیچھے کئی ذمّے داریاں ادھوری چھوڑ آیا تھا۔ ظہیر نے ان سب کے ادھورے خوابوں کی ایک گٹھری بنائی اور ان کے دِلوں میں اُمید کی ایک نئی جوت جگا دی۔ پہرے کی زیادہ سختی شروع ہوئی تو سب سے پہلے آپس میں بات چیت کے لیے زبان ایجاد کی گئی۔ عملے اور جیل کےمعمولات کی ساری تفصیل وہ پہلے ہی ازبر کر چُکا تھا۔ حتیٰ کہ اس نےدھوپ کےچڑھنے اور سائے ڈھلنے کے میزانیے کے حساب سے گھڑی کی سوئیوں کی طرح وقت کا حساب بھی ماپ رکھا تھا۔ جیل کا گھنٹہ تو صرف گھنٹے اور آدھے گھنٹے کے گزرنے کاگجر بجاتا تھا۔ ظہیر دھوپ، سایہ اور چاندنی دیکھ کر درمیان کا وقت بھی بتا سکتا تھا، مگر اِسی عرصے میں ایک اَن ہونی ہوگئی۔ اُن کے ساتھی کرم داد کی رحم کی اپیل صدر نے بھی مسترد کر دی۔ اُس رات وہ سب مل کر روئے، جب کرمے کو ان کے سامنے آدھی رات کو جیلر ڈاکٹر اور مجسٹریٹ اُس کی کال کوٹھری سے نکال کر پچھلی جانب بنے پھانسی گھاٹ کی طرف لے جانے کے لیے آئے۔ پھانسی گھاٹ کا احاطہ کال کوٹھریوں کے بالکل پیچھے ہی بنایا گیا تھا اور جن قیدیوں کو زیادہ عبرت دینا مقصود ہوتا، اُنہیں اِسی مشرقی برآمدے کی کال کوٹھری میں بند کیا جاتا، جس کی پچھلی دیوارکےچھوٹے سےروشن دان سے پھانسی گھاٹ صاف نظر آتا تھا۔ کرم داد کو لےجانے کے لیےکھولی سے نکالا گیاتو سبھی قیدی اُسے آخری سلامی دینے اپنی اپنی کوٹھری کی سلاخوں سے لگ کر کھڑے ہوگئے۔ رات کے اندھیرے میں کلمے اور اللہ اکبر کی صدائیں گونجنے لگیں۔ سبھی قیدیوں نے اپنے سلور کے گلاس زور زور سے سلاخوں سے ٹکرانا شروع کردیئے۔ ایک چیخ و پکار سی مچ گئی۔ کچھ قیدیوں نے زور زور سے ’’اللہ ہو، اللہ ہو‘‘ کا ورد شروع کردیا۔ کرما جاتے جاتے ایک پل کےلیے ظہیر کی کھولی کے پاس رُکا ’’چلتا ہوں دوست ہوسکے تو تم میرا ادھورا کام پورا کر دینا۔ میری سانسیں بس اتنی ہی لکھی تھیں‘‘۔ ظہیر کرم داد کا بڑھا ہوا ہاتھ چُھو نہ سکا اورعملہ اُسےاپنے ساتھ لےگیا، کچھ ہی دیر میں پچھلی جانب سے کرم داد کے زور سے کلمہ پڑھنے اور تختے کا لیور کھینچے جانےکی آواز فضا میں گونجی۔ ایسے لگا، جیسے کوئی بوجھ ہوا میں گرتے ہوئے ایک جھٹکے سے فضا میں معلّق رہ گیا ہو۔ قیدیوں نے زور سے نعرہ لگایا ’’اللہ ہو …‘‘اورفضا میں خاموشی چھاگئی۔ موت کی خاموشی۔ میری اور ظہیر کی کوٹھریاں بھی اسی مشرقی طرف والے برآمدے میں تھیں، جس کے پیچھے وہ بے رحم پھانسی گھاٹ آج بھی اسی طرح ا ِستادہ دکھائی دے رہا تھا۔ رات آدھی بیت چکی تھی، اچانک فضا میں وہی تان ابھری، جو مَیں پہلے بھی کئی بار اپنی پچھلی بیرک میں سن چُکاتھا۔ بگھا اپنی درد بھری آواز میں گا رہا تھا۔ یارا عشق جِنھاں نوں لگ جاندے…حال پُچھ نہ اَونہاں دیوانیاں دے…قیدی عشق دے بگھے نئیں چُھٹ دے…قیدی چُھٹ جاندے نے جیل خانیاں دے‘‘۔

ٹھیک اُسی وقت ٹرین کی سناٹےمیں کُوکتی سیٹی کی آواز گونجی۔ مجھے یوگی کی کہی بات یاد آگئی۔ ظہیر نے دوسری جانب سے دیوار پر دستک دی ’’جاگ رہے ہو مولانا…؟‘‘ ’’نہیں، سو رہا ہوں ۔ مجھے سوتے میں بولنے کی عادت ہے۔‘‘ ظہیر زور سے ہنسا۔ ’’واہ، بڑی زندگی ہے ابھی تمہارے اندر۔ اِس زندہ دلی کو بچا کر رکھنا۔ یہی تمہیں زندہ رکھے گی باہر نکل کر۔ ‘‘میں نےاُسے بھی وہی جواب دیا ’’مجھے یہاں سےباہر جانے کا کوئی ارمان نہیں۔ میرے لیےاندر، باہر اب سبھی ایک برابر ہے۔‘‘ ظہیر چمک کر بولا ’’ایسے مت کہو، اپنی جوانی پر رحم کھائو۔ تم ایک بار یہاں سےنکلنے کی ہامی بھرو، پھر تمہیں ایران، ترکی، کےراستے یونان تک پہنچانا میرے جان نثاروں کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ اس سے پہلے بھی ہم نے کئی لوگوں کو تنظیم کے کہنے پر بارڈر پار کروایا ہے۔‘‘ ’’جن کی رُوح قیدی ہو، اُن کے جسم کتنی بھی سرحدیں پار بھیج دو۔ وہ سراسر قیدی ہی رہتے ہیں، فاصلے کسی کی قید کب ختم کر سکتے ہیں بھلا؟‘‘ ظہیر میری بات سُن کرکچھ دیرخاموش رہا ’’تم جانتے ہو مولانا! جس 17نمبر کھولی میں تم بند ہو۔ یہاں کبھی ہمارا چھٹا دوست کرماہوا کرتا تھا۔ اگر تم اس کوٹھری کی دیواروں پرچند مٹے ہوئے نام پڑھ سکو تو تمہیں ہر دیوار پر ایک ہی نام لکھا نظر آئے گا۔ پڑھ سکتے ہو تو بتائو۔‘‘ مَیں نے چونک کر سامنے کی دیوار پر دیکھا۔ کوٹھری میں دیواروں پرتازہ پیلا چُونا پھیرا گیا تھا، لیکن ذرا سی کوششکے بعد میں ہلکی چونے کی تہہ کے نیچے سیاہ کوئلے سے لگاتار کئی مرتبہ لکھا نام پڑھنے میں کام یاب ہوگیا ’’مہرو‘‘ اور پھر مجھے ساری دیواروں پر قلعی کی تہہ کے نیچے یہی ایک نام بار بار لکھا نظر آنے لگا۔ ’’یہ مہرو کون ہے…؟‘‘ ’’کرم داد کی بیٹی۔ اُس کی کُل کائنات تھی مہرو اور جانتے ہو کرم داد نے پھانسی کے لیے جاتے وقت میرے کان میں کیا کہا تھا؟‘‘میں نے بے چینی سے پوچھا ’’کیا…؟‘‘ظہیر کچھ دیر چُپ رہا۔ ’’اُس نے مجھ سے کہا تھا کہ میں تو اس دنیا سے جارہا ہوں، مگر جب تک میری مہرو مل نہیں جاتی،میری رُوح اسی جیل، پھانسی گھاٹ اورکال کوٹھری میں بھٹکتی رہے گی۔ مجھے مر کر بھی چین نہیں آئے گا۔‘‘ مجھ سے ظہیر کی خاموشی برداشت نہیں ہوئی ۔ ’’کیوں… کہاں کھو گئی کرم داد کی مہرو…؟‘‘ ’’اُٹھا لی گئی تھی۔ دو سال پہلے شادی کی رات رخصتی سے پہلےہی کوئی اُسے اٹھا لے گیا تھا۔‘‘ کرم داد کی تو جیسےکائنات ہی اُجڑگئی۔ اس کی بیوی صدمے سےپاگل ہو گئی،کیوں کہ اکلوتی بیٹی کا جنازہ تو لوگ پھر بھی اٹھا لیتے ہیں، مگر اِس معاشرے میں شادی کی رات ہی اگر جوان لڑکی گھر سے اُٹھ جائے، تو یہ کوئی ماں باپ نہیں سہہ پاتے۔‘‘ ظہیر نے مجھے بتایا کہ کرم داد جنوبی پنجاب کا ایک سیدھا سادہ، چھوٹا موٹا زمین دار تھا۔ اس نے اپنی مہرو کو ہتھیلی کے چھالے کی طرح سینت سینت کر پالا تھا۔ ذہین، خُوب صُورت اور مشرق کے رنگ میں رنگی مہرو میں اُن ددونوں میاں بیوی کی جان اٹکی رہتی۔ مہرو نے بی ۔ اے کیا تو باپ کو گوارا نہ ہوا کہ بیٹی اکیلے کسی قریبی بڑے شہر کی یونی ورسٹی کےہاسٹل جا کر رہے، لہٰذا انہوں نےمنّت سماجت کر کےمہرو کو گھر ہی پر پڑھائی مکمل کرنے پر آمادہ کر لیا۔ اور پھر خداکی کرنی ایسی ہوئی کہ اُنہی دنوں قریبی گائوں کے بہت بڑے زمیندار کے بیٹے کی نظر مہرو پر کسی تقریب میں آتےجاتے پڑگئی۔ مہرو کی ناک کی کِیل لمحے بھر کو جو چمکی تو وہ کوکا سیدھا احمد کے دل کےپار ہوگیا۔ اُس نے شریف زادوں کی طرح سیدھے جاکر اپنی ماں کےکان میں یہ بات ڈال دی اور اگلے ہفتے ہی وہ لوگ رشتہ لے کر مہرو کی چوکھٹ پرکھڑے تھے۔ کرم داد کو اپنی بیٹی کی خوش قسمتی پر رشک آنے لگا۔ مہینے بھر ہی میں مہرو کو منگنی کی نشانی ڈال دی گئی۔ نکاح اور رخصتی کی تاریخ بھی طے ہو گئی اور مہرو بابل کےگھر کی یادیں ساجن کے آنگن لے جانے کے لیےروزانہ یادوں کی ایک چھوٹی سی پوٹلی بنانے لگی، کیوں کہ پھرعُمربھر لڑکیوں کو اپنی سنہری یادوں کی انہی ریشمی گٹھریوں کو ایک ایک کر کےکھولتے رہنا ہوتا ہے۔ اور پھر… مہرو کی رخصتی سے پہلے منہدی کی رات بھی آپہنچی۔ اُسے اگلےروز اپنے آنگن سے دولھا کے سنگ رخصت ہو جانا تھا، مگر منہدی کی رات ہی کرم داد کے گھر پر قیامت گزرگئی۔ مہرو چند لمحے کے لیےاپنے کمرے سے نکلی اور پھر کبھی پلٹ کر واپس نہیں آئی۔ سارے علاقے میں کہرام مچ گیا۔ صبح تک بات پولیس تھانے اور کوتوالی تک بھی پہنچ گئی۔ سب نے مہرو کی تلاش میں سارا علاقہ چھان مارا، مگر اُس کا کچھ پتا نہ چلا۔ کرم داد کی دنیا اندھیر ہوگئی۔ دولھےوالوں نےلڑکی کےکردارپر الزام لگادیا کہ وہ پہلے ہی سے کسی اور کی محبت میں مبتلا تھی، اسی لیے موقع ملتے ہی گھر کی ناموس اور دہلیز دونوں پار کر گئی۔

کرم داد اپنی معصوم، بھولی بھالی مہرو کے لیے گلی محلّے میں یہ غلیظ سرگوشیاں سُنتا تو اس کے تن بدن میں آگ لگ جاتی، اُس کا بس نہیں چلتا تھا کہ ایسے بدخواہوں کی زبان گُدّی سے کھینچ لے۔ ایسی ہی ایک تپتی دوپہر گھر لوٹتے وقت کسی اوباش نے کرم داد کے تانگے کے پیچھے سے مہرو کے لیے کوئی گندا آوازہ کسا،تو اُس کے اندر کاجوش مارتا خون آنکھوں سے ابل پڑا اور کچھ لمحے بعد ہی گالی بکنے والا شخص سڑک پرتڑپتاپایاگیا۔ تانگے کی پچھلی سیٹ پر رکھی گھاس چارہ کاٹنے والی درانتی کرم داد نےاس طعنہ زن کے پیٹ میں ساری ہی بھونک ڈالی تھی۔ کرم داد کےکوچوان اور جدّی پشتی ملازم نے کرم داد کو فورا ً بھگالے جانے کی پیش کش کی مگر وہ جاتا بھی تو کہاں۔ سو، اُس نےکوچوان سے تانگہ سیدھے بڑے تھانے کی طرف موڑنے کا کہہ دیا۔ مرنے والےکے ورثاء نے بڑا وکیل کیااورکرم داد اس چھوٹی سی کال کوٹھری میں آپہنچا۔ بیوی جو پہلےہی صدمے سے نیم پاگل تھی۔ شوہر کی جدائی نے اسے پورا دیوانہ کردیا۔ کرم داد کی ہنستی بستی دنیا چند ہفتوں ہی میں اندھیر ہو گئی اور اُسے اُسی جیل میں سولی چڑھا دیا گیا، مگر مہرو کے غائب ہو جانے کا راز راز ہی رہ گیا۔ کرم داد نے ظہیر کےساتھ جیل سے بھاگنے کی رضا مندی بھی اِسی لیے ظاہر کی تھی کہ وہ اپنی مہرو کو ڈھونڈ کر دوبارہ اُس کی ماں کی بے نور آنکھیں روشن کرنا چاہتا تھا، مگر موت کے اندھیروں نےخود اُسی کو ہمیشہ کے لیے نگل لیا۔ ظہیر بولتے بولتے کچھ دیر کے لیے خاموش ہوا تو مجھے اپنی کوٹھری کی ساری دیواروں پر لکھے مہرو کے نام سے کرم داد کی مجبور اداس آنکھیں جھانکتی محسوس ہو ئیں۔ جانے کیوں مجھے پل بھر کے لیے ایسا لگا، جیسے اس وقت کرم داد بھی وہیں کہیں آس پاس سر جُھکائے بیٹھا اپنی بربادی کی یہ ساری داستان سُن رہا ہے۔ ہلکی سی آہٹ ہوئی میں نے چونک کر نظر اٹھائی، باہر رات پوری بھیگ چُکی تھی، ظہیر کی آواز اُبھری ’’اور جانتے ہو مولانا!ہم سب ساتھیوں نےکرم داد سےکیا وعدہ کیا تھا؟‘‘ ’’کیا…؟‘‘ میں نے بےچینی سے پہلو بدلا، ظہیر کی آواز میں دکھ تھا ’’ہم سب نے اُس سے یہ وعدہ کیا تھاکہ ہم میں سےجس کو بھی یہ کوٹھری نمبر 17 الاٹ ہوئی یا پھر ہم میں سےجس کو بھی یہاں منتقل کیا گیا، وہ جیل سے فرار کی صُورت میں سب سے پہلے کرم داد کی مہرو کو ڈھونڈے گا، لیکن بدقسمتی سےہم پانچوں کی تین چار بار کھولیاں تبدیل کرنے کےباوجود آج تک کسی کو یہ کال کوٹھری نہیں ملی۔ اور پھر ایک دن تم اس زنداں میں آگئے اور اب شاید ہم میں سےکسی دوسرےکو یہ کھولی کبھی نہ ملے، کیوں کہ اسی مہینے کی سترہ تاریخ کو ہم سب نے یہاں سےفرار ہونے کی تیاری کرلی ہے۔ جانے ہم میں سےکون زندہ باہرنکل پائےگا اور باہرجاکراسے مہروکی تلاش میں نکلنے کی مہلت ملے گی بھی یاپھر کرم داد کی روح یونہی سدا بھٹکتی رہے گی۔ تم ہمارا ساتھ نہیں دے سکتے تو نہ سہی، لیکن ہمارے لیے دُعا تو کر سکتےہو ناں۔ دُعا کرنا کہ ہم میں سے بچ جانے والا کوئی بھی کرم داد کی مہرو کو اس کی مجبور اور بےکس ماں کےپاس پہنچا سکے۔‘‘

ظہیر خاموش ہوا تو صُبح کی اذان کی آواز گونجی۔ جیل میں اور خاص طور پر ان کال کوٹھریوں میں نماز کا بہت اہتمام کیاجاتاہے۔ جانےموت کی سزا مقدر ہو جانےکے بعد بھی توبہ کے دروازے کُھلے رہتے ہیں یا نہیں اور کیا ہماری دعائوں کو عرش تک رسائی ملتی بھی ہے یا نہیں، مگر مَیں نے پھر بھی نماز ختم کی تو ہاتھ خودبخود دُعا کے لیے اٹھ گئے۔ ظہیر نے بتایا تھا کہ وہ سب اسی مہینے کی 17 تاریخ کو یہاں سے فرار کا منصوبہ بنائے بیٹھے ہیں۔ آج دس تاریخ تھی، اور بدھ کا دن، یعنی ٹھیک اگلے بدھ کی رات اُن کی اس جیل یا دنیا میں آخری رات ثابت ہونے والی تھی، لیکن میں ابھی تک ظہیر کے اصل منصوبے سے ناواقف تھا۔ شام کی ٹہلائی کے دوران وہ پانچوں اپنی زنجیریں کھنکا کر آپس میں جانے کیا باتیں کرتے رہے، مگر ان کے چہروں پر جوش اور شدید بے چینی کے آثار صاف بتا رہے تھے کہ اُن سب کو اپنے منصوبے کی کام یابی پر پورایقین ہے۔ اُن کا اعتماد اٹل تھا۔ اُس رات ظہیر جانے کیوں خاموش رہا تو مجبوراً مجھےدیوار پر دستک دینی پڑی۔ دوسری طرف سے ظہیر کی آواز آئی ’’جاگ رہے ہو مولانا! آج تم سو جائو۔ کیوں کہ ڈیڑھ حوالدار نے جو نقشہ پہنچایا ہے، مجھے اس کی باریکیاں سمجھنے میں پوری رات لگے جائے گی‘‘۔ میں نےپھردیوارپر دستک دی، ’’کیوں، کیا تم اپنے چھٹے ساتھی کو منصوبے میں شریک نہیں کرو گے…؟‘‘دوسری جانب ظہیر یقیناً اچھل پڑا ہوگا۔ ’’کیا…؟ تم سچ کہہ رہے ہو، تم بھی ہمارے ساتھ …؟‘‘ مَیں نے گہری سانس لی ۔ ’’ہاں … تم سب کو اپنا اپنا مقصد پورا کرنا ہےیہاں سے نکل کر، لیکن میرا صرف ایک ہی مقصد ہوگا کرم داد کی مہرو تلاش کرکےاُسے اُس کی ماں تک پہنچانا۔‘‘ ظہیر زور سے چلایا… ’’جیو میرے شیر…‘‘ میں پُرسکون رہا’’لیکن میری ایک شرط ہے‘‘۔ (جاری ہے)

تازہ ترین