• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صوبائی اسمبلی کے انتخابات کی صُورت قبائلی اضلاع کے خیبرپختون خوا میں انضمام کا ایک اہم مرحلہ مکمل ہوچکا ہے، جس کےبعد اب قبائلیوں کی آو از بھی صوبائی اسمبلی میں گونجے گی اوراُن کے مسائل بھی سنے جا سکیں گے۔یہ کوئی معمولی بات نہیں، بلکہ انتہا پسندی و دہشت گردی کی ایک طویل کالی رات کے بعد پُر امن صبح کی نوید ہے کہ قبائلی اضلاع میں امن و امان کے قیام کے لیےعوام اور سیکیورٹی فورسز کی بیش بہاقربانیاں رنگ لے آئی ہیں۔ خوف وہراس ، رنج و الم کے دن گزر گئے اور اب ان پسماندہ ترین علاقوں میں بھی خوش حالی کا ایک نیا دَور شروع ہورہا ہے۔ قبائلی علاقے، علاقۂ غیر سے علاقۂ خیر بن گئےہیں۔اس امر میں کوئی شک نہیں کہ دسمبر 1979 ء میں افغانستان میں روسی جارحیت کے بعد سے قبائلی سُکون کی نیند نہیں سو سکے ۔ وہ پچھلے 40 سال سے امن کے متلاشی ہیں، آتش و آہن کی بارش ،جنگی جہازوں کاشور اورگولیوں، بمو ں کی خوف ناک آوزیںآج بھی ان کے کانوں میں گونجتی ہیں۔قبائلی علاقوں کو روس کے خلاف جنگ کے لیے بیس کیمپس کے طورپر استعمال کیا گیا ،جس میں قبائلی بھی شریک رہے۔تاہم، روسی شکست کے بعد بھی افغانستان میں تا حال امن قائم نہ ہوسکا اور وہ آ ج تک جنگ و جدل کا مرکز بنا ہوا ہے۔ مجاہدین کے بعد طالبان اور پھر القاعدہ نے افغانستان کو اپنا ٹھکانہ بنایا، جس کے بعد اب وہاںداعش نے بھی اپنے پنجے گاڑنےشرو ع کردئیے ہیں ۔قابلِ تشویش امر یہ ہے کہ افغانستان میں بدامنی کابراہِ راست اثر پاکستان پر پڑتا ہے، کیوں کہ پاک افغان سرحد 2400کلومیٹر طویل ہے، جس میں موجود دشوار گزار پہاڑی سلسلے ،جنگل اور گھاٹیاں دہشت گردوں کے دونوں ممالک آنے جانے میںاستعمال ہوتی ہیں ۔ افغانستان میں امریکی حملے کے بعدپاکستانی قبائلی علاقوں کی صورتِ حال مزید خراب ہوگئی، کیوں کہ افغانستان میں لڑنے والی تمام تنظیموں کے کارندے پاک افغان سرحد عبور کرکے قبائلی علاقوں میں داخل ہوگئے ۔

علاقہ غیر سے علاقہ خیر تک کا کٹھن، مگر کامیاب سفر
کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل شاہین مظہر محمود پاک ،افغان سرحد کا دورہ کرتے ہوئے

تحریک ِطالبان نے قبائلی علاقوں کے ساتھ مالاکنڈ، سوات، بونیراور بعض دیگر علاقوں پر بھی عملا ًقبضہ کرلیا ، نتیجتاً حکومتی رِٹ محدود ہوتی چلی گئی ۔دہشت گرداتنے منظّم ، جدید اسلحے سے لیس اور اس قدرتربیت یافتہ تھے کہ پولیس کے لیے اُن کا خاتمہ کرنا ممکن ہی نہیں تھا۔انہوں نے پورے پاکستان، بالخصوص قبائلی علاقوں کا امن و سکون برباد کرکے رکھ دیاتھا ۔ لہٰذااِسی صورتِ حال سے نمٹنے ، انتہا پسندوں کا قلع قمع کرنے اور امن و امان بحال کرنے کی خاطر پاک فوج نے مُلک بھر میںآپریشن کا باقاعدہ آغاز کیا ۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں حکومت کی نا کامی کے بعد2009ء میں سوات میں ’’آپریشن راہِ راست‘‘ کا آغاز کیا گیا، جس میں سوات اور بونیر کے علاقو ں میںکلین اَپ کرکےان علاقوں میں حکومتی رِٹ بحال کی گئ۔پھرپاک فوج نے قبائلی علاقوں میںبھی متعدد چھوٹے ، بڑےآپریشنز کیے، جن میں’’آپریشن المیزان‘‘ ،’’آپریشن شیر دل ‘‘،’’آپریشن راہ ِحق ‘‘ ، ’’آپریشن راہِ راست ‘‘ ، ’’آپریشن راہ ِنجات‘‘ ،’’ ضربِ عضب‘‘اور ’’ردّالفساد‘‘ وغیرہ شامل ہیں ۔آپریشن ضربِ عضب کاآغاز 2014ء میں ہوا ،جس میں قبائلی علاقوں کو دہشت گردوں سے مکمل طورپر پاک کردیا گیا ۔ تاہم،اب ان علاقوں میں محض امن کی بحالی سے خوش حالی کا حصو ل ممکن نہ تھا کہ دہشت گردوں کے خلاف جنگ میںنہ صرف کئی معصوم جانیں ضائع ہوئیں، بلکہ تعلیمی ادارے،اسپتال، انفراسٹرکچر وغیرہ سب ہی کچھ تباہ و برباد ہوکر رہ گیا۔ سو،علاقے کی سماجی ومعاشرتی زندگی کی بحالی ، اسکولوں ،اسپتالوں اور سڑکوں کی تعمیر بھی پاک فوج کے لیے ایک چیلنج بن گئی۔ذرایع کے مطابق اب بھی شمالی وزیرستان میں سرحد پر باڑ کی تعمیر تک ،بعض علاقوں میں دہشت گردوں کی آمدورفت روکنا مشکل ہے، لیکن پاک فوج کی کوشش ہے کہ یہ کام جلداز جلد پایۂ تکمیل تک پہنچ جائے ۔

علاقہ غیر سے علاقہ خیر تک کا کٹھن، مگر کامیاب سفر
ایک قبائلی، پولنگ اسٹیشن کی سیکیورٹی پر مامور جوان کو ہار پہنا رہا ہے

بہرحال، قبائلی علاقوں میں اب پاک فوج اور عوام کی قربانیوں کے ثمرات ملنا شروع ہو گئے ہیں۔ سیاہ رات ،روشن صبح میں ڈھل رہی ہے اور قبائلی علاقے امن و ترقّی کی جانب گام زن ہیں ۔ خیبر پختون خوا اور انضمام شدہ قبائلی علاقوں کے 47ہزار مربع کلو میٹر علاقے کو دہشت گردوں سے مکمل طورپرپاک کر دیا ہے۔ یہ علاقے اب’’ نو گو ایریا ‘‘ نہیں رہے، کوئی بھی شہری صوبے بھر میں مکمل آزادی کے ساتھ کسی بھی علاقے میں جا سکتا ہے۔ اور صرف حکومتی رِٹ ہی نہیں، عوام کا اعتماد بھی بحال ہوچکا ہے ،یہی وجہ ہے کہ لوگ دوبارہ اپنے آبائی علاقوں میں منتقل ہو کر پُر سکون زندگی گزار رہے ہیں۔آپریشن کے دوران یہاںسے لاکھوں افراد کو نقل مکانی کرنا پڑی تھی کہ سوِل آبادی کی موجودگی میںفوجی آپریشن ممکن نہیں ہوتا، جب کہ سفّاک دہشت گرد آبادی میں چُھپ کر کارروائیاں کررہے تھے،مگر فوج کی جوابی کارروائی کی صورت میں شہریوں کی جانوں کو شدید خطرات لاحق تھے،لہٰذا قبائل کو نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑا ۔ نیز،اب ریاست کو بعض دیگر چیلنجز کا بھی سامنا ہے۔ بعض شر پسندعناصر عوام کو اشتعال دلانے کے لیےان کی محرومیوں اور جانی ومالی نقصان کو جواز بناکر، انہیںر یاست اورپاک فوج کے خلاف باقاعدہ ایک منظّم سازش کے تحت اُکسارہے ہیں،جن میں سے کچھ عناصر کو بیرونی مدد بھی حاصل ہے ، لیکن ریاست ماں بن کر انہیں راہِ راست پر لانے میں دل چسپی رکھتی ہے ، یہی وجہ ہے کہ تمام ناراض افراد سے بات چیت کی جارہی ہے ، تاکہ ان کی جائز شکایات کا ازالہ کیا جاسکے ۔بلا شبہ اس بات میں دورائے نہیں کہ قبائلی عوام نے پاکستان بچانے کے لیے ہمیشہ ہی قربانیاں دی ہیں، لیکن علاقے میں امن و امان کے قیام کے لیے فوجی آپریشن ہی آخری حل تھا، جس کے دوران بیش قیمت جانی ومالی نقصان بھی ہوا، جس کا حکومت اور فوج دونوں کو ادراک ہے اور اس کے ازالے کی تمام تر ممکن کوششیں بھی کی جاری ہیں۔فوجی ذرایع اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ قبائلی علاقوںمیں بارودی سرنگوں کی صفائی اور لاپتا افراد کی تلاش، دو اہم مسائل ہیں، جن پر توجّہ دی جارہی ہے اور اس حوالے سے خاصی پیش رفت ہوبھی چکی ہے۔ تاہم، ان باتوں کو ایشوز بنا کربعض عناصر فوج اور عوام کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا کے ذر یعے جنگ سے متاثرہ افراد کو سماجی و سیاسی طور پر اُکسایا جا رہا ہے، حالاں کہ عوام کی پریشانی دیکھتے ہوئےسیکیورٹی چیک پوسٹس کی تعداد میں بتدریج کمی کی جارہی ہے ۔اورلاپتا افراد کی تلاش کے لیے بھی کمیٹیاں تشکیل دے دی گئیں ہیں، جب کہ بارودی سرنگوں کی صفائی کے دوران توپا ک فوج کے درجنوں جوان جامِ شہادت نوش کرچُکے ہیں۔ پھر عوام کی محرومیاں دُور کرنے کے لیے وہاں مُلکی قوانین کا بھی اطلاق ہورہا ہے۔ 

عدالتی اور پولیس کانظام کام کررہا ہے،تاکہ عوام کے مسائل اُن کےاپنے ہی علاقوں میں حل ہوجائیں ۔ویسے قبائلی عوام کی نمایندگی قومی اور صوبائی اسمبلی میں توموجود ہے، بلدیاتی نظام کے قیام کے بعد نچلی سطح پر بھی جمہوری عمل مکمل ہو جائے گا،تو قبائل ملکی دھارے میں شامل ہو کر مُلک کی ترقّی و خوش حالی میں اپنا کردار ادا کرسکیں گے ۔خوش آئند بات یہ ہے کہ عوام، حکومت اور فوج قبائلی علاقوں کے انضمام کے تمام مراحل کی تکمیل کے لیے ایک پیج پر ہیں ،اسی بنا ء پر حال ہی میں صوبائی اسمبلی کے 16حلقوں میں تاریخی انتخابات ہوئے ۔ پہلی مرتبہ قبائلی عوام نے آزادانہ، منصفانہ اور شفّاف انداز میں ارکانِ صوبائی اسمبلی کا انتخاب کیا۔یاد رہے،پاک افغان سرحد طویل پہاڑی سلسلوں پر مشتمل ہے اور یہاں باڑ لگانا یا خندقیں کھودنا ایک دشوار ترین کام ہے۔ ستمبر2014میں سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے حکومت ِپاکستان اور پاک فوج نے باقاعدہ طور پر باڑ لگانے کا کام شروع کیا۔ چوں کہ پاک، افغان سرحد خیبر پختون خوا اور بلوچستان سے ملحقہ ہے، لہٰذا خیبر پختون خوا کے ساتھ ملحقہ سرحد پر830کلو میٹر باڑ لگانے کا کام الیون کور، پشاور کے سپرد کیا گیا، جس میں سے563کلو میٹر( یعنی68فی صد)سرحد کو محفوظ کر لیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ سرحد پر قلعوں کی تعمیر کا کام بھی جاری ہے، جن سے سرحد کی بہتر نگرانی ممکن ہے۔ مجموعی طور پر 443قلعے تعمیر ہوں گے، جن میں سے اب تک 213مکمل ہو چکے ہیں ،جب کہ باقی ماندہ230،2020ء تک مکمل کیے جائیں گے۔یہاں بعض پہاڑوں کی اونچائی 13ہزار فیٹ تک ہے ،جہاں قلعے تعمیر کرنے کا عمل انتہائی دشوار ہے۔ موسم ِسرما میں ان پہاڑوں پر کئی کئی فیٹ برف پڑتی ہے، ضلع دیر کا ایک قلعہ 13ہزار فیٹ کی بلندی پر اور دوسرا10460فیٹ کی بلند پہاڑی پر تعمیر کیا گیاہے۔ساتھ ہی دونوں ہم سایہ ممالک کے درمیان تجارت کے فروغ پر بھی زور دیا جا رہا ہے، جس کے لیے طورخم، غلام خان اور خرلاچی کے راستے کھول دیئے گئے ہیں، جب کہ انگور اڈّے کے ٹرمینل پر کام جاری ہے۔ علاوہ ازیں، حکومت نے اُن علاقوں میںسرحد کھولنے کا فیصلہ کیا ہے،جہاں سرحد کے باعث قبائل تقسیم ہیں ۔ سرحد کے آر پار جانے کے لیے انہیں خصوصی کارڈ زجاری کیے جائیں گے، تاکہ وہ اپنے رشتے داروں سے مل سکیں۔دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران چوں کہ دہشت گردوں نےاسکولوں کو بھی نشانہ بنایا ، تواس نقصان کا ازالہ کرتے ہوئے اب تک 336اسکولز بحال کیے جا چکے ہیں، جن میں 13ہزار بچّے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ علاوہ ازیں، پاک فوج نے قبائلی یہاں کیڈٹ کالجز بھی قائم کیے ہیں، جن میںتقریباً 2,500 طلبہ زیورِ تعلیم سے آراستہ ہو رہے ہیں۔ سرکاری اسکولز میں بچّوں کی تعداد 25فی صد سے بڑھ کر 60فی صد تک پہنچ چکی ہے،جب کہ مزید اضافے کی کوششیں جاری ہیں۔پھر قبائلی علاقوں کے 9ہزار نوجوانوں کو فوج اور ایف سی میں بھی بھرتی کیاگیا ہے اور بعض کو بیرونِ مُلک بھی بھجوایا گیاہے،تاکہ وہ اپنے خاندانوں کی کفالت کر سکیں۔یہاں صحت کی سہولتیںناپید تھیں۔دہشت گردانہ کارروائیوں کے نتیجے میںاسپتالوں کی عمارتیں بُری طرح متاثر ہوئی تھیں، تو سات قبائلی اضلاع میں 37اسٹیٹ آف دی آرٹ اسپتال تعمیر کیے گئے ہیں، جن میں جدید مشینری نصب کی جا چکی ہے پسماندہ قبائلی اضلاع میں امن و امان کی بحالی،تعلیم و صحت کے مراکز قائم کرنےکےساتھ سڑکوں کا ایک وسیع جال بھی بچھایا جا رہا ہے، تاکہ لوگوں کو سفری سہولتیں میّسرآ سکیں۔اس ضمن میں873کلو میٹر تک شاہراہوں کی تعمیرمکمل ہوچکی ہے، جن میں پشاور طورخم روڈ، وانا مکین روڈ، وانا انگور اڈّہ روڈ، جنڈولہ مکین روڈ وغیرہ شامل ہیں۔ علاوہ ازیں،863کلو میٹرچھوٹی سڑکیں بھی تعمیر کی گئی ہیں۔ اب قبائلی اضلاع میں مزید682کلو میٹر سڑکوں کی تعمیر کا کام جاری ہے ،ساتھ ہی قبائلی عوام کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کا مرحلہ بھی مکمل ہو چکا ہے،جس کے تحت70کمرشل مراکز تعمیر کیے گئے ہیں، جن میں دُکانوں کی تعداد3000کے لگ بھگ ہے ،یوں قبائلی اضلاع میں3ہزار خاندانوں کو براہ ِراست روزگار کے مواقع فراہم کیے گئے ۔نیز، جنوبی وزیرستان کی تحصیل وانا میں ایک زرعی پارک بھی قائم کیا گیا ہے۔

افغان سرحد کو محفوظ بنانے کی کوششیں

پاکستان کی جانب سے پاک، افغان بارڈر کو محفوظ بنانے کے لیے مختلف ادوار میں کئی کوششیں کی گئیں۔2005-06ء میں اُس وقت کے صدرجنرل (ر) پرویز مشرف نے خاردار باڑ لگانےاور تمام چوکیوں پر بائیو میٹرک نظام کی تنصیب کی تجویز دی تھی، لیکن افغان حکومت نے اُسےیہ کہتے ہوئے رَد کر دیا کہ سرحدی علاقوں میں مقیم قبائل ایک دوسرے کے رشتے دار ہیں ،باڑ لگنے کی صورت میں انہیں آمدورفت میں پریشانی ہو گی۔2007ء میں ایک مرتبہ پھر باڑ لگانے کا خیال ظاہر کیا گیا ،لیکن تجویز پرعمل درآمد نہ ہو سکا۔2009ء میں باڑ لگانے اور خندقیں کھودنے کا منصوبہ بنایا گیا ،لیکن صرف چند مخصوص علاقوں ہی میں خندقیں کھودی جا سکیں اور35کلو میٹر پر مشتمل سرحدی علاقے میں باڑ لگائی گئی ۔ تاہم، ستمبر2014ء میں کم و بیش2400کلو میٹر طویل سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے حکومتِ پاکستان اور پاک فوج نے باقاعدہ طور پر باڑ لگانے اور سرحد کو عالمی معیار کے مطابق بنانے کے لیے بارڈر مینجمینٹ پر اتفاق کیا۔ ڈیورینڈ لائن کے ذریعے پاکستان اورافغانستان کے درمیان تجارت اور شہریوں کی آمدورفت کے لیے 64سے زائد کراسنگز ہیں، جن میں سے 16 کو قانونی حیثیت حاصل ہے۔ خیبر ایجینسی میں طورخم بارڈر، شمالی وزیرستان میں غلام خان، جنوبی وزیرستان میں انگور اڈّہ اور بلوچستان میں چمن بارڈر سے باقاعدگی سے تجارت اور شہریوں کی آمدروفت ہوتی ہے۔ پاک افغان بارڈر کا زیادہ تر حصّہ اورکزئی ایجینسی کے سوا،وفاق کے زیرِ انتظام تمام قبائلی علاقہ جات سے ملتا ہے۔ خیبر ایجینسی کی سرحد افغان صوبے ننگرہار ،کُرّم ایجینسی کی پکتیا اور خوست، مہمند ایجینسی کی کنڑ، جنوبی وزیرستان کی پکتیکا اور شمالی وزیرستان کی سرحد افغان صوبوں، پکتیکا اور خوست سے ملتی ہے۔ ان کے علاوہ افغانستان جانے والے دیگر اہم راستوں میں باجوڑ ایجینسی میں نواں پاس، مہمند ایجینسی میں غاخی پاس اور اولئی اور کُرّم ایجینسی میں تری مینگل شامل ہیں۔ یاد رہے،اکثر افغان باشندے مہمند ایجینسی، کُرّم ایجینسی، باجوڑ ایجینسی، چترال اور دیر بالا کے راستے غیر قانونی طریقے سے پاکستان میں داخل ہوتے تھے۔ان مذکورہ بالا علاقوں سے افغان صوبے نورستان کی سرحد ملتی ہے ، مگراب ان راستوں کےذریعے آمدروفت بند ہو چکی ہے، جب کہ خیبر ایجینسی میں دریائے کابل کے راستے بھی بڑی تعداد میں آمدورفت رہتی تھی۔ بلوچستان میں چمن بارڈر پرکراسنگ پوائنٹ افغان صوبے قندھار سےمتصل ہے ،جب کہ بلوچستان کے دیگر کراسنگ پوائنٹس میں ٹوبہ اچکزئی ، لقمان کلی باچا ٹینٹ، روغانی اور اسپنہ تیڑہ شامل ہیں ، ان کراسنگ پوائنٹس کے ساتھ افغانستان کے علاقے ریگ، اسپن بولدک اور ویش منڈی لگتے ہیں۔

پاک فوج کی ’’الیون کو ر‘‘ کی تاریخ پراِک نظر

پاک فوج کی گیارہویں یا الیون کور 1975ء میں قائم ہوئی اور خیبر پختون خوا اور شمالی علاقہ جات کی حفاظت کی ذمّے داری اسے سونپی گئی۔ الیون کور نے افغان جنگ،کا رگل جنگ اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حصّہ لیااور انتہائی اہم کردار اداکرتے ہوئے، مادرِ وطن کی حفاظت کی ذمّے داری بخوبی سرانجام دی۔ اس کے پہلے کورکمانڈر جنرل مجید ملک تھے ، جنہوںنےاپریل 1975ء میں چارج سنبھالا اور مارچ 1976ء تک پشاورمیں کور کی سربراہی کرتے رہے ۔کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل شاہین مظہر محمود پشاورکور کے موجودہ کمانڈر ہیں، جن کو اکتوبر 2018ء میں اس عہدے پرتعینات کیا گیا ۔ جنرل شاہین مظہر اس سے قبل فرنٹیئرکور کے آئی جی بھی رہ چکے ہیں ۔

قبائلی علاقوں کا شمار بہت جلد دنیا کے ترقّی یا فتہ علاقوں میں ہوگا ،کورکمانڈر پشاور،شاہین مظہر محمود

کو رکمانڈر ، پشاور،لیفٹیننٹ جنرل شاہین مظہر محمود نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ’’ بہت جلدقبائلی علاقوں کا شمار نہ صرف پاکستان، بلکہ دنیا کے ترقّی یافتہ علاقوں میں ہوگا،کیوں کہ قبائلی علاقے معدنیات کی دولت سے مالا مال ہیں اور سیاحتی حوالے سے بھی ان کا مقابلہ دنیا کے کسی بھی سیّاحتی مقام سے کیا جا سکتا ہے۔ پاک فوج نے قلیل عرصے میں قبائلی علاقوں کےتما م شعبوں کے ترقّیاتی منصوبے مکمل کرلیے ہیں، جن کو اب صوبائی حکومت کے حوالے کردیا گیا ہے ، یعنی اب قبائلی علاقوں میں ترقیاتی کاموں کی منصوبہ بندی اور تکمیل صوبائی حکومت کروائے گی ۔‘‘ میڈیا سے غیر رسمی گفتگو میں انہوں نے قبائل کی قربانیوں کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’’قبائل نے مُلک کی خاطر بیش بہاقربانیاں دی ہیں، لہٰذا اب ہم سب کو مل کر ان کے دُکھوں اور مسائل کا مداوا کرنا ہے ۔قبائل کو قومی دھارے میں لانے کا خواب اب حقیقت بن چکا ہے۔قومی و صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے مراحل مکمل ہوچکے ہیں اور اب بہت جلد بلدیاتی انتخابات کے ذریعے اختیارات نچلی سطح پر بھی منتقل ہو جائیںگے ۔‘‘

تازہ ترین